ریٹیلرز سٹیٹ بینک کی قرضہ سکیم کے باوجود لاکھوں ملازم نکالنے پر مجبور

ریٹیلرز کے مطابق سٹیٹ بینک کی نئی قرضہ سکیم سے صرف صنعت کاروں کو فائدہ پہنچے گا اور اگر حالات جلدی ٹھیک نہ ہوئے تو برانڈز بند کرنے کی نوبت آ جائے گی۔

سٹورز کے کرائے، یوٹیلیٹی بلز اور ملازمین کی تنخواہیں، یہ سب کچھ ہمارے لیے ناممکن ہے: چین سٹور ایسوسی ایشن آف پاکستان(اے ایف پی)

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کرونا (کورونا) وبا سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کے دوران پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین کا روزگار بچانے کے لیے ری فنانسنگ کی ایک سکیم متعارف کروائی ہے۔

اس سکیم کے مطابق کمپنیوں کے مالکان بینک سے قرضہ لے سکیں گے لیکن وہ پابند ہوں گے کہ اپنے ہر طرح کے ملازمین چاہے وہ مستقل ہوں، دیہاڑی دار یا کنٹریکٹ پر، ان کی تین ماہ یعنی اپریل تا جون تک کی تنخواہیں دیں گے۔

بینکوں سے حاصل کیے جانے والے اس قرضے پرشرح سود صرف پانچ فیصد ہو گی جب کہ ٹیکس ادا کرنے والوں کے لیے یہ شرح چارفیصد ہوگی۔

سٹیٹ بینک کے مطابق اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے چھوٹے کاروباری حضرات کو ترجیح دی جائے گی۔ وہ کاروبار جن میں تین ماہ کی تنخواہوں کا حجم 20 کروڑ روپے ہے ان کے ملازمین کو پوری تنخواہ، جن کی تین ماہ کی تنخواہوں کا حجم 50 کروڑ روپے  ہے، انہیں 50 فیصد اور جن کی تنخواہوں کا حجم 20 سے 50 کروڑ روپے کے درمیان ہو گا انہیں 75 فیصد تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے یہ قرضہ دیا جائے گا۔

اس قرضے پر کوئی پروسیسنگ فیس نہیں لی جائے گی جب کہ قرضہ لینے والے کو دو سال میں اصل رقم بینک کو واپس کرنا ہوگی۔

کیا یہ سکیم ریٹیلز کو بھی فائدہ دے گی؟

چین سٹور ایسوسی ایشن آف پاکستان (کیپ) کے چیئرمین رانا طارق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'سٹیٹ بینک نے جو سکیم متعارف کروائی ہے وہ دراصل صنعتوں کے لیے ہے، جہاں 20 اور 50 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔

'یہ وہ صنعت کار ہیں جو پہلے بھی بینک سے قرضہ لیتے رہتے ہیں۔ اب وہ کمرشل بینکوں سے تنخواہوں کی مد میں مزید قرضہ لے سکتے ہیں۔

'اس سکیم سے  چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد (سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز یا ایس ایم ای) کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ کاروباری افراد جو بینکوں کے کلائنٹس ہیں یا وہ جوبینکوں کو اضافی ضمانت دے سکتے ہیں، یہ سکیم ان کے لیے ہے۔ میرے خیال میں ریٹیل کے جس سیکٹر کی نمائندگی ہم کر رہے ہیں یہ سکیم اس کے لیے نہیں۔'

رانا طارق کا کہنا تھا کہ ان کے بڑے ریٹیلرز اضافی ضمانت نہیں دے سکتے یا فی الوقت ان کا بینکوں کے ساتھ کوئی لین دین نہیں اس لیے یہ سکیم ان کو کوئی فائدہ نہیں دے گی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق لاک ڈاؤن کی صورت حال میں ہول سیلرز اور ریٹیلرز 45 لاکھ کے قریب ملازمین کو فارغ کریں گے۔  اس صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ فارغ کیے جانے والے ملازمین کی متوقع تعداد کا 37 فیصد ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رانا طارق نے بتایا کہ 200 سے زیادہ ریٹیلز کمپنیاں کیپ کی رکن ہیں، جن میں سپننگ، ویونگ، ڈائینگ، پروسیسنگ، سٹیچنگ اور اسمبلنگ جیسے کئی شعبوں کی کمپنیاں شامل ہیں۔ 'ان ریٹیلرز کے ملک بھر میں 20 ہزار سے زائد آؤٹ لیٹس ہیں جبکہ چھ لاکھ سے زائد ملازمین ان کے پاس کام کرتے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر انہیں خدشہ ہے کہ کاروبارنہ چلنے کی صورت میں ملازمین کو فارغ کرنا ناگزیر ہوجائے گا۔

'ہم نے چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں مطالبہ کیا تھا کہ تمام وفاقی و صوبائی ٹیکسوں کی وصولی چھ ماہ کے لیے معطل کر دی جائے، جی ایس ٹی 14 اور 17 فیصد سے کم کر کے چھ  فیصد کیا جائے اور ریٹیل سیکٹر کے چھ لاکھ ملازمین کے لیے براہ راست ویج سپورٹ فراہم کی جائے۔'

رانا طارق نے کہا کہ چین سٹورز کی پہلی ضرورت اس وقت اپنے تجربہ کار عملے کی ملازمتیں برقراررکھنا ہے۔ 'دکانوں کے کرائے، یوٹیلیٹی بلز اور اس پر ملازمین کی تنخواہیں، یہ سب کچھ ہمارے لیے ناممکن ہے۔'

صدر لبرٹی مارکیٹ اور ویب سائٹ پاک ویلز کے مالک سہیل سرفراز منج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لبرٹی مارکیٹ میں تین ہزار سے زائد دکانیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت دیہاڑی دار محنت کشوں کے حوالے سے تو سرگرم ہے مگر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لیے اس نے کچھ نہیں سوچا۔ 'جس کا جتنا بڑا کاروبار ہے وہ اتنا ہی زیادہ خسارے میں جا رہا ہے۔

'میری کمپنی میں ڈھائی سو ملازمین ہیں۔ مارچ کی تنخواہیں تو ہم نے دے دیں مگر اپریل کے مہینے میں کوئی بھی کاروباری سرگرمی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوں گے کہ تنخواہیں دے سکیں۔'

انہوں نے بتایا کہ پاک ویلز کا خرچہ تقریباً ایک کروڑ روپے ماہانہ ہے۔ 'ہمارے دفاتر حکومت نے لاک ڈاؤن سے پہلے بند کروا دیے تھے۔'

سہیل کے مطابق ابھی تک لبرٹی مارکیٹ میں کاروبار کرنے والوں میں سے  کسی نے ملازمین کو نوکری سے نہیں نکالا لیکن آنے والے دنوں میں 50 فیصد ملازمین کو نوکری سے نکالنا ناگزیر ہو جائے گا جب کہ باقی 50 فیصد کی تنخواہوں میں 30 سے 50 فیصد کی کٹوتی کی جائے گی۔

سہیل کے خیال میں سٹیٹ بینک کی متعارف کروائی گئی نئی قرضہ سکیم ان کے کسی کام کی نہیں کیونکہ ایسی سکیموں میں کاغذی کارروائی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ عام شخص ویسے ہی پریشان ہوجاتا ہے۔ 'اس سکیم کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میں قرضہ لے کر تنخواہ تو دے دوں گا مگر میرا کاروبار تو چل نہیں رہا، میں کچھ کما نہیں رہا تو قرضہ واپس کیسے کروں گا؟  آنے والے دنوں میں کاروبار کے کیا حالات ہوتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔'

سہیل نے مشورہ دیا کہ اگر حکومت نے لاک ڈاؤن جاری رکھنا ہے تو معاشی سرگرمیاں اور مالیاتی لین دین کو کچھ عرصے کے لیے روک دیں۔

کپڑوں کے معروف برانڈ زارا شاہجہان کی ڈیزائنر زارا شاہجہان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'ہمارے ساتھ مختلف قسم کے ملازمین کام کر رہے ہوتے ہیں، جن میں تربیت یافتہ اورغیرتربیت یافتہ عملہ اورسو کے قریب  دیہاڑی دارخواتین شامل ہیں۔

'ہم لوگوں کے پاس اتنا بجٹ نہیں کہ ملازمین کو کاروبار کے بغیر ایک مہینے سے زیادہ اپنے پاس کام پر رکھ سکیں۔ اگر اپریل کے وسط تک یہ سب ٹھیک نہ ہوا تو برانڈز بند ہونا شروع ہو جائیں گے اور ہمارے دیہاڑی دار اور سکیلڈ لیبر سڑکوں پر آجائیں گے۔'

زارا کہتی ہیں کہ حکومت ہمیں سچائی بتائے کہ کاروبار کتنے مہینے کے لیے بند کرنا ہے؟ 'ہمیں کچھ نہیں معلوم جس کی وجہ سے ہم منصوبہ بندی نہیں کر پا رہے۔ حکومت دیہاڑی دار ملازمین کو احساس پروگرام کے تحت 12 ہزار روپے دے رہی ہے مگر یہ ساری زندگی نہیں ملنے۔ اس معاشی بحران کے دوران اگر برانڈ ہی بند ہو گیا تو دیہاڑی دار ملازم کیا کرے گا؟'

بچوں کے ملبوسات کے برانڈ ہاپ سکاچ کی مالکن رومانہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک نے تنخواہوں کا انتظام تو کر دیا مگر زیادہ مناسب ہوتا کہ وہ ٹیکسز، خاص طور پر جنرل سیلز ٹیکس میں کمی کرتے کیونکہ جب سیلز ٹیکس کوچھ سے 17 فیصد تک بڑھایا گیا تھا توزیادہ تر مالکان نے اس اضافے کو گاہکوں کی طرف منتقل کرنے کی بجائے اس کا بوجھ خود برداشت کیا تھا اور یوں ان کے منافعوں کی شرح انتہائی کم ہونے کی وجہ سےان کے پاس کوئی اضافی وسائل موجود نہیں رہے کہ وہ اس وبا کی وجہ سے پیدا ہوجانے والی صورتحال کا مقابلہ کر سکیں۔

ہب لیدر کے مالک اسفندیار کراچی میں رہتے ہیں۔ ان کے برانڈ کی ملک بھر میں 17 دکانیں ہیں، جن میں ڈھائی سو سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔

اسفندیار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مارچ  سے ان کی دکانیں بند ہیں۔ 'ہم آن لائن کاروبار بھی نہیں چلا پا رہے کیونکہ سندھ میں  کوریئر سروس بھی صرف ادویات یا کھانے پینے کی اشیا ڈیلیور کررہی ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ویئر ہائوسز بھی بند ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ریوینیو نہیں آرہا۔ ہماری سیل ہو گی تو ہم اپنے ملازمین کو بچا پائیں گے۔ 'بہت سے لوگ بینک سے قرضہ لے کرکام کرتے ہیں، مگر ہمارا یہ خاندانی کاروبار ہے۔ ہم اپنے وسائل سے ہی کام کرتے ہیں، اس لیے ہمیں بینک سے قرضہ لینے میں کوئی دلچسپی نہیں۔

'ہم نے اپنے ملازمین کی تربیت میں وقت اور پیسہ لگایا ہے۔ ہم انہیں نکالنا نہیں چاہتے۔ ہمیں سپلائرز کی طرف سے روز کالز آتی ہیں کہ ہمیں پیسے دے دیں۔

سٹیٹ بینک کی سکیم کے بارے میں بینک والے کیا کہتے ہیں؟

ایک سینیئر بینک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بینکوں کا نکتہ نظر یہ ہے کہ جو لوگ کچھ عرصہ پہلے یا حالیہ دنوں نادہندہ ہو گئے تھے اور بینک ان کے خلاف ریکوری کے مقدمات درج کروا رہے تھے، انہیں بھی سٹیٹ بینک کی پالیسی کے تحت ایک  سال کی رعایت دینی ہوگی تا کہ وہ اس دوران اپنی ادائیگیوں میں باقاعدگی لے آئیں اور یا پھر ہمیں ان کے قرضوں کو ری سکیجوئل کرنا پڑے گا، جس سے بینکوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا اس بات کا بھی احتمال ہوگا کہ کلائنٹس پرانے قرضوں کے ساتھ ساتھ نئے قرضے بھی ادا نہیں کر پائیں گے۔ خاص طور پر جب ان کے کاروبار بھی معاشی بحران کا شکار ہیں۔

بینک افسر نے خدشہ ظاہر کیا کہ کم سود پر حاصل کیا گیا قرضہ ملازمین کی تنخواہوں ادا کرنے کی بجائے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی قدرتی آفات جیسے کہ سیلاب اور زلزلے کے نتیجے میں پیدا شدہ حالات کے پیش نظر قرضے معاف کرنے پڑے تھے۔

اقتصادی ماہرین سٹیٹ بینک کی سکیم کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

ماہر معاشیات ڈاکٹر قیص اسلم نے انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا: 'میرے علم میں نہیں کہ اس طرح کی کوئی بھی سکیم ماضی میں کامیاب ہوئی ہو۔ ایسی سکیمیں حکومت اور عوام کے لیے اضافی بوجھ ہی بنیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بینک ضمانت اور تحقیق کے بغیر قرضہ نہیں دے گا۔' کرونا وبا کے وقت جب سب کچھ بند ہے تو بینک کتنے لوگوں کو قرضہ لینے والے کی چھان بین کے لیے بھیجیں گے؟'

انہوں نے دعویٰ کیا کہ دراصل اس سکیم کے تحت بینکوں کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ پیسے بنائیں۔

 قیص اسلم کے خیال میں اس سکیم کو لانے سے سیاسی دباؤ تو کم ہو گیا مگر لاک ڈاؤن کے دنوں میں یہ سہولت زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوگی، اس کی جگہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ یوٹیلٹی بلز، جی ایس ٹی اور دوسرے ٹیکسوں میں چھوٹ دیتی۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت