کرونا کا دور: 'جہاز میں ہر مسافر دوسرے کو شک سے دیکھ رہا تھا'

صحافی سبوخ سید نے کرونا وائرس کے دور میں ترکی سے پاکستان پہنچنے تک کے اپنے سفر کی داستان شیئر کی کہ یہ سفر کیسا رہا اور انہوں نے کیا محسوس کیا۔

'وہ پرواز معمول کے مطابق نہیں تھی اور نہ ہی عملے کا رویہ معمول کے مطابق تھا۔ کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے سب کچھ غیر معمولی لگ رہا تھا اور میں دو ماہ بعد پاکستان واپس آنے کے لیے پَر تول رہا تھا۔'

سبوخ سید پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ انہوں نے کرونا وائرس کے دور میں ترکی سے پاکستان پہنچنے تک کے اپنے سفر کی داستان شیئر کی کہ یہ سفر کیسا رہا اور انہوں نے کیا محسوس کیا۔

سبوخ نے بتایا کہ انہوں نے زندگی میں بہت سے ملکوں کے سفر کیے ہیں لیکن زندگی کا یہ پہلا سفر ہے کہ جو انہیں ہمیشہ یاد رہے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی فلائٹ صرف دو دن ہی تاخیر کا شکار ہوئی۔ 'جہاز میں سفر کرنے والے تمام مسافر وہ تھے جن کی فلائٹس 25 مارچ کے بعد تھیں لیکن فلائٹ آپریشن معطل ہونے کی وجہ سے سب مسافر تین اپریل کو ایک ساتھ ترکی سے پاکستان پہنچے۔'

سبوخ کے مطابق: 'ترکی میں پاکستانی سفارت خانے نے تمام پاکستانیوں کے لیے ہوٹل بُک کروا رکھے تھے۔ میں خود کونیا میں تھا لیکن استنبول پہنچنے پر رہنے کی جگہ نہیں تھی اور فلائٹ میں بہت وقت باقی تھا۔ ایئرپورٹ بھی نہیں جاسکتا تھا۔ پاکستانی سفارت خانے سے مدد مانگی تو انہوں نے کہا کہ فلاں ہوٹل چلے جائیں۔ جب وہاں پہنچا تو وہاں 50 پاکستانی مزید ٹھہرے ہوئے تھے جنہیں سفارت خانے نے ٹھہرایا تھا۔'

انہوں نے بتایا کہ ایئرپورٹ پر صرف وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن کا کسی وجہ سے سفارت خانے سے رابطہ نہیں ہو سکا تھا۔ فلائٹ کنفرم ہونے پر سفارت خانے کے حکام نے بتایا کہ ایک بس تمام پاکستانی مسافروں کو استنبول ایئرپورٹ لے کر جائے گی۔ایئر پورٹ پہنچنے پر سفارت خانے کے حکام نے تمام مسافروں کو دستانے اور ماسک دیے۔ تمام مسافروں کا بخار چیک کیا گیا اور پھر جہاز کی طرف روانہ کر دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سبوخ کے مطابق: 'ایئر پورٹ بالکل حالی تھا، ڈیوٹی فری دکانیں بھی بند تھیں جیسے دنیا کی ساری رونق ختم ہو گئی ہو۔ میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری کہ یہ وقت بھی آنا تھا کہ ہر مسافر دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے جیسے ہر کوئی ایک دوسرے کو کرونا وائرس کا مریض سمجھ رہا ہو۔'

'جب میں جہاز میں داخل ہوا تو پی آئی اے کا عملہ بھی معمول سے زیادہ خوش اخلاق تھا۔ جہاز میں ہر مسافر کے ساتھ والی سیٹ حالی رکھی گئی اور عملے کی جانب سے سختی سے کہا گیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھنا بلکہ ایک سیٹ چھوڑ کر بیٹھنا ہے تاکہ سماجی دوری برقرار رہے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ چند لوگ اس پر عمل نہیں کر رہے تھے اور انہوں نے جہاز میں آ کر ماسک بھی اتار دیے جس کی وجہ سے باقی مسافروں میں بے چینی پھیلی۔ اس جہاز میں 195 مسافر تھے۔ کوئی ذرا سا بھی کھانستا تھا یا چھینکتا تو سب اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتے تھے۔'

انہوں نے مزید بتایا: 'یہ مرحلہ تمام ہوا تو ہم اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچے، لیکن جہاز لینڈ کرنے کے بعد ہمیں کہا گیا کہ پہلے سب مسافر فارم فِل کریں گے اور بخار چیک کیا جائے گا، پھر جہاز سے باہر نکلنے کی اجازت دی جائے گی۔ رینجرز کے اہلکار جہاز کے اندر آئے اور انہوں نے سب کے بخار چیک کیے اور پرفارمہ بھروایا۔ '

بقول سبوخ: 'لیکن جب جہاز سے باہر نکلے تو نیا مرحلہ انتظار کر رہا تھا۔ سامنے فوج، ڈاکٹروں کی ٹیم، سول ایوی ایشن کے حکام اور پولیس موجود تھی۔ اتنا پروٹوکول کبھی زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ سب کا رویہ خوش اخلاقی سے بھرپور تھا۔فلائٹ میں کچھ مسافر ایسے تھے جن کی حالت دیکھنے میں خراب تھی، اُن کو الگ کر دیا گیا اور ہم سب کا باری باری کرونا ٹیسٹ کیا گیا۔ جس کے بعد فوجی اہلکاروں نے آ کر ہمارا سامان اٹھایا اور جو ہوٹل ہمارے لیے مختص کیے گئے تھے ہمیں وہاں بجھوا دیا گیا اور کہا گیا کہ جب تک کرونا ٹیسٹ کے نتائج نہیں آتے، آپ لوگ ہوٹل میں رکیں گے۔'

انہوں نے بتایا کہ ہوٹل کے عملے کو بھی مکمل ٹریننگ دی گئی تھی۔ ہوٹل پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ ہوٹل میں رہائش فری ہے۔ اس کے علاوہ جس کے پاس پیسے ہیں وہ چاہے تو کھانے کے پیسے ادا کر دے اور جس کے پاس پیسے نہیں ہیں وہ بے شک ادائیگی نہ کرے۔

سبوخ نے بتایا کہ 'تین دن ہم نے ہوٹل میں گزارے، ہمیں بتایا گیا کہ فلائٹ کے 22 لوگوں کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے تو الگ پریشانی شروع ہو گئی۔ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے سب مسافر ایک دوسرے کو مشکوک اور خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ جب نتائج  آئے تو پتہ چلاکہ  اسلام آباد ہوٹل میں ٹھہرائے گئے تین مسافروں کا کرونا ٹیسٹ مثبت ہے جبکہ دیگر مثبت ٹیسٹ والے مسافر دوسرے ہوٹلوں میں ہیں۔'

سبوخ نے کہا کہ 'یہ چار دن ایک اعصابی جنگ تھی حالانکہ ہمیں بہت آرام دہ ماحول میں رکھا گیا تھا لیکن ترکی سے لے کر اسلام آباد واپسی اور کرونا ٹیسٹ کے نتائج آنے تک اعصاب تناؤ کا شکار رہے۔'

 انہوں نے بتایا کہ 'میرا ٹیسٹ رزلٹ تو منفی آیا تھا اس لیے ہمیں گھروں کو  جانے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن کہا گیا ہے کہ گھر پر بھی کچھ دن اپنے آپ کو خود ساختہ تنہائی میں رکھنا ہے۔'

'اب میں دو دن سے گھر پر ہوں اور مسلسل دوسرا دن ہے کہ آرمی کرونا سینٹر سے کال آ رہی ہے اور وہ فالو اَپ لے رہے ہیں کہ کوئی علامات تو ظاہر نہیں ہوئیں اور صحت کیسی ہے۔'

سبوخ سید حکومتی پالیسیوں کے ناقد ہیں لیکن حکومت پاکستان کی کرونا وائرس سے نمٹنے کی کوششوں سے خاصے متاثر نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکہ سے ترکی اور ترکی سے پاکستان آئے ہیں تو امریکہ سے جو فلائٹ ترکی آئی تھی اور ترکی سے جو فلائٹ پاکستان آئی دونوں میں بہت فرق تھا اور پاکستانی حکومت کی سنجیدگی واضح نظر آ رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی