خلا میں ’تخلیق کے ستون‘: بادلوں کی تصویر توجہ کا مرکز بن گئی

ناسا کی جانب سے چھ ہزار نوری سال کے فاصلے پر بادلوں کے مرغولوں کی تصویر جاری جہاں نئے ستارے بن رہے ہیں۔

کھربوں کلومیٹر طویل بادلوں کے انمرغوںل کو نئے ستاروں کی نرسریاں قرار دیا گیا ہے (ناسا)

امریکی خلائی ادارے ناسا نے خلائی بادلوں کی ایک نئی تصویر جاری کی ہے جس میں تاریک بادلوں کے مرغولوں کے اندر ہزاروں چمکتے ستاروں کے جھرمٹوں نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کر لی ہے۔

زمین سے 5700 نوری سال کی دوری پر واقع ایگل نیبولا کی یہ تصویر خصوصی تکنیک کے ذریعے حاصل کی گئی ہے جس میں خلائی دوربین ہبل اور ایکس رے دوربین چندرا کا ڈیٹا استعمال کیا گیا۔

1995 میں اسی نیبولا کی ایک تصویر لی گئی تھی جسے ’تخلیق کے ستون‘ کا نام دیا گیا تھا اور یہ خلا کی مشہور ترین تصاویر میں سے ایک ہے۔

تاہم اب سائنس دانوں نے عام روشنی کی بجائے انفرا ریڈ شعاعوں سے کام لے کر یہ تصویر کھینچی ہے۔

نیبولا سے مراد خلا میں ستاروں کے درمیان پھیلی ہوئی گرد ہے، جو اکثر اوقات ہائیڈروجن، ہیلیئم اور دوسری گیسوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔

ان بادلوں کو ستاروں کی نرسریاں کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کے اندر نئے ستارے جنم لیتے ہیں۔ ان بادلوں کے ذرے کششِ ثقل کی وجہ سے قریب آتے جاتے ہیں، اور آپس میں ٹکرا کر گرم ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ان کا وزن اور درجۂ حرارت ایک خاص حد تک پہنچ جائے تو نیا ستارہ جنم لیتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہمارا اپنا سورج اور نظامِ شمسی آج سے تقریباً ساڑھے چار ارب سال قبل اسی قسم کے ایک نیبولا سے وجود میں آئے تھے۔

تصویر میں دکھائے دینے والے بادل پانچ نوری سال کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ فاصلہ تقریباً 470 کھرب کلومیٹر بنتا ہے۔

آس پاس کے ستاروں سے نکلنے والی شعاعوں اور تابکاری کی وجہ سے یہ بادل مسلسل شکل تبدیل کر رہے ہیں، اس لیے ان کی جب بھی تصویر لی جائے، یہ تھوڑی سے مختلف نظر آتے ہیں۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس