سعودی عرب: انسانی حقوق کی سرگرم کارکنوں کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز

لوجين الہذلول کو مئی 2018 میں دیگر دس خواتین کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں جیل میں مبینہ طور پر تشدد اور جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا۔

لوجين الہذلول نے دیگر کارکنوں کے ساتھ سال ہا سال  خواتین کےڈرایئونگ کے حق کے لیے پرامن جدوجہد کی تھی۔تصویر:رائٹرز

سعودی عرب میں حقوق انسانی کی ایک سرگرم کارکن لوجين الہذلول کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز بدھ کو ہوا، جنہیں جیل میں مبینہ طور پر تشدد اور جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا۔

لوجين الہذلول کو، جنہوں نے خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی کی خلاف ورزی کی تھی، مئی 2018 میں دیگر دس خواتین کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔

دیگر خواتین میں عزیزہ الیوسف، ایمان النفجان اور ہطون الفاسی شامل ہیں، جو ریاض میں عدالت کے سامنے پیش ہوں گی۔

عدالت کے سربراہ ابراہیم السیاری نے صحافیوں اور سفارت کاروں کو بتایا کہ ان خواتین کے خلاف الزامات عائد کئے جائیں گے لیکن یہ نہیں معلوم کہ وہ الزامات کیا ہوں گے۔ سیاری نے پرائیویسی خدشات کی بنیاد پر الزامات بتانے سے گریز کیا۔  

ان خواتین کے خلاف باضابطہ الزامات جاری نہیں کیے گئے، لیکن سعودی پریس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ان خواتین پر ’اپنی سرگرمیوں کی حمایت میں غیرملکی عناصر کے ساتھ مشتبہ رابطوں، بعض حساس سرکاری عہدوں پر افراد کی بھرتی اور ملک سے باہر جارحانہ عناصر کی مالی معاونت‘ جیسے الزامات شامل ہیں۔

دیگر ریاستی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا کہ ان خواتین نے شاہی فرمان 44 اے کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے تحت ملزمان پر دہشت گردی کا الزام عائد ہوسکتا ہے اور جس پر تین سے 20 برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

ان گرفتاریوں کی ملک کے مرکزی پریس نے تعریف کی اور سماجی ویب سائٹس پر اشتہار بھی جاری کیے گئے۔ حکومت نواز پریس نے زیر حراست خواتین کارکنوں کی تصاویر شائع کیں اور انہیں غدار کے لقب بھی دیئے۔

بعض خواتین عدالت میں اکٹھی پیش ہوئیں، لیکن ان کے مقدمات بظاہر علیحدہ ہیں۔ ان کے رشتہ داروں کو سماعت کے مخصوص حصوں کے دوران داخلے کی اجازت دی گئی۔

لندن میں حقوق انسانی کے ایک گروپ ’القسط‘ کا کہنا ہے کہ ان خواتین پر ریاست کے سائبر قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ سزا کی صورت میں انہیں ایک سے دس سال تک کی قید ہوسکتی ہے۔ ادارے کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ ان خواتین پر ’جارحانہ عناصر‘ کے ساتھ رابطوں اور حقوق انسانی کی سرگرمیوں سے متعلق الزامات ہیں۔

لوجين الہذلول کے 31 سالہ بھائی ولید الہذلول کا کہنا ہے کہ ان کی بہن سے معافی کی درخواست پر دستخط کروائے گئے ہیں۔ الہذلول خاندان اور ہیومن رائٹس واچ نے حالیہ مہینوں میں الزام عائد کیا ہے کہ ان زیرِحراست افراد پر تشدد کیا گیا اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے، تاہم سعودی حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

حقوق انسانی کے لیے سرگرم لوجين الہذلول نے اپنے والدین کو بتایا تھا کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا، مارا گیا، واٹر بورڈنگ کی گئی، بجلی کے جھٹکے دیئے گئے، جنسی طور پر ہراساں کیا گیا اور جنسی زیادتی اور موت کی دھمکیاں دی گئیں۔

ان کے بھائی نے انڈپینڈنٹ کو گذشتہ ماہ بتایا کہ ’انہوں نے (بہن) کے ہاتھ لرزتے دیکھے، انہوں نے تشدد کے نشانات دیکھے اور ٹانگوں پر زحموں کے نشان پائے۔‘

انہوں نے مزید بتایا، ’ایک تفتیش کار نے اپنی ٹانگ میری بہن کی ٹانگوں پر رکھی، جیسے آپ اپنی ٹانگ میز پر رکھتے ہیں۔ وہ ان کے چہرے کے قریب سگریٹ کے کش لگا کر دھواں خارج کر رہا تھا۔‘

ولید نے منگل کو ٹویٹ کیا کہ ان کی بہن کو وکیل فراہم نہیں کیا گیا اورنہ ہی انہیں ان پر لگائے گئے الزامات سے آگاہ کیا گیا۔

ان خواتین کارکنوں کے لواحقین نے کہا کہ انہیں آخری وقت پر آگاہ کیا گیا کہ مقدمہ خصوصی عدالت سے (جو دہشت گردی کے مقدمات کے لیے قائم کی گئی تھی مگر اکثر سیاسی مقدمات کے لیے استعمال کی جاتی ہے) تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے محرکات واضح نہیں لیکن سفارت کار پُرامید تھے کہ شاید یہ کئی ماہ کی مغربی ممالک کی کوششوں کے نتیجے میں نرمی کا اشارہ ہے۔

لوجين، جو 2016 میں ڈچز آف سسیکس میگھن مارکل کے ہمراہ اوٹاوا میں ون ینگ سمٹ میں شریک ہوئی تھیں، کئی برسوں سے پرامن طریقے سے دیگر کارکنوں کے ساتھ خواتین کے گاڑی چلانے کے حق کے لیے مہم چلاتی رہی ہیں۔

برٹش کولمبیا یونیورسٹی کی گریجویٹ لوجين، جنہیں 2015 کی سب سے زیادہ بااثر عرب خاتون ہونے کی فہرست میں شامل کیا گیا، گاڑی چلانے کی خلاف ورزی کی وجہ سے کئی مرتبہ گرفتار ہوچکی ہیں۔ 2014 میں انہیں متحدہ عرب امارات کی سرحد سے گاڑی چلانے پر حراست میں لیا گیا تھا۔

انہیں 73 روز بچوں کی جیل میں رکھا گیا، انہوں نے قید کے دوران کے تجربات ٹوئٹر پر بھی بیان کیے۔ وہ اُن پہلی خواتین میں سے ایک تھیں، جنہوں نے 2015 کے میونسپل کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن ہار گئیں۔

سعودی عرب پر اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کونسل میں اس ماہ کے اوائل میں پہلی مرتبہ اُس وقت تنقید کی گئی جب 36 ممالک کے مشترکہ بیان میں ریاض سے حقوق انسانی کے تمام کارکنوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، جن میں لوجين کا بھی نام شامل تھا۔

گلف سینٹر فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اسے ’کارکنوں کی صورتحال پر تشویش ہے‘ اور یہ کہ انہیں شاید منصفانہ سماعت نہ ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب میں اکثر منصفانہ سماعت کے قواعد نظر انداز کیے گئے ہیں، خاص طور پر تشدد کے حوالے سے۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر سما حدید کہتے ہیں کہ ’یہ قابل تشویش ہے کہ انہیں محض خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

اس مقدمے کی وجہ سے سعودی عرب پر کافی تنقید ہوئی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی یمن جنگ اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس جمال خاشقجی کے گذشتہ اکتوبر استنبول میں قتل پر بھی ریاض کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔

سعودی حکام کے ایک نمائندے سے ردعمل کی درخواست پر اب تک کوئی جواب نہیں ملا۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین