’وہ ہمیں قتل کرسکتا ہے‘: مشرق وسطیٰ میں بڑھتا گھریلو تشدد

گھریلو تشدد کے متاثرین کے لیے کام کرنے والے ابعاد نامی لبنانی گروپ کے مطابق 2019 کے اسی دورانیے کے مقابلے میں اس سال اس کی ہیلپ لائنوں پر آنے والی کالز میں 60 فیصد ہو گیا ہے۔

7 دسمبر کی اس تصویر میں بیروت میں ریپ،  ہراسانی اور گھریلو تشدد کے خلاف ایک مظاہرے میں شامل لبنانی خاتون (اے ایف پی فوٹو/ابعاد/پیٹرک باز)

اس قدر ذاتی، مالی اور بےیقینی کی عالمی فضا کے پس منظر میں گھر کے اندر بند ہونا وحشیانہ نفسیاتی میراتھون کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس صورت حال پر غور کریں کہ جب آپ  ایک چھوٹے سے گھر میں خطِ غربت سے نیچے رہتے یا اس کے نیچے جاتے ہوئے ایک ایسے شخص کے ساتھ بند ہوں جو بدسلوکی کا مظاہرہ کرتا ہو؟

اُس گھر میں جہاں آپ سر پر چھت قائم رکھنے اور خوراک میز پر رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہوں۔ جہاں آپ سے بدسلوکی  کرنے والا اپنا غصہ آپ پر نکالتا ہو؟

دنیا بھر میں حکومتوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے گھریلو تشدد میں اضافہ نوٹ کیا ہے جو ناقابل یقین حد زیادہ پریشان کن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو گھر کے اندر رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے چاہے ان کے خاندان میں کوئی کیسا بھی ہو۔

اس ضمن میں مشرق وسطیٰ کا معاملہ مختلف نہیں ہے۔ لیکن وہاں بدسلوکی کو مالی اور سیاسی بحران زیادہ سنگین بنا سکتا ہے۔ اس بحران نے کرونا (کورونا) وائرس کی آمد سے پہلے ہی علاقے میں تباہی مچا رکھی ہے۔ وائرس نے لوگوں پر دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔

کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے کئی لاک ڈاؤن برطانیہ کے لاک ڈاؤن سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ گھر سے نکل کر کچھ کرنے کی اجازت تک نہیں دی گئی اور اس طرح سکون کا سرے سے کوئی موقع نہیں ملا۔ تیونس میں جہاں حکومت نے لوگوں کے سپرمارکیٹوں تک جانے پر فوری پابندی لگا دی، حکام کہتے ہیں کہ گھریلو تشدد میں پانچ گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

اردن میں جہاں اسی قسم کی سخت پابندیاں لگائی گئیں، ایک پریشان حال خاتون کی ویڈیو جس میں وہ قرنطینہ (آئیسولیشن) کے دوران اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے بارے میں بتا رہی ہیں، آن لائن بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی ہے۔

لبنان میں بھی گھر سے نکل کر کچھ کرنے پرپابندی عائد ہے۔ رات کے وقت اور ہفتے کے اختتام پر کرفیو لگا دیا جاتا ہے، حکومت کی جانب سے گھریلو تشدد کی اطلاع کے لیے قائم کی گئی ہاٹ لائن پر کالز کی تعداد دُگنی ہو گئی ہے۔

حقوق کا ابعاد نامی لبنانی گروپ جو گھریلو تشدد کے متاثرین کے لیے پناہ گاہ بھی چلاتا ہے، کے علم میں اور بھی سنگین رجحان آیا ہے۔ گروپ نے بتایا ہے کہ 2019 کے اسی دورانیے کے مقابلے میں اس سال اس کی ہیلپ لائنوں پر آنے والی کالز میں 60 فیصد ہو گیا ہے۔ 2019 میں پورا سال جتنی کالز موصول ہوئیں ان کے مقابلے میں اس سال جنوری سے اب تک پانچ سو زیادہ  کالز وصول کی گئیں جن میں سے زیادہ تر خواتین کی تھیں۔

ابعاد کی بانی اور تنظیم کی ڈائریکٹر غیدہ عنانی نے مجھے بتایا: 'ہم دیکھ رہے کہ نہ صرف (کالز) کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے بلکہ تشدد اور قتل کی دھمکیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ ان حالات میں بہت سے لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

'حکومت کی جانب سے سنجیدہ امداد میں کمی، جیسا کہ مالی معاونت، کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ ایسے لوگ جن کے مزاج میں ہر قسم کے دباؤ کی صورت میں تشدد شامل ہے وہ اس کا مظاہرہ اپنے خاندانوں پر کر رہے ہیں۔

'زیادہ تر خواتین جو مدد کے  لیے ہمیں کال کرتی ہیں یہ کہتی ہیں کہ 'ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ وہ مجھے اور بچوں کو قتل کر سکتا ہے کیونکہ ہمارے پاس گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔'

وہ کہتی ہیں کہ 'ان کی کچھ مدد ہوجائے تو اس تشدد میں کچھ کمی آ سکتی ہے۔'

جمعرات کو حقوق کے اس گروپ نے پورے ملک میں لوگوں سے کہا کہ وہ شام چھ بجے اپنی بالکونیوں پر آئیں تا کہ 'لاک ڈاؤن، ناٹ لاک اپ' کے ہیش ٹیگ کے ساتھ متاثرین کے لیے گروپ کا ہاٹ لائن نمبر شیئر کیا جا سکے۔

یہ گروپ متاثرہ افراد اور تشدد کا رجحان رکھنے والے مرد حضرات کے لیے ویڈیو کالنگ ایپ سکائپ کے ذریعے مشورے کے سیشن کا اہتمام کرتا ہے تا کہ بدسلوکی کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔

ابعاد لوگوں کی مزید مدد کے لیے گھریلو استعمال کی اشیا پر مشتمل کٹس، امدادی پمفلٹ اور ہیلپ لائن کے نمبر تقسیم کرنے کے حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

اس وقت ایسی کمزور خواتین، بچوں، معمر یا خصوصی ضروریات والے افراد تک پہنچنے کے طریقے تلاش کرنا مشکل ہے جن کی ٹیلی فون تک رسائی نہیں ہے۔ ابعاد اپنا امدادی نیٹ ورک سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر بھی پھیلا رہا ہے۔

عنانی نے مزید کہا: 'اگرحکومت غربت کا شکار افراد کی مدد کے لیے ان تک جلد پہنچنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کرتی تو اُس صورت میں ہم دیکھیں گے کہ صورت حال زیادہ پرتشدد ہو جائے گی اور خود کشی کے واقعات بڑھ جائیں گے۔ اس وقت ہنگامی حالات ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے عالمی بینک نے پیش گوئی کی تھی کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بدعنوانی کے خلاف انقلاب کے بعد اس سال لبنان کی 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے رہے گی۔

ماہرین نے مجھے بتایا ہے کہ اب ملک کی معیشت 'پیراشوٹ کے بغیر تیزی سے نیچے کی طرف جا رہی ہے۔' اور اس بات کا غالب امکان ہے کہ 60 لاکھ سے زیادہ یعنی ملک کی آدھی آبادی 2020 میں خط غربت سے نیچے ہو گی۔

خوراک کے اخراجات بڑھ رہے ہیں جب کہ متوازی مارکیٹ کے مقابلے میں کرنسی کی قیمت آدھی رہ گئی ہے۔ دریں اثنا بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے بینکوں نے ڈالر تک رسائی روک دی ہے جس سے مسائل مزید بڑھے ہیں۔ حکومت نے غریب ترین خاندانوں کے لیے مالی امداد کے پیکیج کا اعلان کیا ہے لیکن اس اعلان کو عملی شکل دینا باقی ہے۔

اور اس طرح تباہی کا شکار معیشت نے پہلےسے دباؤ کا سامنے کرنے والے خاندانوں پر اضافی دباؤ ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے گھریلو تشدد بڑھ سکتا ہے۔ اس سے سماجی بےچینی بھی بڑھی ہے۔ لاک ڈاؤن کے باوجود شمالی شہر ظرابلس میں مظاہرے اور جھڑپیں ہوئی ہیں جہاں لوگوں نے کہا کہ ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

ایک اور کمزور طبقہ جس کے بارے میں حقوق کے گروپ پریشان ہیں وہ لبنان میں مہاجرین کی بڑی آبادی ہے۔ اس بات کی تشویش ہے کہ اُن کیمپوں میں گھریلو تشدد میں اضافہ ہو گا جہاں پورے کے پورے خاندان ایک ہی خیمے یا قریبی گنجان آباد علاقے میں رہ رہے جہاں لاک ڈاؤن حتیٰ کہ کرفیو کی پابندیاں اور بھی سخت ہیں۔

لبنان کے عین الحلوہ مہاجر کیمپ میں مقیم ایک 30 سالہ فلسطینی مہاجر اور کمیونٹی لیڈر محمد حسن نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے ان خاندانوں میں لڑائی میں تشویش ناک اضافہ دیکھا ہے جنہیں خوراک کے لیے ہاتھ پیر مارنے پڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا قرنطینہ (آئیسولیشن) کی پابندی کا مطلب یہ بھی ہے کہ حقوق کے وہ گروپ جو لوگوں کو مشورے دیتے تھے اپنا کام نہیں کر سکیں گے جس سے صورت حال مزید بگڑے گی۔

انہوں نے مایوسی کے عالم میں کہا: 'آئیسولیشن کی وجہ سے ہر کوئی ایک ایک دن گزار رہا ہے۔ سبزیوں، گوشت اور بچوں کے لیے دودھ کی شدید قلت ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے پاس کام نہیں ہے۔

'ان حالات کے لوگوں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ خاندانوں کے درمیان مسائل پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ ہر وقت لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ میں گھریلو تشدد اور خاص طورپر بچوں کے معاملے میں بہت پریشان ہوں۔'

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین