کرونا: ’پاکستان میں انتہائی نگہداشت کے سپیشلسٹ سو سے بھی کم‘

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فضل ربی نے کہا کہ اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال، پمز، میں وینٹی لیٹرز تو کم ہیں ہی لیکن انہیں چلانے والے تربیت یافتہ عملے کی تعداد بھی کم ہے۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کے مطابق اب پاکستان کے پاس 3844 وینٹی لیٹرز موجود ہیں(اے ایف پی فائل)

کرونا (کورونا) وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے دوران کچھ مریضوں کی حالت اتنی بگڑ جاتی ہے کہ ان کی جان بچانے کے لیے انہیں وینٹی لیٹر کے ذریعے آکسیجین دینی پڑتی ہے، تاہم پاکستان کے پاس جان بچانے والے اس اہم آلے کی تعداد اس وبا سے پیدا ہونے والے طبی بحران کے لیے ناکافی ہے۔ 

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فروری سے قبل پاکستان کے پاس 1800 وینٹی لیٹرز تھے جن میں سے 1500 فعال ہیں۔ فروری، مارچ میں چین اور دیگر ممالک سے ملنے والی میڈیکل امداد میں وینٹی لیٹرز بھی شامل تھے، جس کے بعد وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا کہ اب پاکستان کے پاس 3844 وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔

تاہم یہاں دو تکنیکی سوالات جنم لیتے ہیں۔ ۔کیا ملک میں موجود ہر ڈاکٹر وینٹی لیٹر مشین چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اور کیا جتنے وینٹی لیٹرز ہیں اتنے ماہرین ہمارے پاس موجود ہیں؟

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد دو لاکھ 30 ہزار کے لگ بھگ ہے جب کہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب نرسنگ سٹاف ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں47، بلوچستان میں 47 اور خیبر پختونخوا میں 400 وینٹی لیٹر ہیں، جبکہ پنجاب میں 1697 اور سندھ میں 1550 وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 63 اور گلگت بلتستان میں 13 وینٹی لیٹر ہیں۔ واضح رہے کہ ان اعداد و شمار میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے کُل وینٹی لیٹرز شامل ہیں۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فضل ربی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اتنے زیادہ وینٹی لیٹرز آ چکے ہیں تو ہمیں دیے کیوں نہیں جا رہے؟

انہوں نے کہا کہ پمز ہسپتال میں اس وقت 35 وینٹلیٹرز ہیں جن میں سے کچھ ایسے تھے جو فعال نہیں تھے لیکن اب ضرورت کے تحت ان کی مرمت کر کے قابل استعمال بنایا گیا ہے۔

وینٹی لیٹرز کو چلانے والے ماہرین کی قلت

ڈاکٹر فضل ربی نے کہا کہ اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال، پمز، میں وینٹی لیٹرز تو کم ہیں ہی لیکن انہیں چلانے والے تربیت یافتہ عملے کی تعداد بھی کم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پمز ہسپتال جہاں پر کرونا وائرس کے مریض بھیجے جا رہے ہیں وہاں انتہائی نگہداشت کے شعبے کے 16 ماہر ڈاکٹر ہیں جو ڈاکٹر رانا عمران کی سربراہی میں کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ عملہ ناکافی ہے لیکن اعلیٰ سطح پر جو فیصلے لے رہے ہیں ان کو زمینی مشکلات اور حقائق کا اندازہ نہیں ہے۔

ڈاکٹر فضل ربی کے مطابق بلوچستان میں صرف ایک ڈاکٹر ہیں جو انتہائی نگہداشت کے شعبے کے ماہر ہیں اور انہوں نے حال ہی میں اسلام آباد میں انتہائی نگہداشت کے شعبے کے  کورس کا آخری پرچہ دیا ہے۔ 

’انہی کو بلوچستان حکومت بلا رہی ہے کہ آئیں اور صوبے کے پہلے کریٹکل کئیر یونٹ کے سربراہ کے انتظامات سنبھالیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر ڈاکٹرز کو پمز میں ہی ٹریننگ دی جاتی ہے اور جب وہ واپس اپنے صوبوں میں جاتے ہیں تو فون پر ہدایات لیتے رہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر فضل ربی، جو خود بھی کریٹیکل کئیر سپیشلسٹ ہیں، نے مزید بتایا کہ خیبر پختونخوا میں کریٹیکل کئیر یونٹ کے ماہر چار یا پانچ ہیں جبکہ اینستھیزیا (سرجری کے لیے بے ہوشی) اور پلمنالوجی (سانس کی بیماریوں) کے ماہر بھی وینٹی لیٹرز چلا سکتے ہیں۔

اگر پمز ہسپتال کے پاس موجود ڈیٹا دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان بھر میں کریٹیکل کئیر یونٹ سپیشلسٹ 100 سے بھی کم ہیں۔ ان کے ساتھ جونیئر ڈاکٹرز کی ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ ان کے علاوہ 2800 انیستھیزیا کے ایکسپرٹ ہیں جو وینٹی لیٹر استعمال کرنا جانتے ہیں۔

کرونا وائرس کی وبا میں نجی ہسپتال کہاں ہیں؟

گذشتہ دنوں سپریم کورٹ میں جمع ہونے والی نیشنل ایکشن پلان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 25 اپریل تک کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کے تعداد 50 ہزار ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اپریل میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والے 50 ہزار متوقع لوگوں میں سے 41 ہزار سے زیادہ معمولی طور پر متاثر ہوں گے جب کہ سات ہزار شدید اور دو ہزار سے زیادہ سنگین نوعیت کے متاثرین ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر فضل ربی نے کہا کہ اس وقت تمام سرکاری ہسپتال محدود وسائل کے ساتھ فرنٹ لائن پر کام کر رہے ہیں لیکن تمام نجی ہسپتال جو عطیہ کردہ زمین پر انسانی خدمت کے لیے بنے ہیں وہ سب خاموش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام نجی ہسپتالوں میں بھرپور سسٹم موجود ہے لیکن وہ تمام کرونا وائرس کے مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں بھیج رہے ہیں۔

ڈاکٹر فضل ربی کے مطابق: ’یہ ایک قومی ایمرجنسی ہے جس میں انتظامیہ نے تھری فور سٹار ہوٹلوں کو قرنطینہ کے لیے مختص کر لیا ہے۔ انتظامیہ خود یہ معاملہ دیکھے اور تمام بڑے نجی ہسپتالوں کے کریٹکل کئیر یونٹس کے کچھ بیڈز کرونا وائرس کے خلاف لڑائی کے لیے مختص کرے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم سافٹ وئیر بنا دیں گے جس میں تمام ہسپتالوں کے وینٹ لیٹرز اور بیڈز کا ڈیٹا موجود ہو گا۔ پمز یا دیگر سرکاری ہسپتالوں کے پاس اختیار ہو گا کہ اگر ان کے پاس کرونا وائرس کے مریض کے لیے جگہ نہیں تو سسٹم میں چیک کر کے جہاں وینٹی لیٹر میسر ہے وہاں مریض کو بھیج دیا جائے تاکہ اس قومی ایمرجنسی سے نمٹا جا سکے۔‘

وینٹی لیٹر چلانے کی ٹریننگ کتنے دنوں میں ہو سکتی ہے؟

ڈاکٹر فضل ربی کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر بہت سے ینگ ڈاکٹرز نے رضاکارانہ طور پر خدمات پیش کی ہیں اور اب ان کو کرٹیکل کئیر یونٹ کی ٹریننگ دی جا رہی ہے تاکہ پمز میں مریضوں کی تعداد اگر بڑھتی ہے تو ہمارے پاس مستعد عملہ موجود ہو۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وینٹی لیٹر چلانے کے لیے کتنے عرصے کی ٹریننگ درکار ہے تو انہوں نے کہا کہ کرٹیکل کئیر یونٹ کا کورس چھ سال کا ہے جو پانچ سالہ ایم بی بی ایس کے بعد کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ خود اس سپیشل کورس کے آخری سال میں ہیں لیکن جو ینگ ڈاکٹرز ابھی بھرتی کیے گئے ہیں ان کو دس دن کی ٹریننگ دی جا رہی ہے جس میں وہ بنیادی وینٹی لیٹر چلانا سیکھ جاتے ہیں اور پھر سینیئر ڈاکٹر کے ساتھ کام کریں گے۔

کرونا وائرس کی وبا میں دیگر مریض کہاں جائیں گے؟

ڈاکٹر فضل ربی نے کہا کہ حکومت اعداد و شمار تو دے رہی ہے لیکن اگر یہ 3844 وینٹی لیٹرز کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص ہو گئے تو جو ہزاروں دل کے مریض یا روڈ ایکسڈنٹ سے تشویشناک حالت میں لائے جاتے ہیں ان کی جان کیسے بچائیں گے؟

’یہ سوالیہ نشان ہے جس کا جواب حکومت نے دینا ہے۔‘

وزارت صحت اور این ڈی ایم اے سے ڈاکٹرز کے ان تخفظات پر موقف لینے کے کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت