خیبرپختونخوا: 17 لاکھ بیروزگار، 60 ارب روپے نقصان کا خدشہ

اقتصادی امور کے ماہر صحافی و تجزیہ کار مبارک زیب خان کے مطابق: 'پاکستان شدید معاشی بحران کی طرف جا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کے بعد جو معاشی صورت حال پیدا ہوگئی تھی، اس سے بد تر صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔'

وزیراعظم کے احساس پروگرام کے تحت امدادی  رقم کی  وصولی کے لیے خواتین کی قطار (تصویر: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا حکومت نے کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر لگائے گئے لاک ڈاؤن کے صوبائی معیشت پر برے اثرات کے حوالے سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے صوبے میں 17 لاکھ لوگ بیروزگار ہونے اور60 ارب روپے نقصان کا خدشہ ہے۔

صوبائی محکمہ پلاننگ اینڈ ڈولپمنٹ کی جانب سے پیش کی گئی اس رپورٹ میں اس حوالے سے حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے کہ اس نقصان کے اثرات کم سے کم ہوں۔

رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق صوبائی شرح نمو سال گذشتہ میں 3.73  فیصد کے حساب سے بڑھ رہی تھی  لیکن کرونا وبا کی وجہ سے اب یہ 2.19 فیصد پر ہے جس سے صوبے کو تقریباً 20  ارب روپے کے نقصان کا خدشہ ہے، تاہم مہنگائی کی شرح اور صنعتوں پر مستقبل میں پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگایا جائے تو60 ارب روپے تک نقصان کا اندیشہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبوں میں ہوٹل و ریسٹورنٹس اور ٹرانسپورٹ کا شعبہ شامل ہے جب کہ کم متاثرہ شعبوں میں زراعت اور ماہی گیری کے شعبے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اب تک چار لاکھ سے زائد افراد لاک ڈاؤن سے متاثر ہو چکے ہیں، اگر لاک ڈاؤن کو چھ مہینوں تک بڑھایا گیا تو صوبے میں 27 لاکھ افراد بیروزگار ہو سکتے ہیں۔ یہ 27 لاکھ ان 13 لاکھ افراد کے علاوہ ہوں گے جو مختلف شعبہ جات سے منسلک ہیں۔

تعمیرات اور مینوفیکچرنگ کا شعبہ

رپورٹ کے مطابق صوبے کے تعمیراتی شعبے سے تقریباً نو لاکھ 85 ہزار افراد کا روزگار وابستہ ہے، جس میں اندازے کے مطابق 30 فیصد یا تقریباً تین لاکھ  افراد 45 دن کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیروزگار ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح مینوفکچرنگ کے شعبے سے وابستہ آٹھ لاکھ 62  ہزار سے زائد افراد میں سے بھی 30 فیصد یا دو لاکھ 58  ہزار افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔

ٹرانسپورٹ کا شعبہ

رپورٹ کے مطابق اس شعبے سے تقریبا سات لاکھ 30 ہزار افراد کا روزگار وابستہ ہے، جس میں تقریباً آدھے یعنی تین لاکھ 59 ہزار افراد بیروزگار ہو سکتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ صوبائی شعبوں میں سب سے زیادہ متاثرہ شعبہ ہے۔ اس کی وجہ رپورٹ کے مطابق یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کی کمائی روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

ہوٹل و ریسٹورنٹس کا شعبہ

ٹرانسپورٹ  شعبے کی طرح ہوٹل و ریسٹورنٹس کا شعبہ بھی سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبہ جات میں شامل ہے۔ صوبے میں ایک لاکھ 16 ہزار سے زائد افراد اس شعبے میں کام کرتے ہیں جن میں سے 50 فیصد یعنی 55 ہزار888 افراد بیروزگار ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگر لاک ڈاؤن کو 45 دن سے آگے بڑھایا گیا تو اس سیکٹر سے وابستہ مالکان ملازمین کو نکالنا شروع کریں گے کیونکہ 45 دن کے بعد اس سیکٹر سے وابستہ ہوٹل و ریسٹورنٹس کے معاشی حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔

زراعت، لائیو سٹاک، ماہی گیری و جنگلات کا شعبہ

صوبے کے سب سے زیادہ افراد یعنی 71 لاکھ مزدوروں کا 32 فیصد یا 23 لاکھ 38 ہزار سے زائد افراد کا روزگار اس شعبے سے وابستہ ہے اور رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس شعبے کو سب سے کم نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اس شعبے میں برسر روزگار افراد میں پانچ فیصد یا ایک لاکھ 16 ہزار سے زائد افراد بیروزگار ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ میں اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس شعبے میں زیادہ تر برسرروزگار افراد کو کام کی جگہ پر جانا نہیں پڑتا۔ مارکیٹ سپلائی کے وقت یہ معاملہ بھی تشویش ناک ہونے کا امکان ہے۔

ہول سیل کاروبار کا شعبہ

صوبے میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ متاثر ہونے شعبہ جات میں ہول سیل کاروبار کا شعبہ شامل ہے جہاں برسر روزگار افراد میں سے20 فیصد بیروزگار ہو سکتے ہیں۔ اس شعبے میں دس  لاکھ 84  ہزار سے زائد لوگ کام کرتے ہیں جس میں دو لاکھ 27  ہزار سے اوپر افراد بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔

رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر کرونا وائرس کے پیش نظر لاک ڈاؤن کو چھ مہینے تک بڑھایا گیا تو صوبے میں 71 لاکھ  افراد میں سے 27  لاکھ سے زائد بیروزگار اور اگر ایک سال تک بڑھایا گیا تو 42  لاکھ سے زائد بیروزگار ہو جائیں گے۔

حکومتی حکمت عملی کیا ہے؟

رپورٹ کے مطابق حکومت نے احساس پروگرام کا آغاز کیا ہے جس سے خیبر پختونخوا میں 10 لاکھ تک افراد مستفید ہوں گے جبکہ ان مستفید ہونے افراد میں چھ لاکھ اضافے کا پلان موجود ہے، صوبائی حکومت کی جانب سے دو ہزار مزید فی فرد دیے جانے کا امکان بھی شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مسئلہ ان افراد کا ہوگا جو احساس پروگرام کے لیے اہل نہیں ہوں گے لیکن آنے والے دنوں میں وہ بھی اس صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ان افراد کے لیے صوبائی حکومت ضلعی انتظامیہ کی مدد سے پلان ترتیب دے گی۔

تیسرا پلان رپورٹ کے مطابق ٹیکس میں چھوٹ ہے۔ رپوٹ کے مطابق کچھ شعبوں کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی جبکہ ہول سیل کے شعبے کو سیلز ٹیکس کی مدد میں چھوٹ دی جائے گی۔ ایک تخمینے کے مطابق حکومت پانچ ارب روپے تک  مخلتف شعبہ جات کو ٹیکس میں چھوٹ دے گی۔

رپورٹ کے مطابق اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو احساس پروگرام کی مد میں تقریباً آٹھ ارب، ضلعی انتظامیہ کی نشاندہی پر غریب افراد کے لیے پیسوں کی مد میں ساڑھے تین ارب، ٹیکس چھوٹ کی مد میں پانچ ارب، قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کی سہولت کی مد میں ڈیڑھ ارب جبکہ صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے لیے چھ ارب اور محکمہ صحت کے لیے آٹھ ارب روپے جاری کیے جائیں گے۔

مجموعی طور کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے صوبے نے 33 ارب روپے سے زائد پیکج کی منظوری دی ہے۔

کیا حکومتی اقدامات کافی ہیں؟

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کو ان لوگوں تک پہنچنا ہوگا جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیروزگار ہو رہے ہیں یا ان کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ صحافی و تجزیہ کار شہبار رانا کئی سالوں سے معیشت کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، جسے احساس پروگرام میں ضم کیا گیا ہے، کے تحت حکومت محدود لوگوں تک ہی پہنچ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی اور پروگرام موجود نہیں ہے  جن سے ان افراد کا ازالہ ہو سکے جن کے کاروبار بند ہوگئے ہیں یا وہ بیروزگار ہوگئے ہیں۔'

شہباز رانا کے خیال میں ٹیکس چھوٹ سے بہترآپشن یہ ہو سکتا ہے کہ ان شعبوں کو نقد رقم دی جائے تاکہ وہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کر سکیں۔

'ٹیکس چھوٹ سے پہلے حکومت یہ تو کرے کہ جن 13 لاکھ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے ان کی مدد کرے، بجائے اس کے کہ ٹیکس میں چھوٹ دی جائے۔'

اقتصادی امور کے ماہر صحافی و تجزیہ کار مبارک زیب خان سمجھتے ہیں کہ احساس پروگرام کے تحت ملنے والی رقم ان افراد کے لیے ناکافی ہے جو مہینے کے 15 سے 20 ہزار تک کماتے ہیں کیونکہ احساس پروگرام کے تحت حکومت چار مہینوں کے 12 ہزار دیتی ہے جس سے گھر کا خرچہ چلانا اس دور میں ناممکن لگتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو  بتایا: 'دنیا کے کئی ممالک نے راشن دینے کا باقاعدہ پلان بنایا ہوا ہے اور غریب طبقے کو ہر مہینے راشن دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں حکومت کی جانب سے ایسا کوئی پلان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے کہ وہ ہر اس فرد تک پہنچے، جس کا کاروبار یا روزگار لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔'

مبارک زیب نے بتایا کہ ٹیکس کی چھوٹ اس لیے فائدہ مند نہیں کہ ہوٹل کھلے ہوں اور گاہک آرہے ہوں تو سمجھ آتا ہے، جب ہوٹل بند ہیں اور لوگ نہیں آرہے تو سیلز ٹیکس میں چھوٹ کا فائدہ کیا ہوگا؟

اسی طرح مبارک زیب کے مطابق مخلتف شعبوں میں صرف سیلز ٹیکس نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر ٹیکسز وفاق کی طرف سے ہوتے ہیں جیسے انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور وفاق کی جانب سے اس میں چھوٹ کی ابھی تک کوئی بات نہیں کی گئی اور نہ یہ ممکن ہے کیونکہ اس سے ملکی معیشت پر مزید برے اثرات مرتب ہوں گے۔

انہوں نے بتایا: 'پاکستان شدید معاشی بحران کی طرف جا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کے بعد جو معاشی صورت حال پیدا ہوگئی تھی، اس سے بد تر صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔'

مبارک زیب کے مطابق ایک تو دیہاڑی دار طبقہ متاثر ہو رہا ہے لیکن مالکان بھی متاثر ہو رہے ہیں اور ان کو بھی حکومت نے ہی سپورٹ کرنا ہے۔ ایک آپشن ان کو بلا سود قرضے دینا ہے تاکہ وہ اپنے کاروبار دوبارہ چلا سکیں اور ملک دوبارہ مستحکم ہو سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت