برنی سینڈرز اب بھی وائٹ ہاؤس کا حصہ بن سکتے ہیں؟

سینڈرز نے مسٔلے کی سنگینی اور آنے والی تباہی کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا لیکن کوئی ان کی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔

برنی نے ہمیشہ ان بینکاری اور امریکی صحت عامہ کے نظام میں خامیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے جن کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاستدان بھی بات کرنے سے گھبراتے ہیں (اے ایف پی)

برنی سینڈرز کے امریکی صدارتی انتخابات کی دوڑ سے باہر ہونے پر زیادہ حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ یہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب عالمی وبا کے باعث وہ پرائمریز کے لیے اہم ترین ریاستوں کے دورے اور وہاں ہونے والی متوقع پُرہجوم ریلویوں سے خطاب کرنے سے قاصر رہے۔

برنی نے ہمیشہ ان بینکاری اور امریکی صحت عامہ کے نظام میں خامیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے جن کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاستدان بھی بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔

کرونا وائرس اور اس کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے جو بائیڈن کو اپنے اہم حریف کے مقابلے میں زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔ ٹوئٹر پر کچھ دیر کے لیے ’ویرز جو‘ ٹرینڈ  کرنے کے باوجود جو بائیڈن نے آئسولیشن سے صدارتی اعلانات میں اس وبا کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، یہ وبا ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز دونوں کے لیے یکسر فائدہ مند رہی ہے۔

یہاں تک کہ رواں ہفتے سابق نائب صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کے ساتھ  فون پر بات کی جسے انہوں نے نہایت ’احسان مندانہ‘ اور ’گرمجوش‘ قرار دیا۔ (صدر ٹرمپ نے بھی اس کال کے بارے میں کہا تھا  کہ ’یہ ایک بہت ہی اچھی گفتگو تھی۔‘)

ٹرمپ کی اس دھمکی کے باوجود کہ کس طرح ڈیموکریٹس نیک باز سینڈرز کو صدارتی دوڑ سے باہر کرنے کی سازشیں کر رہے تھے، یہ ایک خود ساختہ سوشلسٹ کو اس دوڑ میں شامل کرنے کی ایک واضح کوشش تھی جسے فلوریڈا جیسی اہم ریاستوں میں خوف و ہراس کے ذریعے شکست دینا آسان ہوگا۔ انہوں نے بائیڈن سے ٹیلی فون پر گفتگو کر کے اپنے کارڈز شو کر دیے تھے۔

واضح طور پر ’سوئے ہوئے‘ جو بائیڈن کے لیے ٹرمپ کے دل میں ان سے زیادہ احترام ہے جن کے بارے میں وہ ’کیپ امریکہ گریٹ‘ تقاریر کے دوران ذکر کرتے ہیں۔

حادثاتی طور پر انہوں نے گفتگو میں سینڈرز کو دور رکھنے میں بائیڈن کو مدد فراہم کرنے کا اعتراف کر لیا۔

یہ بلاشبہ بے حد ستم ظریفی ہے کیوں کہ دوسری بات جو کرونا وائرس نے واضح کردی ہے وہ یہ ہے کہ 'میڈی کیئر فار آل' کس طرح کی پالیسی ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 صحت کے نظام، جہاں ہسپتال ایک دوسرے سے مد مقابل ہیں اور جہاں ڈیٹا شیئرنگ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، میں شدید دباؤ کے بعد دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

امریکی ایکسیپشنلزم کی وجہ سے وبائی امراض میں ابتدائی آزمائش کا تباہ کن آغاز ہوا۔ مغربی ورجینیا اُس وقت فخر کے ساتھ اعلان کررہا تھا کہ ریاست میں کرونا کا ایک بھی کیس نہیں ہے جب کہ دوسری جانب اس وائرس کے شکار شہری یہ دعوی کررہے تھے کہ انہیں ٹیسٹ کروانے سے روکا جا رہا ہے کیوں کہ اس سے ریاست کی بدنامی کا خطرہ تھا۔

 ٹرمپ نے کافی عرصے تک کیلیفورنیا میں کروز شپ کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ اعداد وشمار ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے اور بعد میں ان کی تعداد دوگنی ہونے میں ہماری کوئی غلطی نہیں تھی۔

ملک بھر میں گورنرز اور میئرز شہری فنڈز کے ذریعے نجی کمپنیوں سے میڈیکل گیئر خریدنے کا انتخاب کررہے تھے کیونکہ اس بارے میں کوئی مرکزی اعداد و شمار موجود نہیں تھے کہ کس کو کس چیز کی کتنی اور کہاں ضرورت ہے۔

سینڈرز نے مسٔلے کی سنگینی اور آنے والی تباہی کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا لیکن کوئی ان کی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔

تاہم اب انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ برنی کے سافٹ سوشلسٹ اور اجتماعی خیالات اس کساد بازاری کے بارے میں درست تھے جس کا ہمیں اب سامنا کرنا پڑے گا۔

آزادانہ امریکی کیپیٹلزم کا دور ختم ہوچکا ہے۔ ریپبلکن وائٹ ہاؤس اب ہر امریکی ٹیکس دہندگان کو 12 سو ڈالر کے چیک بھیج رہا ہے جس کا کچھ ہفتوں پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب وائٹ ہاؤس ایسی پالیسیاں لانے پر مجبور ہو گیا ہے جو عام دنوں میں کچھ ڈیموکریٹس ماننے سے انکار دیتے۔

سپر ٹیوزڈے (جس کے بارے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سالوں پہلے آیا تھا حالانکہ یہ گذشتہ ماہ ہی گزرا ہے) کے موقع پر اچانک پیٹ بٹگیگ، ایمی کلوبوچر اور بیٹو او آرورک نے سابق نائب صدر کی حمایت کا اعلان کر دیا جس سے پلڑا بائیڈن کے حق میں جھک گیا۔ ان سب ڈیموکریٹس نے ایک انتخابی مہم کی ریلی میں بائیڈن کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے لیے ڈلاس کا سفر بھی کیا۔

 تب یہ بات ناقابل فہم تھی کہ بائیڈن کو کبھی برنی سینڈرز پر برتری حاصل ہو جائے گی لیکن قیاس کیا جا سکتا ہے کہ شاید ان کی اپنے اعتدال پسند حریفوں کے ساتھ کم ہی بات ہوئی ہو۔

بہت سے لوگوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ بٹ گیگ، کلو بچر اور او آرورک کی حمایت کے بدلے میں سرکاری عہدوں کا وعدہ کیا جاسکتا تھا۔

اس نئی صورت حال میں یہ سوچنا ناقابل فہم نہیں ہے کہ بائیڈن اور سینڈرز کے مابین کم بات چیت ہوئی ہو گی۔

اگر جو بائیڈن اس ہفتے صدر ٹرمپ کے ساتھ گفتگو کر سکتے ہیں تو یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ وہ برنی کے ساتھ بھی کوئی معاہدہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

اگر اصل میں ایسا  ہی ہوا ہے تو میں تصور کر سکتی ہوں کہ بائیڈن نے شاید کچھ اس طرح کہا ہوگا: ’سال کے آغاز سے ہی سب کچھ بدل گیا ہے۔ کرایہ داروں کا تحفظ، سوشل سکیورٹی میں توسیع، مزدوروں کا تحفظ، مفت چائلڈ کیئر اور طبی قرضوں کو ختم کرنے جیسے اقدامات کرونا وائرس کے بعد آنے والے مہینوں میں اتنے شدید محسوس نہیں ہوں گے۔ اگر آپ ہمیں ایک ساتھ مل کر یہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو آپ نے جو خواب دیکھے ہیں اس میں سے بہت ساری چیزوں کو حقیقی بنایا جا سکتا ہے۔‘

سینڈرز نے آج اپنی مہم کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ’اس ملک کا مستقبل ہمارے خیالات کے ساتھ ہے۔‘

اور اگرچہ بہت سارے لوگ ان کے اس تکلیف دہ فیصلے پر افسردہ ہوں گے لیکن شاید انھیں بائیڈن کی زیرقیادت وائٹ ہاؤس کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے، جس کا ماضی کے مقابلے میں میں کہیں زیادہ امکان ہے۔
یہ واضح ہے کہ آج بائیڈن نے جنگ جیت لی ہے لیکن یہ اتنا ہی ممکن ہے کہ طویل مدتی طور پر برنی سینڈرز اور ان کے خیالات یہ جنگ جیت جائیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ