’ کرونا ختم ہوگا تو چڑیا گھر جائیں گے‘: لاک ڈاؤن میں بچے کیا کریں

ماہرین نفسیات کے مطابق یہ ایک مشکل وقت ہے جس میں والدین کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی کہ وہ کرونا وائرس کے حوالے سے آگاہی دیتے ہوئے بچوں سے سچ اور درست بات کریں اور انہیں خوفزدہ نہ ہونے دیں۔

اسلام آباد کے نواح میں واقع ایک گھر میں ایک خاتون گھر میں بچوں کے لیے روٹی پکارہی  ہیں جبکہ بچے گھر میں کھیل رہے ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)

آج کل دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی ہر طرف کرونا (کورونا) وائرس اور لاک ڈاؤن سے متعلق خبریں چھائی ہوئی ہیں۔ ہر طرف غیر یقینی اور خوف کا ماحول ہے۔ گھروں میں بھی اکثر و بیشتر اس حوالے سے بات ہو رہی ہوتی ہے۔ جب گھر کے بڑے اس صوت حال سے پریشان ہوں گے تو گھروں میں بند بچوں کا کیا حال ہوگا؟

نسبتاً بڑے بچوں کو سمجھانا آسان بھی ہے اور انہیں مصروف بھی رکھا جاسکتا ہے، لیکن چھوٹے بچوں کو ڈیل کرنا بعض اوقات کافی مشکل ہوجاتا ہے۔

 موجودہ ماحول میں بچوں  کو ذہنی الجھنوں سے نکالنے کے لیے ہم نے کچھ بچوں، والدین اور ماہر نفسیات سے بات کی ہے اور کچھ آسان باتیں اور سرگرمیاں سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

اجیہ اور ارفعہ کراچی میں رہتی ہیں اور ان دنوں لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر میں ہی موجود ہیں۔

میں نے ان ننھی بہنوں سے ان کے معمولات اور کرونا وائرس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی کہ ان کے خیال میں یہ وائرس کیا ہے اور وہ لاک ڈاؤن میں کیسا محسوس کر رہی ہیں۔

اجیہ: کرونا جرمز (جراثیم) ہے۔ یہ گندہ ہے۔ لال رنگ کا ہے۔ یہ کاٹ لیتا ہے۔

ارفعہ: ہمیں بہت مزہ آرہا ہے۔ ہم سکول نہیں جارہے، مولوی صاحب بھی نہیں آ رہے، ہم گھر میں ہی پڑھ رہے ہیں۔ ہمارے گھر مہمان بھی نہیں آرہے۔ ہم  سب چیزوں کی ڈیٹول سے صفائی کرتے ہیں۔ فرش، دیواریں، میز، کرسی، الماری سب جگہ صاف کر تے ہیں۔ جھولا بھی ڈالا ہے۔ ہم چھت پر جاتے ہیں اور جب کرونا ختم ہو جائے گا تو زو (چڑیا گھر) جائیں گے اور پورا گھر سی ویو بھی جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاک ڈاؤن کے دوران گھر میں موجود ان بچیوں نے تو اپنے دل کی بات بتا دی، لیکن ہم نے ان کے والد شعیب حسان سے بھی بات کی اور پوچھا کہ وہ اور بچے گھر پر کیسے وقت گزار رہے ہیں؟

شعیب نے بتایا کہ پہلے وہ خود تناؤ میں تھے، لیکن اب پرسکون ہیں۔ 'ہمارا  گھر بہت بڑا نہیں ہے، لیکن چونکہ لاک ڈاؤن ہے، لہذا بچیوں کے لیے گھر میں ہی مصروفیت ڈھونڈنی تھی۔ انہیں چند گھنٹے پڑھنے کے ساتھ کھیل کود بھی چاہیے۔ آپ نے میری بیٹیوں کی باتیں سنیں۔ وہ خوف زدہ نہیں ہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ بچے اس صورت حال میں ڈریں نہیں بلکہ اس میں بھی کچھ نیا سیکھیں۔ سب سے اچھا کام یہ لگا کہ ہم بچوں کو پرانی اردو کی کہانی 'باغ و بہار' سنا رہے ہیں۔ مجھے میری پھوپھی نے یہ کتاب پڑھائی تھی لیکن اب  پتہ چلا کہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔'

شعیب کا مزید کہنا تھا: 'بحثیت والد مجھے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ ہمیں حوصلے اور برداشت سے بچوں کی بات سننا پڑ رہی ہے۔ ہمارے گھر میں کئی سالوں بعد لڈو، کسوٹی اور 'نام چیز جگہ' بلکہ 'چور سپاہی' جیسے کھیل بھی کھیلے جارہے ہیں۔ شام میں چائے کے ساتھ بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ بنایا جارہا ہے، جیسے پاپ کارن، چپس اور کبھی پاپڑ۔ شام کی چائے گھر کی کھلی چھت پر پی جارہی ہے، کیونکہ بچوں کو مصروف، سرگرم اور متحرک رکھنا ضروری ہے۔'

بقول شعیب: 'ہمارے گھر میں شروع کے پہلے ہفتے کچھ پارٹی کا سا ماحول رہا، لیکن اب ہم نے سادہ کھانے بنانے شروع کر دیے ہیں اور بچوں کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ کئی گھروں میں کھانا نہیں پک رہا، باہر کے کیا حالات ہیں اور خاص طور پر ہر چیز ہر وقت نہیں مل سکتی۔'

ماہرین نفسیات کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر وامق علی آغا خان ہسپتال کے شعبہ نفسیات سے منسلک ہیں اور بچوں اور نو عمر بچوں کے نفسیاتی مسائل پر کام کرتے ہیں۔

کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے پیدا شدہ صورت حال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشکل وقت ہے جس میں ہم سب ہی اپنے پیاروں کے لیے فکرمند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ والدین کی ذمہ داری بڑھ گئی کہ کووڈ-19 کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے بچوں سے سچ اور درست بات کریں اور اسی حوالے سے انہوں نے چند بنیادی باتوں کا ذکر کیا۔

1۔ پرسکون رہیں اور بچوں کی باتیں غور سے سنیں۔ انہیں یہ نہ لگے کہ آپ ان کی بچکانہ باتوں پر توجہ نہیں دے رہے۔ بچوں کا مشاہدہ  تیز ہوتا ہے اور وہ یہ بھی دیکھیں گے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں اس پر خود کتنا عمل کر رہے ہیں۔

2۔ بچوں کو سادہ، آسان اور ان کی عمر کے مطابق اس وبائی مرض سے آگاہی دیں۔ اس کے لیے آپ کہانیوں کی مدد لے سکتے ہیں، لیکن یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر چلنے والی بہت سی باتیں درست نہیں۔

3۔ بچے ٹی وی پر کیا دیکھ رہے ہیں اور کتنا وقت صرف کر رہے ہیں، اس کا خیال رکھنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے، بلکہ لاک ڈاؤن کے دوران سب گھر والوں کا سکرین ٹائم کم ہونا چاہیے کیونکہ اس پریشان کن صورت حال میں بہت زیادہ معلومات ذہنی دباؤ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔

4۔ بچوں کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ہم باہر کیوں نہیں جا رہے؟ بیماری کیوں اور کیسے پھیل رہی ہے؟ اور اس کے لیے ہم کیا کیا کرسکتے ہیں۔

5۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی بتائیں کہ گھر کا سادہ اور تازہ کھانا کیوں ضروری ہے اور باہر سے کھانے کی چیزیں کیوں نہیں منگوائی جارہیں۔ پانی زیادہ پیئیں اور بچوں کو بھی پلائیں۔

6۔ بچوں کو لاک ڈاؤن  کے دوران متحرک اور چست رکھنا بھی ضروری ہے۔ ان کے اوقات کار کو طے کر دیں، جیسے کب پڑھنا ہے اور کب سونا۔ اس میں جہاں تک ممکن ہو سختی کی جاسکتی ہے تاکہ بچے بہتر انداز میں ان اوقات کو گزاریں۔ ساتھ ہی ان کے ساتھ مل کر مختلف کھیل کھیلیں، انہیں وقت دیں۔

اس تناؤ بھرے ماحول میں کیا اچھا ہو سکتا ہے؟

حرا تضمین ماہر نفسیات ہیں اور نئی عادتیں سکھانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’ہم ایک لمبے عرصے کے لیے گھروں میں بند ہیں۔ یقیناً یہ کوئی اچھی خبر نہیں، لیکن اس مشکل ترین دور کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں سب گھر والے ساتھ ہیں اور اس مشکل  وقت میں بہتر انداز فکر اپنانا پورے گھر کی  ضرورت ہے۔‘

اس حوالے سے ان کی تجاویز کچھ یہ ہیں:

1۔ بڑے سب سے پہلے اپنے لہجے اور انداز گفتگو بدلیں۔ ذہنی الجھن اور تناؤ کے اس ماحول میں کسی پر بھی حکمیہ انداز نہ اپنائیں۔ اونچی آواز میں کسی سے بات نہ کریں اور یہ بات بچوں کو بھی سکھائیں۔ نرمی سے کہی گئی بات ہمیشہ یاد رہتی ہے۔

2۔ والدین بچوں کو کتب بینی کی طرف راغب کریں۔ یہ سب سے اچھا موقع ہے جب والدین کے پاس زیادہ وقت ہے۔ بچوں کو اچھی باتیں بتائیں۔ کورس کی کتابوں سے ہٹ کر بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت بڑھائی جا سکتی ہے۔ ان کو چند کتابیں دے کر ان پر بات کی جاسکتی ہے۔ کوئی چھوٹا سا کوئز مقابلہ رکھا جاسکتا ہے اور کوئی چھوٹا سا انعام بھی دیا جاسکتا ہے۔

3۔ بچوں کو تخلیقی کام جیسے  پینٹنگ یا ڈرائنگ سکھائی جاسکتی ہے۔ اگر گھر میں کسی کو یہ آرٹ نہیں آتا تو انٹرنیٹ پر موجود ویڈیو سے مدد لی جاسکتی ہے۔ خود بھی سیکھیں اور بچوں کو بھی سکھائیں۔

4۔ خبروں سے آگاہی ضروری ہے لیکن بڑوں کو ان خبروں کو خود پر طاری نہیں ہونے دینا اور نہ ہی اپنی گھبراہٹ بچوں پر ظاہر کرنی ہے۔ اگر کوئی فکر مندی کی بات ہے بھی تو انہیں بٹھا کر ساری بات بتائیں۔

5۔ خود کو اور بچوں کو مشکل حالات میں پرسکون رہنا سکھائیں۔ چاروں طرف خوف کا ماحول ہے اور اس سے بھی ہماری قوت مدافعت کمزور پڑتی ہے، اس لیے ماحول کو بہتر کرنے کے لیے اچھی باتیں کریں۔ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پرانی تصاویر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔

6۔ مشکل اوقات میں مذہب، ایمان اور یقین کی طاقت کام آتی ہے۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں، چیزیں بہتر ہوں گی اور خوف اور پریشانی کا یہ دور بھی گزر جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل