اگر مسعود اظہر دہشت گرد قرار پاتے تو کیا ہوتا؟

چین نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کو ایک مرتبہ پھر ناکام بنا دیا۔

مسعود اظہر کی جماعت جیش محمد پر پہلے ہی سکیورٹی کونسل 2001 میں پابندیاں لگا چکی ہے۔ فائل فوٹو: رائٹرز

پلوامہ حملے کے بعد فرانس، برطانیہ اور امریکہ نے کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے رجوع کیا تھا، تاہم چین نے اس کوشش کو ایک مرتبہ پھر ناکام بنا دیا۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بریفنگ کے دوران کہا کہ چین کی حکومت سکیورٹی کونسل میں اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرتی رہے گی۔ 

ماضی میں بھی چین تین مرتبہ ان کوششوں کو ناکام بناچکا ہے۔

مسعود اظہر کی جماعت جیش محمد پر پہلے ہی سکیورٹی کونسل 2001 میں پابندیاں لگا چکی ہے، اُس وقت مسعود اظہر کو جیش محمد کا سربراہ بھی کہا گیا تھا مگر اقوام متحدہ نے صرف ان کی جماعت پر ہی پابندی عائد کی تھی۔

اگر مسعود اظہر پر پابندیاں لگا دی جاتیں تو اس سے ان کے اثاثے منجمد ہو جاتے اور ساتھ ہی ان پر سفری پابندیاں بھی عائد ہو سکتی تھیں۔

اقوام متحدہ کی پابندیاں کیا ہیں؟

اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمومی طور پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ ان کا نفاذ نہیں کیا جاتا۔ اس سے قبل جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید پر بھی پابندیاں لگ چکی ہیں مگر بھارت نے ہمیشہ سے پاکستان پر تنقید کی ہے کہ پاکستان نے پابندیوں کے باوجود حافظ سعید کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے۔

اقوام متحدہ کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق: 'پابندیاں نہ ہی اکیلے کام کرتی ہیں اور نہ ہی کامیاب اور ناکام ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی امن اور سکیورٹی کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے یہ اقدامات اُس وقت سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں جب انہیں امن کو برقرار رکھنے، فروغ دینے اور قائم کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کے تحت نافذ کیا جاتا ہے۔'

اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عامر رانا کا انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 'اگرچہ مسعود اظہر کی جماعت جیش محمد پر اقوام متحدہ پابندیاں لگا چکی ہے مگر وہ پابندیاں القاعدہ کے تناظر میں ہیں۔ مولانا مسعود اظہر پر پابندی سے حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی اور مسعود اظہر کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ مزید بڑھے گا۔'

جب ان سے حافظ سعید پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ پر بھی پابندیاں ہیں اور کوئی آپ کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا مگر اس سے آپ کے امیج (ساکھ) پر فرق پڑتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینٹر برائے بین الاقوامی سٹریٹجک سٹڈیز علی سرور نقوی نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فیصلوں کو ماننے کا پابند ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ قرادادوں کے پیچھے سیاسی مقاصد بھی ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی پابندیوں اور قراردادوں کے نفاذ پر علی سرور نقوی نے کہا: 'بڑی قراردادوں کی نگرانی اور نفاذ کے لیے اقوام متحدہ کمیٹیاں قائم کرتا ہے مگر ہر قرارداد کے لیے کمیٹی قائم نہیں ہوتی۔ جہاں کمیٹی نہ ہو وہاں جس رکن ملک سے متعلق قرارداد ہوتی ہے اسے کہا جاتا ہے کہ آپ بتائیں کہ آپ نے کیا اقدامات کیے۔'

اقوام متحدہ پابندیاں کن پر لگاتا ہے؟

اقوام متحدہ کی پابندیاں ممالک، گروہوں اور افراد پر لگائی جاتی ہیں اور یہ پابندیاں اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق41 کے تحت عائد کی جاتی ہیں۔

شق 41 کے مطابق: 'سکیورٹی کونسل مسلح افواج کا استعمال کیے بغیر ایسے اقدامات کا فیصلہ کر سکتی ہے جس کے ذریعے اس کے فیصلے نافذالعمل ہو سکیں اور سکیورٹی کونسل اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو ان اقدامات کو نافذ کرنے کا کہہ سکتی ہے۔ ان اقدامات میں مکمل یا جزوی طور پر معاشی تعلقات، تمام قسم کے روابط (ریل، سمندری، ہوائی، ڈاک، ٹیلی گراف اور ریڈیو وغیرہ)، اور سفارتی تعلقات منقطع کرنا شامل ہیں۔'

پاکستان اور اقوام متحدہ کی پابندیاں

اس وقت پاکستان سے تعلق (جو کبھی پاکستان میں رہے ہیں یا ان کی سرگرمیاں پاکستان سے ہوتی رہی ہیں) رکھنے والے 130 سے زائد افراد اور جماعتیں اقوام متحدہ کی پابندیوں کا شکار ہیں۔ ان افراد میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری، جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور داؤد ابراہیم شامل ہیں۔ حقانی نیٹ ورک، الرشید ٹرسٹ، حرکت المجاہدین، جیش محمد، جماعت الاحرار، لشکر جھنگوی اور دیگر جماعتیں بھی پابندیوں کا شکار ہیں۔

اقوام متحدہ کی پابندیوں کی ناکامیاں و کامیابیاں

طالبان-امریکہ مذاکرات میں طالبان کی نمائندگی کرنے والے اور حال ہی میں پاکستان کی جیل سے رہا ہونے والے ملا عبدالغنی برادر اقوام متحدہ کی پابندیوں کا ابھی بھی شکار ہیں۔ ملا برادر کی امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں شرکت اور پابندیوں کے باوجود پاکستان سے قطر تک سفر نے اقوام متحدہ کی پابندیوں پر ایک بار پھر سوال کھڑے کیے ہیں۔

اس سے پہلے 2000 اور 2001 میں افغانستان میں القاعدہ کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر طالبان کی حکومت پر سفارتی اور معاشی تعلقات منقطع کرنے جیسی پابندیاں عائد کی گئی تھیں، مگر طالبان حکومت نے ان پابندیوں کے باوجود سر نہ دھرا۔

 1990 کی دہائی میں اقوام متحدہ کی طرف سے افریقی ممالک صومالیہ اور روانڈا پر ہتھیاروں کی خریدوفروخت پر پابندیاںعائد کی گئی تھیں، مگر پھر بھی ان پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔

اس طرح جہاں اقوام متحدہ کی پابندیاں ناکام ہوئی ہیں، وہیں کچھ کامیابیاں بھی ہیں۔

اقوام متحدہ اور امریکہ کی طرف سے پابندیوں کی دھمکی کی وجہ سے لیبیا نے 1988 کے لاکربائی بم حملے کی ذمہ داری قبول کی اور بڑے پیمانے پر تباہی کی صلاحیت رکھنے والے ہتھیاروں کے پروگرام کا بھی خاتمہ کیا۔ ان پابندیوں میں امریکہ کا سیاسی دباؤ بھی اہم تھا۔

2003 میں اقوام متحدہ نے لائبیریا پر لکڑی کی تجارت کرنے پر پابندیاں عائد کی تھی جس کی وجہ دیگر تنظیموں، جن میں یورپی یونین بھی شامل ہیں، نے مزید پابندیاں عائد کیں، جس کی وجہ سے لائبیریا کے صدر چارلس ٹیلر کا زوال شروع ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان