کرونا کی وجہ سے ورکنگ خواتین کا اضطراب اور بڑھتے گھریلو مسائل

 قرنطینہ کے ان دو یا شاید تین ہفتوں میں میری نیند تین گھنٹوں تک محدود رہ گئی ہے۔ غصہ زیادہ آنے لگا ہے، دن کا بیشتر وقت کچن میں گزرتا ہے وہیں سے اپنے ذرائع سے فون پر بھی بات ہوتی ہے،اور اکثر اپنی خبریں بھی فون پر وہیں کھڑی ہو کر ٹائپ کرتی ہوں۔

(پکسابے)

کرونا وائرس نے پاکستان میں قدم رکھا تو بیشتر لوگوں نے خود کو گھروں تک محدود کر لیا، سٹے ایٹ ہوم اور ورک فرام ہوم میں ہی سب نے عافیت جانی۔  ویسے تو میں پہلے بھی گھر سے ہی کام کیا کرتی تھی مگر ویڈیو شوٹس اور اپنے ذرائع وغیرہ سے ملنے کے لیے باہر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ مگر اب فون پر ہی کام چلایاجارہا ہے۔

سماجی رابطوں کی سائٹس پر نظر دوڑائیں تو یوں لگتا ہے کہ گھر پر رہنے اورگھر سے کام کرنے والے اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مگر کیا واقعی میں ایسا ہے؟ میں پہلے اپنی بات کرتی ہوں، سچ پوچھیں تو کرونا سے پہلے میرے لیے گھر سے کام کرنا کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ اس طرح میں اپنے بچے کو بھی وقت دے پاتی تھی اور اپنی بیمار والدہ کی بھی اچھے سے دیکھ بھال کر لیتی تھی اور دفتر کا کام بھی وقت سے ہوجایا کرتا تھا مگر اس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا اس میں کمال تھا میری اس مدد گار کا جو ہر روز صبح ہمارے گھر آتی اور گھر کا سارا کام سنبھالتی اور شام گئے گھر چلی جاتی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس مدد گار کو میں یا میرے جیسے اور لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ 'ورک فرام ہوم۔'

 مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں شاید وزیر اعظم پاکستان سے بھی زیادہ مصروف ہوں کہ مجھے سونے ، کھانے یہاں تک کہ کبھی کبھار تو نہانے تک کا وقت نہیں ملتا۔ سوشل میڈیا پر جب میں لوگوں کی پوسٹس دیکھتی ہوں کہ کوئی کھانے پکا رہا ہے کوئی کتابیں پڑھ رہا ہے، کوئی مصوری، موسیقی یا قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا ہے، کسی نے قرنطینہ کے ان دنوں میں خود کو پا لیا ہے کہ وہ اصل میں کیا ہیں، کوئی فلمیں دیکھ رہا ہے یعنی کہ بس یہ دن غنیمت ہیں ۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے کیا واقعی میں لوگ سماجی رابطوں کی سائٹس پر سچ لکھ رہے ہیں یا صرف اپنی امید اور حوصلے کو بلند رکھنے کے لیے مثبت رویہ اپنائے ہوئے ہیں ؟

 قرنطینہ کے ان دو یا شاید تین (اب تو دنوں کی گنتی بھی یاد نہیں رہی) ہفتوں میں میری نیند بغیر کسی مغالطے کے ڈیڑھ، دو یا اگر قسمت بہت اچھی ہے تو تین گھنٹوں تک محدود رہ گئی ہے۔ غصہ زیادہ آنے لگا ہے، دن کا بیشتر وقت کچن میں گزرتا ہے وہیں سے اپنے ذرائع سے فون پر بھی بات ہوتی ہے،اور اکثر اپنی خبریں بھی فون پر وہیں کھڑی ہو کر ٹائپ کرتی ہوں۔ اس دوران بچوں کا شور بھی کانوں میں ہر وقت گونجتا ہے کبھی انہیں کھانا چاہیے کبھی دودھ اور کبھی بس ویسے ہی ماں کی توجہ، بچے بھی اپنی جگہ ٹھیک ہیں پیار اور توجہ ان کا حق ہے اگر ماں کو وقت نہیں ملے گا تو وہ اسے چھین کر لیں گے اور اس کا نتیجہ اکثر ڈانٹ کی شکل میں نکلتا ہے اور اس کے بعد دن بھر کا افسوس کہ بھئی بچے کا کیا قصور تھا۔یعنی گھر پر رہتے ہوئے بھی کسی کی زندگی میں بھاگا دوڑی ہی مچی ہوئی ہے۔

ایک عجب اضطرابی کیفیت ہے ۔  ایک احساس کہ میں بہت کچھ کر رہی ہوں مگر مجھ سے کچھ نہیں ہوپا رہا، کیا کرونا کے بعد زندگی معمول پر واپس آجائے گی، کیا میرے بچے کا مستقبل تو داؤ پر نہیں لگ گیا، کیا یہ نوکری چلتی رہے گی ، کیا آج میں اپنا کام وقت پر بھیج پاؤں گی یعنی اس طرح کے مختلف سوال، ایک خوف کی صورت میں دل و دماغ پر سوار ہیں۔

میں جاننا چاہتی تھی کہ کیا یہ سب میرے ساتھ ہی ہو رہا ہے یا کوئی اور بھی اس صورتحال سے دوچار ہے تو میں نے کچھ خواتین سے بات کی، معلوم ہوا کہ جس کشتی میں میں سوار ہوں وہ بھری پڑی ہے۔

عینی حسین ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتی ہیں ان سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کے گھر میں آٹھ بالغ لوگ رہتے ہیں،  ان کی دو بھابھیاں ہیں اور دونوں امید سے ہیں جب کہ گھر کی ساری ذمہ داری ان پر اور ان کی بہن پر ہے ویسے تو ان کے دونوں بھائی بھی  گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹا رہے ہیں مگر کھانا پکانے سے لے کر گھر کی صفائی اور کپڑوں کی دھلائی وغیرہ عینی اور ان کی بہن کے ذمے ہے۔ عینی کہتی ہیں کہ ان کا مسئلہ یہ نہیں کہ انہیں گھر کے کام کرنے پڑ رہے ہیں  بلکہ ان کا مسئلہ اس وقت  گھر سے کام کرنا ہے جو ان کے لیے  ذہنی دباؤ اور غصہ کی وجہ بن رہا ہے۔  ' میں گذشتہ سات برس سے کام کر رہی ہوں اور دس گیارہ گھنٹے دفتر میں ہی گذرتے تھے، دو برس پہلے میری طلاق ہوئی تو میں والدین کے گھر آگئی ، میں اس  سیٹ اپ کا حصہ کافی عرصہ سے نہیں تھی دوسرا میں ذاتی طور پر جس جذباتی توڑ پھوڑ کا شکار ہوئی اس کیفیت سے باہر نکلنے کی کوشش بھی کر رہی ہوں اس لیے مجھے بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے جیسے یہ کہ  اب اس گھر میں میری بھابھیاں بھی ہیں تو میں کسی کی ذاتی  زندگی میں دخل انداز نہ ہو جاؤں ۔ اس سب سے بچت اس طرح ہوتی تھی کہ  میں گھر پر ہی نہیں ہوتی تھی تو میرا کام چل جاتا تھااور نہ میری وجہ سے کسی کو مشکل ہوتی تھی نہ مجھے کسی کی وجہ سے اور اس وقت مجھ پر گھر پر رہنے کی وجہ سے یہی سب بڑا ذہنی دباؤ ہے کیونکہ میں زرا منہ پھٹ ہوں تو مجھے یہی ڈر رہتا ہے کہ میری وجہ سے کسی کو کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔'

ردا ارشد کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ردا ایک چار سال کے بچے کی ماں ہیں جبکہ مئی کے مہینے میں ان کے ہاں ایک اور بچے کی پیدائش ہونے والی ہے۔ یہ ایک موبائل نیٹ ورک کمپنی میں کام کرتی ہیں اور جوائنٹ فیملی میں رہتی ہیں، 'میرے گھر میں   13 افراد ہیں ،میری  جیٹھانی کے 6 بچے ہیں جن میں سے تین ابھی کچھ روز پہلے ہی پیدا ہوئے اس لیے انہیں بچوں کے کاموں سے فرصت نہیں ملتی اس لیے میں انہیں گھر کے کاموں کے لیے نہیں کہہ سکتی۔ پھر میرے سسر کو ہر چیز بہترین چاہیے جیسے میزپر برتن صحیح سے لگے ہوں روٹی گرم ہو وغیرہ وغیرہ ، میرے شوہر میری مدد کرتے ہیں مگر جب ان کی میٹنگ ہو تو وہ آرام سے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں کہ مجھے کوئی تنگ نہ کرے مگر میرے لیے ایسا نہیں ہے کیونکہ مجھے میٹنگ سے پہلے اور دوران اپنے بچے کو بھی دیکھنا ہے کہ وہ تنگ نہ کرے۔ ' ردا نے بچے کو بہلانے کے کچھ طریقے بتائے جو سبھی ورکنگ خواتین اپنا سکتی ہیں، ردا کہتی ہیں، ' میرا بچہ شرارتی ہے اور ہر وقت اسے کوئی نہ کوئی سرگرمی چاہیے ہوتی ہے دوسرا وہ سوتا بہت کم ہے یہاں تک کہ رات کو بھی بہت دیر سے سوتا ہے، میٹنگ کے دوران وہ مجھے تنگ نہ کرے اس لیے میں اسے کسی نہ کسی سرگرمی میں ملوث کر دیتی ہوں جیسے کاغذ قلم دے دیا یا پینٹس دے دیے، بچہ تبھی تنگ کرتا ہے جب وہ بور ہو رہا ہو یا بھوکا ہو، ویسے تو میں سکرین ٹائم اور جنک فوڈ کے حق میں نہیں ہوں مگر میٹنگ کے دوران شور نہ مچے اس لیے میں اپنے پاس جنک فوڈ بھی رکھتی ہوں اور اس کا دودھ کا فیڈر بھی، جب ذرا لگتا ہے کہ وہ اب تنگ کرے گا تو میں ان میں سے کوئی چاکلیٹ یا لالی پاپ یا دودھ اسے دے دیتی ہوں اور یا پھر فون پر اسے دس منٹ کی کوئی ویڈیو لگا دیتی ہوں اور اس طرح ایک گھنٹہ آرام سے گزر جاتا ہے۔'

 ردا کہتی ہیں کہ ان کے دفتر والے بھی سمجھتے ہیں کہ حالات کیا ہیں اس لیے وہ بھی ان پر اتنا دباؤ نہیں ڈالتے۔ ' دل میں خوف ہے کہ میرا بچہ کیسے وقت دنیا میں آرہا ہے، نوکری کا خوف کہ رہے گی یا نہیں ، کام کا خوف کہ پورا ہوگا کہ نہیں، آج کل ایسے دن بھی آتے ہیں جب میرا منہ تک دھونے کا دل نہیں چاہتاکیونکہ پورے دن میں خود کے لیے وقت نہیں نکلتا مگر میں پھر خود کو اٹھاتی ہوں اور سمجھاتی ہوں کہ اس وقت اگر میں خود کو چھوڑ دوں گی تو چیزیں خراب ہو جائیں گی۔ کام تو کرنا ہے چاہے ایسے یا ویسے تو بہتر ہے اسے مثبت طریقے سے کر لیا جائے اس لیے پھر میں صبح سویرے اٹھ کر پہلے اسی طرح تیار ہوتی ہوں جیسے آفس جانے کے لیے ہوا کرتی تھی اس سے میرا خود پر اعتماد بحال ہوجاتا ہے اور میں اچھا محسوس کرتی ہوں۔ '

اس کے علاوہ ردا کہتی ہیں کہ 'جب میرا ذہنی دباؤ زیادہ بڑھ جاتا ہے تو میں ایک دو منٹ کے لیے اپنی کسی بہت اچھی دوست سے بات کر لیتی ہوں، کوئی گانا سن لیتی ہوں یا پھر اپنی پسند کا کوئی بھی کام جس سے مجھے یہ سکون ہوجاتا ہے کہ میں نے پورے دن میں خود کے لیے بھی کچھ کیا ہے۔' ردا کے خیال میں یہ وقت ایسا ہے کہ اس میں ہم جتنا مثبت رہیں گے اتنی چیزیں ہمارے لیے آسان ہو جائیں گی۔

کیا کرونا نے گھرسےکام کرنے والی خواتین میں  اضطراب اور ذہنی دباؤ کو بڑہا دیا ہے؟ یہی جاننے کے لیے میں نے مختلف نفسیاتی ماہرین سے بات کی جن میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ذہنی دباؤ بڑھ گیا ہے مگر جو حالات ہیں ان میں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بڑھا ہے مگر اس کا تناسب کرونا اور قرنطینہ کے بعد ہی معلوم ہوگا جب لوگ ہمارے پاس آئیں گے اور ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ وبا کے دوران کس ذہنی کیفیت میں گئے اور اسی کیفیت میں رہ گئے۔

لزا تبسم کلینکل سائکولوجسٹ ہیں۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ لوگوں خاص طور پرخواتین میں ذہنی دباؤ،اضطراب اور گھروں میں لڑائی جھگڑے میں اضافہ ہوا ہے۔ ' وبا کا خوف ، مستقبل کا خوف، بے یقینی کی سی صورتحال اس پر کسی بھی مدد کے بغیر گھر، آفس اور بچوں کا کام آپ کو ذہنی دباؤ میں لے جاتا ہے۔ دوسرا سماجی دوری نے بھی جلتی پرتیل کا کام کیا ہے۔ پہلے آُ پ اپنی ذہنی آسودگی کے لیے باہر چلے جاتے تھے، کسی سے مل لیتے تھے، شاپنگ کر لیا کرتے تھے مگر اب آپ ہیں گھر کا شور اور گھر کی چاردیواری اور اس کے باہر وبا۔ یہی وجہ ہے کہ گھروں میں لڑائی جھگڑے بھی کافی حد تک بڑھ گئے ہیں ۔ پہلے جھگڑا ہوتا تھا تو کوئی ایک گھر سے باہر چلا جاتا تھا تاکہ سوچ سکے کہ کیا بات ہوئی جھگڑا کیوں ہواآپ کو وقت مل جاتا تھا مگر اب آُپ گھر میں ہیں اور زیادہ وقت ساتھ رہنے سے اختلافات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لزا نے بتایا کہ اس غیر یقینی صورحال میں غصہ بھی بڑھ جاتا ہے اور اس اکثر غصہ گھر میں موجود سب سے کمزور فرد یعنی بچوں پر نکل جاتا ہے یا میاں بیوی آپس میں لڑنا شروع ہوجاتے ہیں جس کا پورے گھر پر منفی اثر آتا ہے۔

اس کا ایک علاج لزا نے یہ بتایا، 'جب آپ کو کسی پر غصہ آرہا ہو تو آپ اس شخص کو جو کچھ کہنا چاہ رہے ہوں اسے کاغذ پر تحریر کر لیں یہاں تک کہ وہ خرافات بھی جو آپ انہیں بولنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد آپ اسے دو سے تین بار پڑھیں اور سوچیں کہ کیا بات اس شدید نوعیت کی تھی کہ آپ یہ سب ان سے کہتے، اس سے آپ کا کتھارسس بھی ہو جائے گا، غصہ بھی نکل جائے گا اور آپ کو تسلی بھی ہو جائے گی اس کے بعد وہ کاغز پھاڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیں۔

لزا کہتی ہیں کہ اس وقت خواتین کو سب سے زیادہ مدد کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایک نہیں کئی محاذوں پر لڑ رہی ہیں اس وقت اگر وہ خود کو اکیلا اور بے یارومددگار محسوس کریں گی تو مستقبل میں کئی ذہنی مشکلات کا شکار ہوجائیں گی ۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین