لاہور کی سڑکوں پر ضرورت مند ہیں یا پیشہ ور گداگر؟

بچے، بوڑھے، جوان مرد و خواتین سڑک کنارے فٹ پاتھوں پر نظر آتے ہیں اور امداد کرنے والوں کے گرد جمع ہوجاتے ہیں جس سے سماجی دوری قائم نہیں رہتی۔

 لاہور میں جاری جزوی لاک ڈاؤن میں جہاں سڑکوں پر ٹریفک کا رش کم ہوا وہیں شہر کی مختلف سڑکوں پر گداگروں کا رش دیکھنے کو ملتا ہے۔(انڈپینڈنٹ اردو)

’میں نے اس کے ہاتھ میں ہزار روپے کا نوٹ پکڑایا ہی تھا کہ نہ جانے کہاں سے ایک ہجوم آیا اور میرے گرد اکٹھا ہو گیا، میں بہت زیادہ ڈر گئی اور تیز تیز چلتی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسے فوراً لاک کر لیا۔ وہ میری گاڑی کے شیشے بجانے لگے، میں نے گاڑی چلائی تو اسی ہجوم کے پیچھے سے تین موٹرسائیکل سوار میرے پیچھے لگ گئے۔‘

یہ واقعہ پیش آیا لاہور کے علاقے گلبرگ کی رہائشی عائشہ احسن کے ساتھ جہنوں نے کچھ روز پہلے اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے کے بعد ایک گداگر کی مالی مدد کی تو ان کے گرد اور مانگنے والوں کا ہجوم لگ گیا۔

عائشہ احسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس سب سے اتنا ڈر گئیں کہ اپنے پیچھے آنے والے موٹرسائیکل سواروں سے بچنے کے لیے انہوں نے بہتر سمجھا کہ وہ اپنے گھر جانے کے بجائے اپنے بھائی کے گھر چلی جائیں جو قریب ہی تھا۔

انہوں نے کہا: ’وہاں پہنچی تو گھر کے چوکیدار نے دروازہ کھولا اور میں نے اسے فوراً دروازہ بند کرنے کا کہا۔ اس کے بعد وہ موٹر سائکلیں وہاں سے چلی گئیں۔‘

طلحہ سعید ایک نجی نیوز چینل کے صحافی ہیں۔ وہ چند روز قبل دفتر سے گھر جارہے تھے کہ ایک اشارے پر گاڑی رکی تو ایک سفید داڑھی والا شخص ان کی گاڑی کے پاس آکر بھیک مانگنے لگا۔

طلحہ سعید نے بتایا: ’میں نے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور انہیں دینے کے لیے ہلکا سا شیشہ نیچے کیا، ہاتھ باہر نکالا تو غلطی سے میرا ہاتھ ان کی داڑھی کو لگ گیا کیونکہ ان کا چہرہ شیشے کے بالکل ساتھ جڑا ہوا تھا۔ داڑھی کو ہاتھ لگا تو داڑھی ان کی چہرے سے اتر گئی اور وہ شخص جلدی سے پیسے پکڑ کر وہاں سے بھاگ گیا۔‘

طلحہ نے کہا کہ انہیں اندازہ ہوگیا کہ وہ شخص ضرورت مند نہیں بلکہ پیشہ ور گداگروں میں سے ایک تھا۔

کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے لگائے گئے لاک ڈاؤن کے باعث لاکھوں مزدوروں اور دیہاڑی داروں کے روزگار ختم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے کئی شہری خود یہ متحرک مہموں کے ذریعے ضرورت مند افراد کے لیے خیرات، ملی مدد اور راشن کا بندوبست کر رہے ہیں۔

حکومتی پابندیاں لگنے کے بعد سے لاہور شہر میں گداگروں کی تعداد میں ایک دم اضافہ دیکھنے کو آیا ہے، جس کا اعتراف حکومت نے بھی کیا اور قانون ساز اداروں نے بھی۔

 لاہور میں جاری جزوی لاک ڈاؤن میں جہاں سڑکوں پر ٹریفک کا رش کم ہوا وہیں شہر کی مختلف سڑکوں پر گداگروں کا رش دیکھنے کو ملتا ہے۔ بچے، بوڑھے ، جوان مرد و خواتین سڑک کنارے فٹ پاتھوں پر بیٹھے ہیں،  اور کچھ دیہاڑی دار مزدوروں کی طرح ہاتھوں میں بیلچے ہتھوڑیاں لیے ہر گزرنے والی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کرتے ہیں۔

اس سب میں زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ افراد جس تعداد میں سڑکوں پر موجود ہیں اس سے سماجی دوری کی تنبیہ خاک میں ملتی دکھائی دیتی ہے۔

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو کی چئیر پرسن سارہ احمد بھی سڑکوں پر بھیک مانگنے والے بچوں کے حوالے سے کمشنر لاہور اور آئی جی پنجاب کو خط لکھ چکی ہیں کہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں گداگروں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو اب تک پنجاب پولیس کے ساتھ مل کر اس معاملے پر دو وارننگ آپریشنز کر چکا ہے۔ سارہ احمد کا کہنا ہے کہ ان آپریشنزکے دوران زیادہ تر بچے فیملیز کے ساتھ نظر آئے جن کے پاس کوئی حفاظتی ماسک یا کچھ بھی نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وارننگ آپریشن کا مقصد ان لوگوں کو آگاہی دینا ہے کہ انہیں سماجی دوری اختیار کرنی ہے اور ان کا یوں سڑکوں پر نکلنا نہ ان کے لیے ٹھیک ہے نہ جو انہیں خیرات دے رہے ہیں ان کے لیے۔

'دورسرا مقصد یہ کہ ہم نے انہیں تنبیہ کی ہے کہ اگر وہ دوبارہ سڑکوں پر نظر آئے تو ان بچوں کے والدین کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ '

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سارہ کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر موجود گادگروں میں سے بیشتر ان کے ذاتی خیال میں پیشہ ور ہیں مگر وہ کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ ضرورت مند بھی ہوں اس لیے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ضرورت مند افراد کے گھروں میں جلد از جلد راشن پہنچائے تاکہ وہ لوگ یوں سڑکوں پر نہ نکلیں ۔

سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ دو روز سے انہوں نے شہر بھر سے 550 گداگروں کو اٹھایا ہے اور ان سے شورٹی بونڈز لے کر انہیں چھوڑ دیا ہے اور انہیں بتایا کہ اس طرح کرونا وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔

سی پی او نے کہا: 'ان پکڑے جانے والے لوگوں میں چند وہ لوگ بھی شامل ہیں جو راستے میں گاڑیاں روک کر لوگوں میں راشن تقسیم کر رہے تھے انہیں بھی تنبیہ کی ہے کہ ان کے اس طرح کرنے سے  گاڑیوں کے گرد جھمگٹا لگ جاتا ہے، اگر امداد کرنی ہے تو لوگوں کے گھروں تک پہنچائیں ۔'

گداگروں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے حوالے سے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور رائے بابر سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب سے لاک ڈاؤن ہوا خاص طور پر گذشتہ ہفتے سے پولیس کو بہت سی شکایات موصول ہوئیں کہ پیشہ وارنہ گداگر اور کچھ ایسے لوگ جو دیہاڑی دار ہیں جو اس وقت سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور جو کوئی بھی راشن تقسیم کرتا ہے اس پر ایک طرح سے یہ لوگ حملہ کر دیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا: 'اس کے پیش نظر ہم نے لاہور میں تقریباً 60 ان جگہوں کی نشاندہی کی جہاں یہ زیادہ آرہے ہیں اور باقائدہ ایک سروے کروایا کہ کیا یہ صرف مانگنے والے ہیں یا دیہاڑی دار مزدور ہیں جو ضرورت مند ہیں۔'

ڈی آئی جی آپریشنز کا مزید کہنا تھا: 'سروے میں ہمیں معلوم ہوا کہ ان میں سے زیادہ تر پیشہ ور بھکاری ہی ہیں،جبکہ کچھ جگہوں پر ہمیں دیہاڑی دار مزدور بھی ملے جنہیں روزگار نہیں مل رہا تھا تو وہ مدد مانگ رہے تھے۔  ہم نے ان جگہوں پر اپنی ٹیمز بھجوائیں اور ان کو وہاں سے اٹھا کر تھانوں میں لے گئے۔ '

رائے بابر سعید نے بتایا کہ ان لوگوں پر ایف آئی آر درج نہیں کی گئی بلکہ پولیس نے ان کا ڈیٹا اپنے پاس ریکارڈ کیا جس میں معلوم ہوا کہ کچھ لوگ پنجاب کے دیگر اضلاع سے بھی یہاں آئے ہوئے تھے انہیں واپس بھیجا اور شورٹی بانڈز لے کر انہیں چھوڑ دیا ۔ 'ہم ان سب کو جیلوں میں بھی نہیں ڈال سکتے تھے کیونکہ وہ مزید کرونا وائرس پھیلنے کا سبب بنتا۔

 رائے بابر سعید کا کہنا تھا کہ جو لوگ آج کل کے دنوں میں فلاحی کام کر رہے ہیں وہ مختلف جگہوں پر جا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہاں پیسے بھی تقسیم کرنا شروع کر دیتے ہیں جو کہ بالکل بھی صحیح طریقہ  نہیں ہے کیونکہ لوگ پہلے ہی مایوسی کا شکار ہیں اور راشن اور پیسے دیکھ کر جمع ہو جاتے ہیں۔ اس سے سماجی دوری جس کا ہم بار بار کہہ رہے ہیں وہ ختم ہو جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا فلاحی کام کرنے والوں کی سہولت کے لیے اس کے لیے پولیس نے ایک پروگرام متعارف کروایا ہے 'جس میں ہم نے پولیس اور ضلعی حکومت کے نمبر دیے ہیں کہ جو کوئی بھی فلاحی کام کرنا چاہتے ہیں وہ ہم سے رابطہ کریں ہم ان کے فلاحی کام کو ضلعی حکومت کے ساتھ مل کر پلان کریں گے۔'

انہوں نے مزید کہا: 'ہم انہیں جگہیں بتا سکتے ہیں جہاں ضرورت ہے کیونکہ لاہور پولیس نے بھی لاہور کے پسماندہ علاقوں کے پولیس سٹیشنوں، مسجد کمیٹیوں کا ڈیٹا اکٹھا کر کے لوگوں کے گھروں تک ایک مہینے کا راشن پہنچایا ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ لاہور پولیس کے اہلکاروں نے اپنی تنخواہوں میں سے پیسے نکال کر تقریباً دوکروڑ روپے اکٹھے کیے اور اب تک تین ہزار خاندانوں کو راشن پیکس دے چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فلاحی عمل کو ایک طریقے سے کرنا ہوگا تاکہ یہ نہ ہو کہ کسی کے پاس تو بہت سی امداد چلی جائے یا بار بار چلی جائے اور کسی کو کچھ بھی نہ ملے۔ ' اگر آپ یہی کام سڑکوں پر جا کر کریں گے تو ظاہری بات ہے کہ وہ بھیک مانگنے کو بھی فروغ دے گا اور اگر کسی حقدار کو اس کا حق ملنا ہے تو شاید وہ بھی نہیں مل پائے گا۔ '

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان