لوگ سازشی مفروضوں پر کیوں یقین کرتے ہیں؟

کیا وجہ ہے کہ لوگ دنیا بھر کی بات نہیں مانتے، لیکن وٹس ایپ میں آنے والی افواہ پر فوراً یقین کر لیتے ہیں اور پھر اس کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں؟

جب لوگوں کو گمان گزرتا ہے کہ انہوں نے معما حل کر لیا ہے تو وہ لاشعوری طور پر خود کو بااختیار  محسوس کرنے لگتے ہیں، اور زور و شور سے اس مفروضے کی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں۔(روئٹرز)

  • کرونا (کورونا) وائرس دراصل چین نے جان بوجھ کر پھیلایا ہے، خود اس کے پاس ویکسین موجود ہے جس کی وجہ سے اپنے ہاں کنٹرول کر لیا لیکن مغرب کو تباہ کر دیا ہے۔
  • کرونا وائرس قدرتی نہیں، بلکہ بل گیٹس نے لیبارٹری میں تیار کیا، وہی اس کے بارے میں باتیں بھی کرتا رہتا تھا۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کی سازش ہے جو دنیا کی آبادی کم کر کے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ نافذ کرنا چاہتا ہے۔
  • کرونا وائرس امریکی حیاتیاتی ہتھیار (bioweapon) ہے۔ اس بارے میں 1980 میں ایک ناول بھی لکھا گیا تھا جس میں ہوبہو یہی واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ بلکہ ایک تصویر میں ریل کے ڈبے پر covid-19 لکھا ہوا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
  • کرونا وائرس اتنا خطرناک نہیں جتنا میڈیا بتا رہا ہے۔ یہ دراصل امریکی صدر ٹرمپ کی مقبولیت کم کرنے کی خاطر لیفٹ والوں کی سازش ہے (خود امریکی صدر اس وائرس کو hoax یعنی فریب قرار دے چکے ہیں)۔
  • کرونا ورونا کچھ نہیں، یہ اصل میں فائیو جی نیٹ ورک سے نکلنے والی طاقتور ریڈیو لہریں ہیں جو لوگوں کو بیمار کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وائرس مغربی ملکوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے جہاں یہ نیٹ ورک موجود ہیں۔
  • کرونا وائرس اسلام دشمنوں نے پھیلایا ہے تاکہ مسلمانوں کو مسجدوں اور تبلیغ سے دور کر دیا جائے۔
  • دنیا کے بڑے بینکوں نے مل کر منصوبہ تیار کیا تاکہ لوگوں کو کاغذی کرنسی سے ہٹا کر بٹ کوئن کی طرز کی آن لائن کرنسی کی طرف لایا جائے۔

یہ ان سینکڑوں سازشی مفروضوں کے کھلیان میں سے مٹھی بھر مثالیں ہیں جو اس وقت مارکیٹ میں گردش کر رہی ہیں اور لوگ انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے ادھر سے ادھر بجلی اور روشنی کی رفتار سے پھیلا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بہت سے بظاہر پڑھے لکھے اور سنجیدہ لوگ بھی دنیا بھر کی حکومتوں، اداروں، ماہرین اور میڈیا کو چھوڑ کر سنی سنائی باتوں پر زیادہ آسانی سے ایمان لے آتے ہیں۔ 

مسیج سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے پہلے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مفروضے کون بیٹھ کر گھڑتا ہے اور اس سے بھی اہم، لوگ ان پر آنکھیں بند کر کے یقین کیوں کر لیتے ہیں؟ اس کے جواب کے اہم پہلو ہیں:

  • دنیا کا نظام ایک انتہائی پیچیدہ مشین کی مانند ہے جس کے کروڑہا پرزے مسلسل حرکت میں ہیں۔ عالمگیر نوعیت کے واقعات کے تناظرات اتنے وسیع، دور رس اور غیر شفاف ہیں کہ انہیں سمجھنے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ان کی تفاصیل، جزئیات اور اعداد و شمار روکھے پھیکے اور اکتا دینے والے ہوتے ہیں۔
  • انسان کی فطرت میں کہانی کھبی ہوئی ہے۔ ناولوں، ڈراموں، فلموں، افسانوں اور لطیفوں کو تو ایک طرف رکھیے، ہماری روزمرہ زندگیوں کا بہت بڑا حصہ بھی کہانیاں سننے، سنانے میں گزرتا ہے، چاہے وہ پڑوسن یا باس کی غیبت ہو، یا ’پتہ ہے آج صبح کیا ہوا،‘ کے انداز میں اپنے دوست سے گفتگو، سب کہانیاں نہیں تو اور کیا ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اخبار اور ٹی وی کی خبر کو بھی ’نیوز سٹوری‘ ہی کہا جاتا ہے۔ اور تو اور، سوتے میں کہانی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی اور ہم طرح طرح کے خواب دیکھتے رہتے ہیں، چاہے وہ صبح اٹھ کر ہمیں یاد رہیں یا نہ رہیں۔
  • کہانی کے ذریعے ہم اپنے اردگرد کی دنیا کی تفہیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ لوگ کیسے سوچتے ہیں، کیسے عمل کرتے ہیں، اور ہم اس سے اپنی زندگی گزارنے کے لیے کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں۔

اب اوپر کی گئی باتوں کو ملا لیں تو سازشی مفروضے کی چٹپٹی ہانڈی تیار ہو جاتی ہے۔ یہ مفروضہ انتہائی دقیق اور بےرنگ واقعے کو ایک رنگین، چٹپٹے پیکج کی شکل میں آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہے، جو معمے کو آسانی سے اور عام فہم طریقے سے حل کر دیتا ہے۔ نہ کوئی دماغ چکرا دینے والی تفاصیل، نہ کوئی لمبے چوڑے فیکٹس اینڈ فگرز۔ بس ایک مزے کی پرکشش کہانی، جو لوگوں کو توجہ کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس کہانی کا کھنچاؤ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ اس کی زد میں آنے والے خود کو مفروضے کی خامیوں اور کمزوریوں سے جان بوجھ کر آنکھیں چرانے پر آمادہ کر لیتے ہیں۔

’اندر کی کہانی تو صرف میں جانتا ہوں‘

ایک اور اہم نکتہ طاقت کا بھی ہے۔ کرونا وائرس کی طرح کے عالمگیر واقعات کے سامنے انسان خود کو انفرادی طور پر بےبس محسوس کرتا ہے۔ سازشی مفروضے انسان کو ایک طرح کی طاقت فراہم کرتے ہیں، ’ارے تمہیں پتہ ہے اندر کی کہانی کیا ہے؟ میں بتاتا ہوں!‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب لوگوں کو گمان گزرتا ہے کہ انہوں نے معما حل کر لیا ہے تو وہ لاشعوری طور پر خود کو بااختیار (empowered) محسوس کرنے لگتے ہیں، اور زور و شور سے اس مفروضے کی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں۔ دوسرے ’نادانوں‘ کو ’راز کی بات‘ بتا کر وہ اپنے آپ کو ان سے بلند سطح پر کھڑا کر کے وہ ’علم طاقت ہے‘ کا عملی نمونہ بن جاتے ہیں۔

خود کو ’طاقتیانے‘ کے اس عمل کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ بڑے بیانیے کو چیلنج کرنے میں بھی ایک طرح کی اندرونی قوت بلکہ سرشاری محسوس ہوتی ہے اور خود کو حالات کے دھارے کے رحم و کرم پر تنکے کی طرح بہے چلے جانے کی بجائے انسان خود ’آگہی‘ کی دولت سے مالامال سمجھ کر خیال کرنے لگتا ہے کہ وہ بااختیار ہو گیا ہے۔

تو یہ نفسیاتی اور حیاتیاتی وجوہ ہیں جن کی بنا پر لوگ آسانی سے سازشی مفروضوں کو پھیلانے میں مسرت محسوس کرتے ہیں۔ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے، لیکن ایک حد تک۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ حقیقت سے آنکھیں چرانا خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ کئی ملکوں کی حکومتوں اور سوشل میڈیا کمپنیوں نے کرونا وائرس کے بارے میں افواہیں پھیلانے والے کے خلاف کئی اقدمات شروع کر دیے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق