برطانیہ: 'لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد مسلمانوں پر حملوں کا خطرہ'

ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں دائیں بازو کے انتہا پسند منظم انداز میں مسلمانوں پر کرونا وائرس پھیلانے کا جھوٹا الزام لگا رہے ہیں۔

لندن میں اسلاموفوبیا کے خلاف احتجاج کا ایک منظر (اے ایف پی)

ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 'خطرناک' سازشی نظریات کے تحت مسلمانوں کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کر کے کرونا(کورونا) وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔

دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شدت پسند پرانی ویڈیوز استعمال کرتے ہوئے دعوے کر رہے ہیں کہ مساجد اب بھی کھلی ہیں، جس کے بعد پولیس کو کئی شکایات موصول ہوئی ہیں۔

بدزبانی پر مبنی ان آن لائن پوسٹس میں مساجد منہدم کرنے کو کرونا وائرس کا 'علاج' قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان خواتین کو بھی ممکنہ طور پر نفرت پر مبنی جرائم کا سامنا ہے۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت روکنے کے حوالے سے کام کرنے والے سرکاری گروپ اے ایم ایچ ڈبلیو جی کی رپورٹ میں، جو دی انڈپینڈنٹ کو منظر عام پر آنے سے قبل موصول ہوئی ہے، خبردار کیا گیا ہے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

رپورٹ کے مصنف اور برمنگھم سٹی یونیورسٹی میں کریمنولوجی کے پروفیسر عمران اعوان کا کہنا ہے کہ 'کووڈ۔ 19 کے بحران کو مسلمانوں کے 'غیر' ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور انہیں وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

' آن لائن جعلی خبریں پھیلنے کی وجہ سے اس پریشان کن رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔

'ہم نے ابھی تک اس کو عملی جرائم میں بدلتے نہیں دیکھا لیکن جیسے ہی سماجی دوری کے اصول کا خاتمہ ہو گا ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔'

حال ہی میں ایک واقعے میں ایک مسلمان باحجاب اور ماسک پہنی خاتون نے ایک شخص کو اپنے ساتھی کو سپر مارکیٹ میں ان کی جانب اشارہ کر کے کہتے سنا 'وہ دیکھو، ایک بم'۔

میٹروپولیٹن پولیس کو رپورٹ کیے جانے والے ایک اور واقعے میں ایک مسلمان خاتون نے بتایا کہ ایک شخص نے ان کے چہرے پر کھانستے ہوئے کہا کہ اسے کرونا وائرس ہے۔

اے ایم ایچ ڈبلیو جی  سے وابستہ روشانہ خان ولیمز بھی اس رپورٹ کی مصنفہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف پھیلائے جانے والے سازشی نظریے 'عام فہم' ہیں۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اس ریسرچ کے دوران انہوں نے کئی افراد کو دیکھا جو اسلام مخالف نہیں تھے لیکن 'وہ جعلی خبروں کو دیکھ کر ان پر یقین کر رہے تھے۔'

'ان خبروں نے کافی توجہ حاصل کی، جس کی وجہ سے یہ زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو عام طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں لیکن انہیں زیادہ حمایت مل رہی ہے۔

'وہ جو چاہتے تھے اس میں انہیں کامیابی ہوئی کیونکہ لوگ پریشان ہیں اور اس کا الزام مسلمانوں پر لگایا جا رہا ہے۔'

فیس بک، ٹوئٹر، ٹیلی گرام اور وٹس ایپ گروپس میں موجود پوسٹس کا جائزہ لینے کے بعد اس رپورٹ نے ان نظریات کی نشاندہی کی، جن میں دعویٰ ہے کہ مسلمان اور مساجد کرونا وائرس پھیلا رہے ہیں، پولیس مسلمانوں کو ترجیح دے رہی ہے اور یہ کہ برطانوی مسلمان ملک میں ہونے والی ایک چوتھائی ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں۔'

رپورٹ کے مطابق 'مسلمانوں سے نفرت پر مبنی آن لائن نظریات اس وبا کے دوران بہت تیزی سے پھیلتے ہوئے ایک سماجی حیثیت اختیار کر رہے ہیں۔

'اس نئی سماجی حیثیت میں مسلمان اور اسلام اس وبا کے پھیلاؤ سے براہ راست جوڑے جا رہے ہیں جو کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کے ان شدت پسند نظریات کے مطابق ہے، جن میں مسلمانوں کو غیر ملکی، اجنبی اور بیماری قرار دیا جاتا ہے۔'

کیٹی ہوپکنز، ٹامی رابنسن اور یو کے آئی پی کے سابق رہنما جیرارڈ بیٹن ایسے افراد میں شامل ہیں جو مسلمانوں کو اس وبا کا ذمہ دار قرار دینے کی پوسٹس شیئر کر رہے ہیں۔

رابنسن نے، جن کا اصلی نام سٹیفن یاکسلے لینون ہے،  ایک پرانی ویڈیو شیئر کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران مسلمان برمنگھم کی ایک مسجد سے نکل رہے ہیں۔

اس ویڈیو کے بعد ویسٹ مڈلینڈز پولیس کو بہت سی شکایات موصول ہوئیں جس پر انہوں نے تحقیق کی۔ پولیس نے 30 مارچ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ 'گو ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ یہ ویڈیو سمال ہیتھ علاقے کی ہے لیکن ہم اس بات پر مطمئن ہیں کہ یہ مسجد بند ہے۔'

پولیس کے بیان کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران اس مسجد کو نہیں کھولا گیا اور لاک ڈاؤن پر عمل کیا جا رہا ہے۔

یہ اس حوالے سے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں کی ایک کڑی تھی، جس میں ایسے ہی جھوٹے دعوے لندن، لیڈز اور شریوزبری کی مساجد کے حوالے سے بھی کیے گئے۔

اے ایم ایچ ڈبلیو جی کی رپورٹ میں کئی پوسٹس کو شامل کیا گیا ہے، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ پولیس ایسی خلاف ورزیوں کو 'نظرانداز' کر رہی ہے اور ان 'بے بنیاد نظریات کو پھیلایا جا رہا ہے جن کے مطابق اقلیتیں خاص طور پر مسلمانوں کو پولیس ترجیح دے رہی ہے۔'

رپورٹ کے مصنفین پریشان ہیں کہ ایسے واقعات ماہ رمضان کے دوران دوبارہ دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔ رمضان کا مہینہ اگلے ہفتے سے شروع ہو رہا ہے، جس میں روایتی طور پر مسلمان اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے گھر عبادت اور کھانے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔

اسلام کے حوالے سے میڈیا رپورٹنگ کی نگرانی کرنے والے ادارے سینٹر فار میڈیا مانیٹرنگ نے گذشتہ ہفتے کئی نیوز آرٹیکلز کے حوالے سے شکایت کی تھی، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 'ماہرین رمضان کے دوران سماجی تقریبات کی وجہ سے کووڈ۔ 19 کے کیسز میں اضافے پر پریشان ہیں۔'

مسلم کونسل آف بریٹن نے ان خبروں کو 'بے بنیاد اور خطرناک' قرار دیا تھا۔ کونسل کی جانب سے رمضان کے دوران گھر پر اور آن لائن عبادات کرنے کی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں۔

کونسل کے مطابق برطانیہ میں وزیر اعظم بورس جانسن کے لاک ڈاؤن کے اعلان سے پہلے ہی 375 مساجد میں عبادت معطل کر دی گئی تھی جب کہ باقی مساجد بھی حکومت کی پابندیوں پر عمل کر رہی ہیں۔

اس سے قبل کونسل نے ایک پیغام بھی جاری کیا تھا جس کے مطابق وبا کی وجہ سے جمعے کی نماز باجماعت پڑھنے کی لازم شرط کو ختم کر دیا گیا ہے۔

برطانیہ میں ابھی تک کرونا وائرس سے جڑے نفرت انگیز جرائم سے متاثر ہونے والے افراد کی اکثریت کا تعلق چینی اور جنوب مشرقی ایشیائی افراد سے ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ چین سے وائرس کے بیرون ملک تیزی سے پھیلنے کے بعد 'مقامی' جرائم میں جو سست روی دیکھنے میں آئی تھی اب اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی ریپوٹور برائے مذہبی آزادی کی جانب سے جمعے کو جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ وبا کے دوران اینٹی سیمیٹک نفرت انگیزی میں بھی 'خطرناک حد تک اضافہ' دیکھنے میں آیا ہے۔

احمد شہید کا کہنا ہے کہ اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ 'یہودیوں اور باقی اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا سکے۔'

 ایسے سازشی نظریات بھی پھیلائے جا رہے ہیں جن کے مطابق کرونا کی تخلیق اور پھیلاؤ کا ذمہ دار یہودیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ