لاک ڈاون کے دوران ذہنی دباؤ اور پریشانی پر کیسے قابو پائیں؟

لاک ڈاون کے دوران لمبے عرصے تک گھر میں بند رہنا اور بریکنگ نیوز کا لگے رہنا آپ کو بے چینی اور ذہنی دباؤ میں ڈال رہا ہوگا۔ اس سے نمٹنے کے لیے ماہر نفسیات کے کچھ مشورے۔

اگر صحت سے متعلق پریشانی غالب آ گئی تو آپ کیا کریں گے؟ (تصاویر: پکسابے)

برطانوی حکومت نے کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 23 مارچ کو لاک ڈاؤن کی پابندی عائد کر دی۔

لاک ڈاؤن کے تحت غیر ضروری سفر پر پابندی لگا دی گئی۔ شراب خانے، ریستوران اور تھیئٹر بند کر دیے گئے جب کہ لوگوں کو کہا گیا کہ اگر وہ لازمی کارکن نہیں ہیں تو گھر سے کام کریں۔

بیمار افراد، 75 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں اور حاملہ خواتین سے بھی کہا گیا کہ وہ 12 ہفتوں کے لیے سماجی رابطے کم سے کم کر دیں۔

صورت حال کی سنگینی واضح ہونے کے باوجود خطرے کو  تناظر میں رکھنا اہمیت کا حامل ہے۔ (برطانیہ میں 18-2017 میں فلو کے سیزن میں 26408 اور 19-2018 میں 1692 ہلاکتیں ہوئیں)۔ برطانیہ کے چیف میڈیکل افسر کرس وِٹی کا اندازہ ہے کہ کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح ایک فیصد ہے۔ اس سے پہلے لگائے گئے دوسرے تخمینے زیادہ یعنی دو سے 3.4 فیصد  تھے۔ موازنہ کیا جائے تو سارس وائرس کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی شرح 10 فیصد تھی۔

عالمی ادارہ صحت اور  برطانیہ کے محکمہ پبلک ہیلتھ نے بھی خبردار کیا کہ اگر آپ بنیادی صفائی کا اچھی طرح خیال رکھتے ہیں جیسے کہ باقاعدگی سے ہاتھ دھونا اور کھانستے وقت ناک اور منہ پر کو ڈھانپا تو اس صورت میں آپ کو خوف زدہ ہو کر چہرے پر لگانے کے لیے ماسک، ربڑ کے دستانے یا انتہائی حفاظت کا دوسرا سامان خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو آئندہ ہو گا بلاشبہ اس پر سب کے لیے پریشانی سے بچنا مشکل ہے۔

کنسلٹنٹ ماہر نفسیات ڈاکٹر مائیکل سنکلیئر نے 'دی انڈپینڈنٹ' کو بتایا: 'یہ بات قابل فہم ہے کہ پریشانی محسوس کرنے کی کوئی حد ہونی چاہیے۔ پریشان ہونے کے معاملے میں ہمارے دماغوں نے غاروں میں رہنے والے ہمارے اجداد سے زیادہ ترقی نہیں کی ہے۔ ہم بدقسمتی اور غم پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ ہم اس پر اپنے دماغ میں مسلسل غور کرتے ہیں اور بقا کے نئے طریقے سیکھتے ہیں۔ یہ ہمارا دماغ ہے جو وہی کرتا ہے جو اسے کرنا چاہیے۔'

 

نفسیاتی امراض کا علاج کرنے والے سلوا نیویس کو اس بات سے اتفاق ہے لیکن انہوں نے خبردارکرتے ہوئے کہا: 'خوف بھی پھیلنے والا ہوتا ہے۔' جبکہ فلاحی ادارے دا سماریٹنز لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ یاد رکھیں کہ وہ اکیلے پریشانی کا شکار نہیں ہیں۔ ادارہ کہتا ہے: 'بہت سے لوگ ایک یا دوسری جگہ مسئلے سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور اس وقت کئی طرح کی جذباتی کیفیات سے گزرنا عام بات ہے۔'

اگر صحت سے متعلق پریشانی غالب آ گئی تو آپ کیا کریں گے؟

ہمیشہ اپنے دماغ کی بات مت سنیں

ڈاکٹر سنکلیئر کہتے ہیں: 'کسی شے کی موجودگی کے بارے میں جو کچھ آپ کا دماغ کہتا ہے اسے سنیں پھر اس کے بعد شواہد پر غور کریں کہ حقیقت میں کیا ہے۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اکثر ہمارا دماغ جو ہمیں سنا رہا ہوتا ہے وہ کہانی ہوتی ہے حقیقت نہیں۔ یہ واضح کرنے کے لیے یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کو بتا رہا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔مثال کے طور پر یہ کہنے کی بجائے کہ 'میں بیمار ہو جاؤں گا' یہ کہنے کی کوشش کریں کہ 'میں سوچ رہا ہوں کہ میں بیمار ہو جاؤں گا۔'

نیویس مزید کہتے ہیں: 'ہمیں یہ اختیار ہے کہ ہم اس معاملے پر کتنا سوچیں۔ یقیناً ہماری سوچوں پر ہمارا اختیار ہے۔ اگرچہ بعض اوقات ان پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔ پریشان ہونا بہتر نتیجے کی ضمانت نہیں دے گا۔ اس لیے اپنے دماغ میں دوسری اہم باتوں کے لیے بھی جگہ پیدا کریں۔'

دباؤ کی جسمانی علامات کو نظرانداز کرنے کی کوشش نہ کریں

ڈاکٹر سنکلیئر کہتے ہیں: 'بعض اوقات ہم خوف یا پریشانی میں مبتلا ہو کر خود کوایسا محسوس کرواتے سکتے ہیں کہ ہماری طبیعت ٹھیک نہیں ہے (اور جیسا کہ ہمیں کرونا وائرس جیسے کسی مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے )۔ سانس لینے میں دشواری  اور دل کی دھڑکن تیز ہونا خوف اور پریشانی کی علامات ہیں۔ لیکن جب ایسا ہوتا ہے تو فوری طور پر ان احساسات کو نظرانداز کرنے کی بجائے  ان کے لیے جگہ بنائیں، جیسا آپ کو ان کا تجربہ ہو انہیں وایسا بیان کریں۔'

نیویس کہتے ہیں کہ خقوف کے لمحات میں آپ کو کچھ سانسیں لینی چاہییں۔ بیٹھ جائیں اور دس سیکنڈ تک اپنی سانسوں کو گنیں۔ یہ عمل دہرائیں۔

فلاحی ادارے دا سماریٹنز نے مزید کہا ہے کہ آپ اپنی بےچینی ختم کرنے کے لیے بہت سے طریقوں سے کام لے سکتے ہیں۔ ان طریقوں میں پرسکون بنانے کی مشقوں جیسا کہ کنٹرول کے ساتھ سانس لینے سے لے کر کسی ایسے عمل کے لیے وقت نکالنا جس آپ میں لطف اندوز ہوتے ہوں اور ان لوگوں سے باتیں کرنا شامل ہے جن پر آپ کو اعتماد ہو۔

فلاحی ادارہ کہتا ہے: 'زندگی میں ہر کسی کو کسی نہ کسی موقعے پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر اس سے نمٹنے کے لیے کشمکش میں مبتلا ہو جائیں گے تو آپ کے لیے اپنے موجودہ حالات سے آگے دیکھنا مشکل ہو گا۔'

'آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں اس بارے میں بات کرنے سے معاملات کو ان کے تناظر میں رکھنے اور آپ کے مستقبل کے بارے میں مثبت محسوس کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔'

اپنی پریشانیوں کا ریکارڈ رکھیں

کونسلنگ اینڈ سائیکوتھراپی کی برطانوی ایسوسی ایشن (بی اے سی پی) سے وابستہ ایلزبیتھ ٹرپ کہتی ہیں کہ بے چینی کے اظہار میں مدد کے لیے آپ کوئی عملی کام کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسا عمل جو آپ کے قابو میں ہو۔ ان کی تجویز ہے کہ کوئی جرنل یا نوٹ بک لکھیں۔

وہ کہتی ہیں: 'خود کو پریشان ہونے دیں، اس پریشانی کو نوٹ بک میں تحریر کریں اور اس کے بعد اسے کسی جگہ رکھ دیں۔ جب آپ پریشانی کو لکھ دیں تو پھر اسے جانے دیں۔'

آپ دو دائرے بنانے کی ترکیب کو بھی آزما سکتے ہیں۔ ایک وہ دائرہ بنائیں جس میں وہ چیزیں ہوں جن پر آپ کا اختیار ہے اور ایک وہ جس میں وہ چیزیں ہوں جن پر آپ کا اختیار نہیں۔  ان دائروں کو ان معاملات سے بھر دیں جن کے بارے میں آپ پریشان ہوتے ہیں۔ اس طرح آپ کو یہ یاد کرنے میں مدد ملے گی کہ آپ کن باتوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں اور وہ باتیں کیا ہیں جن کے بارے میں چاہے آپ کتنا ہی پریشان کیوں نہ ہوں، آپ کچھ نہیں کر سکتے۔

اتنا ہی دیکھیں جتنا برداشت کر پائیں

نیویس کہتے ہیں کہ اگر آپ کو حالات سے نمٹنے میں مشکل کا سامنا ہے تو آپ کو براہ راست خبریں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، نئی معلومات تک رسائی کو محدود کریں اور نوٹیفکیشن اور سوشل میڈیا کو آف کر دیں۔

وہ کہتے ہیں: 'آپ اپنے اوپر سختی کر سکتے ہیں۔ فیصلہ کریں کہ آپ وائرس کے بارے میں دن میں صرف ایک بار خبریں دیکھیں گے یا تازہ صورت حال پڑھیں گے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ اس کو (مکمل) طور پر نظرانداز کردیں۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ آپ پیش رفت سے آگاہ رہنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کریں۔ لیکن آپ اس بارے میں سوچنے کا دورانیہ کم کر کے اپنی بےچینی یا اینزائٹی کم کر سکتے ہیں۔'

فلاحی ادارے 'مائنڈ' کا کہنا ہے کہ آپ کی آن لائن اور آف لائن زندگی میں توازن پیدا کرنا بہت اہم ہے۔ مائنڈ نے درست توازن تلاش کرنے میں مدد کے لیے درج ذیل تجاویز دی ہیں۔

• باقاعدگی سے تھوڑا سا وقت نکال کر آف لائن کوئی کام کریں۔ جیسا کہ کوئی کتاب پڑھنا، ورزش کرنا، باہر نکل کر قدرتی ماحول میں جانا یا خود کو پرسکون بنانے کے لیے کوئی ترکیب آزمائیں۔

• صحت مند خوراک کے لیے اپنے دن کے اوقات میں وقت نکالیں اور اچھی طرح سوئیں۔

• بعض اوقات آن لائن مدد کافی نہیں ہوتی۔ اگر آپ کی طبیعت خراب ہو اور آن لاین ہونا فائدہ مند نہ تو آف لائن مدد لینا اچھا خیال ہو سکتا ہے۔

• اگرآپ محسوس کریں کہ آن لائن رہنے سے آپ کی ذہن پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع  ہو گئے ہیں تو آپ تھوڑی دیر کے لیے وقفہ کر سکتے ہیں۔

چند عملی اقدامات کریں

دماغ کو قابو میں رکھنے کے ساتھ ساتھ چند ایسے سادہ جسمانی اقدامات بھی ہیں جو آپ اعتماد کی بحالی کے لیے کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ (پی ایچ پی) سے مشورہ لینا۔

نیویس کہتے ہیں: 'کیا آپ اکثر اپنے ہاتھ صابن اور پانی سے دھوئیں، خاص طور پر کھانے سے پہلے۔ یا الکوحل جل سے ہاتھ ملیں۔ طبی مشورے پر عمل کریں۔'

مدد فراہم کرنے سے والے نیٹ ورک سے منسلک رہیں (ڈیجیٹل طور پر)

دماغی صحت کے ماہرین کے ادارے سمارٹ ٹی ایم ایس کے چیف ایگزیکٹو افسر جیرارڈ برنس کہتے ہیں کہ دباؤ کا شکار بنانے والے حالات میں ہمیں خود کو مکمل طور پر تنہا کرنے کی خواہش آسان ہو سکتی ہے لیکن بےچینی کم کرنے کے لیے لوگوں کے ساتھ آن لائن یا ٹیلی فون پر رابطہ رکھنا بہت ضروری ہے۔

 

انہوں نے کہا: 'مضبوط رابطے رکھنے سے آپ کو مدد اور اپنے ارد گرد مثبت اور اچھی توانائی کی موجودگی کا احساس ہو گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے قریبی لوگوں سے وائرس پر کھل کر بات کر سکیں۔ مسئلہ پر بات کرنے اور شائد اس سے متعلق لطیفے بنانے کے قابل ہونے سے آپ کو مزید پرسکون ہونے اور اس بےچینی پر قابو پانے میں مدد ملے گی جس میں خطرے سے دورچار ہونے کی وجہ سے مبتلا ہیں۔'

فلاحی ادارے دا سماریٹز نے اتفاق کرتے ہوئے مزید کہا ے کہ یہ معمول کی بات ہے کہ موجوہ ماحول آپ کے مزاج کو متاثر کرے گا۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں آپ کو بات کرنی چاہیے۔ تاہم آپ 'ویڈیو میسیجنگ، فون پر، ٹیکسٹ پیغام یا اپنے باغ کی باڑ پر ایسا کر سکتے ہیں۔'

فلاحی ادارہ کہتا ہے: 'جب ہم جسمانی طورپر تنہائی میں چلے جاتے ہیں تو پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ سماجی طور پر جُڑے رہیں۔ اس لیے کوشش کریں اور بات کرنے کے لیے لوگوں تک پہنچیں اور کوشش کریں آپ دوسروں کی بات سننے کے لیے موجود بھی ہوں۔'

ادارے نے مزید کہا: 'ایک ایسے وقت میں جب ہم نے مشکل فیصلہ کرتے ہوئے اپنی برانچوں آمنے سامنے بیٹھ کر مدد فراہم کرنے اور نئے رضاکاروں کی تربیت بند کردی ہے، ہو سکتا ہے کہ ہمیں فون کالز اور ای میلز کا جواب دینے میں زیادہ وقت لگ جائے۔ بہر حال ہم موجود ہیں۔'

مفروضوں سے بچیں اور حقائق پر توجہ دیں

دنیا میں خبروں اور سوشل میڈیا پر اپ ڈیٹس سلسلہ ہفتے کے سات دنوں میں 24 گھنٹے جاری ہے۔ اس لیے مفروضوں اور ہیجان کی طرف متوجہ ہو جانا آسان ہے۔

لیکن برنس کہتے ہیں: 'اپنے آپ کو میڈیا کے طوفان کی زد میں آنے سے بچانے کی کوشش کریں اورحد سے بڑھے ہوئے مفروضوں پر مبنی رپورٹیں نہ پڑھیں۔ کرونا وائرس اور اس سے کس طرح نمٹنا ہے اس بارے میں واضح اور سادہ ہدایات کے لیے صحت کو ترجیح دینے والی ویب سائیٹس جیسے کہ نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) پر انحصار کریں۔'

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی صحت