اعلیٰ تعلیم صرف 29 ارب روپے کی حقدار؟

ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا اعلیٰ تعلیم کا نظام کیوں عالمی معیار کے سائنسدان یا دانشور پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہم عبدالسلام کے بعد کیوں ان کے پائے کا سائنسدان نہ پیدا کرسکے۔

اسلام آباد میں گذشتہ برس نومبر میں طلبہ احتجاج کے دوران بھی ان مسائل کو اٹھایا گیا (اے ایف پی)

جس طرح صحت، بنیادی تعلیم اور دیگر سماجی بہبود کے شعبوں میں ہم انحطاط کا شکار ہیں، اسی طرح اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی آہستہ آہستہ تنزلی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔

ہم نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری سے ہاتھ اٹھا لیا ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم کی دانش گاہوں نے بھی اپنے فرائض کی ادائیگی کو پس پشت ڈالتے ہوئے دانش (نالج) کے شعبے میں ترقی کے سفر کو تقریباً روک ہی دیا ہے۔

بین الاقوامی دانش گاہوں (یونیورسٹیوں) کی درجہ بندی میں آپ کو خال خال ہی کوئی پاکستانی دانش گاہ نظر آتی ہے۔ حالیہ کیو ایس (QS) کی 500 بین الاقوامی دانش گاہوں کی درجہ بندی میں صرف دو پاکستانی یونیورسٹیاں 175 اور بعد کی جگہ پر اپنا مقام تلاش کر سکی ہیں۔ ایک ہزار دانش گاہوں کی درجہ بندی میں صرف سات دانش گاہیں اپنی جگہ بنا سکیں۔

ہماری ان دانش گاہوں کی فیکلٹی کے حوالہ جات (Citations) کی اوسط 29 فیصد تھی جبکہ بھارت اور چین کی فیکلٹی کے حوالہ جات کی اوسط بالترتیب 54 اور 80 فیصد تھی۔ سوشل سائنسز میں تو 500 دانش گاہوں کی درجہ بندی میں ایک پاکستانی یونیورسٹی بھی جگہ نہ بنا سکی، اسی لیے علم و فضل کی دنیا میں ہم اقبال احمد کے بعد کوئی عالمی سطح کا نام پیدا نہیں کر سکے ہیں۔

ہماری دانش گاہوں کی اس تعلیمی پستی کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یونیسکو کے شماریات کے مطابق پچھلے 10 سالوں میں بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانیوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے جو 31 سے بڑھ کر 55 ہزار تک پہنچ گیا ہے۔

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے ویزا کی درخواست تقریباً چھ لاکھ پاکستانی طلبہ دیتے ہیں۔ بھارت سے بھی تقریباً تین لاکھ تیس ہزار طلبہ ہر سال بیرون ملک جاتے ہیں مگر یہ ہماری تین فیصد اوسط کے مقابلے میں صرف ایک فیصد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی طالب علموں کے مقابلے میں اوسطاً زیادہ پاکستانی تعلیمی قابلیت کو بڑھانے کے لیے بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں طالب علموں کی دانش گاہوں میں آبادی کے مطابق اندراج کی شرح تقریباً 5.4 فیصد کے قریب ہے جبکہ بھارت میں یہ 11 فیصد اور ملائیشیا میں 32 فیصد ہے۔

ہماری دانش گاہوں کی اس غیرتسلی بخش کارکردگی کی کئی وجوہات ہیں۔ بعض ماہرینِ تعلیم کی نظر میں نامناسب وسائل کی دستیابی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہماری تمام حکومتیں محصولات کی کمی اور غیر متناسب دفاعی اخراجات کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں مناسب سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

موجودہ حکومت نے بھی انتخابی مہم کے دوران سماجی شعبوں میں زیادہ سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کے پچھلے بجٹ میں یہ وعدہ صرف وعدہ ہی رہا۔ ستم بالائے ستم اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں پچھلے سال کے بجٹ کے مقابلے میں میں 37 فیصد کمی کرتے ہوئے 46 کے مقابلے میں 29 ارب روپے مختص کیے گئے جبکہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) نے 56 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا۔

روپے کی قدر میں کمی نے اس مختص رقم میں مزید کمی کر دی اور امریکی ڈالر کی شرح کے مطابق بجٹ میں تقریباً 50 فیصد کمی کی گئی جس کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانی طلبہ جو حکومتی سکالرشپ پر پڑھ رہے تھے، انہیں رقم میں کٹوتی سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے علاوہ کئی منصوبے، جن میں مسلسل زرمبادلہ کی ضرورت تھی، انہیں مکمل طور پر بند کر دیا گیا یا ان پر کام روک دیا گیا۔ اس بےرحم کٹوتی نے بہت سارے تحقیقی منصوبوں کو بھی یا تو مکمل طور پر بند کر دیا یا تحقیق کا سفر سست کر دیا گیا۔ سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ سے ایچ ای سی کی تمام دانش گاہوں کی تعلیم کی سہولتوں اور فیکلٹی کی اہلیت پر نظر رکھنے کی صلاحیت کو بھی بری طرح متاثر کیا۔

حکومت نے اس سے پچھلے مالیاتی سال میں بھی ایچ ای سی کے لیے مختص رقم کا 50 فیصد حصہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں پچھلی حکومت نے 2013 میں اس شعبے میں سرمایہ کاری 18 ارب روپے سے شروع کی جو 2018 میں 155 فیصد بڑھ کر 46 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ اس لیے موجودہ حکومت کی اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کمی کرنے کی کوئی واضح اور منطقی وجہ نظر نہیں آئی۔

کیا ہمارے 40,000 ارب روپے کے سالانہ محصولات میں سے اعلیٰ تعلیم صرف 29 ارب روپے کی حقدار ہے؟ اعلیٰ تعلیم سے اس طرح کی ظالمانہ بے توجہی یقیناً ہمارے قومی ترقی کے سفر کو مزید مشکل میں ڈال رہی ہے۔

پچھلے 20 سالوں میں اعلیٰ تعلیم کے معیار میں واضح پستی دیکھنے میں آئی ہے۔ گو اس عرصے میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے مواقع میں آبادی کے لحاظ سے 2.5 سے 5.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے لیکن یہ اضافہ حکومتی سرمایہ کاری سے کم اور نجی شعبے کی کثیر سرمایہ کاری سے ہوا ہے۔

افسوس کہ اس اضافے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے معیار میں بہتری کی بجائے واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہماری دانش گاہوں کے تقریباً 22 ہزار اساتذہ میں سے صرف 4,600 کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے جس سے ظاہر ہے کہ تقریباً 70 فیصد اساتذہ کم تعلیمی اہلیت کے حامل ہیں اور یہ اہلیت یقیناً طلبہ کی تعلیمی استعداد پر اثر انداز ہوتی ہے۔

ہمارے اعلیٰ تعلیم کے مسائل گھمبیر ہیں۔ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا اعلیٰ تعلیم کا نظام کیوں عالمی معیار کے سائنسدان یا دانشور پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہم عبدالسلام کے بعد کیوں ان کے پائے کا سائنسدان نہ پیدا کرسکے۔ سوشل سائنسز میں تو ہم کہیں بھی کھڑے نظر نہیں آتے۔ یہ گھمبیر صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہمیں اعلیٰ تعلیم کا معیار بلند کرنے کے لیے مندرجہ ذیل فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

جدید نظام تعلیم اور سوچ کو ترقی دینے میں تنقیدی سوچ کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم قدامت پسندی پر مبنی رہا ہے اور اس میں ہماری سماجی و ثقافتی قدروں نے اہم کردار ادا کیا ہے جو ہمیں سوال اور علمی تنقید کرنے سے منع کرتی ہیں اور اطاعت پر زور دیتی ہیں۔

قومی نظریہ، مذہب اور سکیورٹی کی آڑ لیتے ہوئے آزادانہ سوچ اور اظہار رائے پر پابندیاں سوچنے اور سمجھنے والے ذہن پیدا نہیں کرسکتیں۔ ہماری تعلیمی ترقی کے لیے اس سوچ کو بدلنا ضروری ہے اور یہ تبدیلی سکول کی سطح سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمیں بہتر تعلیمی منصوبہ بندی کرتے ہوئے وسائل کے خرچ میں ترجیحات پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔

ہمارے 11 لاکھ کے قریب طالب علم کالجوں میں پڑھتے ہیں اور دانش گاہوں کے مقابلے میں ہم کالج طالب علموں پر ایچ ای سی کے بجٹ کا صرف 16 فیصد خرچ کرتے ہیں۔ اسی لیے سرکاری کالجز برے حال میں ہیں۔ ان کی عمارتیں اور فرنیچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ان کی لیبارٹری اور لائبریری صرف نام کی موجود ہیں۔

چونکہ تعلیمی معیار کو بہتر کرنے میں اساتذہ کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے تو اساتذہ کے انتخاب کے طریقہ کار میں بہتری اور شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت کے لیے اداروں کا قیام بھی ضروری ہے جن میں تربیت دینے کے اعلیٰ ملکی اور غیرملکی ماہرین شامل ہونے چاہییں۔ یہ طریقہ کار کافی مہنگا ہوگا لیکن اس کے تعلیمی فوائد بےشمار ہوں گے۔

یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لیے قومی پیمانے پر امتحان ہونے چاہییں۔ اس سے صرف ان طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم دی جا سکے گی جو اس سے فائدہ مند ہو سکیں اور یہی طریقہ کار اساتذہ کے انتخاب کے سلسلے میں ہونا چاہیے۔

پاکستان میں اساتذہ میں تعلیمی جرائم بڑھتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کے بارے میں کوئی سزا و جزا کا نظام نہیں ہے۔ اس طرح کے جرائم سے سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

دانش گاہوں کے سربراہوں کے انتخاب میں عموماً اقربا پروری اور سفارش سے کام لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سے نااہل اور نامناسب لوگوں کو علم و دانش کے گہواروں کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس انتخابی نظام میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر بیرونی ممالک سے اہل فیکلٹی ممبران کو بھرتی کرنے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ