جوائے آف اردو کے ساتھ گھر بیٹھے، کتابیں پڑھیے

اردو کے شائقین کے لیے 'جوائے آف اردو' اور 'گھر بیٹھیے، کتابیں پڑھیے' کی بانی زرمینہ انصاری سے خصوصی گفتگو۔

'ہم جیسے لوگ کہاں جائیں؟ آپ چاہیں تو ہمیں کہیں کہ یہ ممی ڈیڈی یا برگر فیملی وغیرہ کے بچے ہیں یا ہمیں اردو نہیں آتی مگر اس میں ہمارا کیا قصور؟ ہم تو پاکستان میں رہتے ہی نہیں، ہم کیسے سیکھیں؟ میں مشاعروں پر جاتی تھی تو لوگوں کا منہ تکتی رہتی تھی کیونکہ وہاں جو سناتے تھے وہ سمجھ نہیں آتا تھا، مطلب بھی پوچھ نہیں سکتے تھے۔'

یہ کہنا ہے زرمینہ انصاری کا جو پیشے کے اعتبار سے آرکیٹیکٹ ہیں مگر ساتھ ہی کلچرل ٹورزم کنسلٹنٹ اور لیکچرار بھی ہیں۔

چند روز قبل کسی دوست نے مجھے ایک فیس بک پیج کا لنک بھیجا جس کا نام 'جوائے آف اردو' تھا۔ اس پیج پر گئی تو دیکھا کہ وہ ایک ادبی قسم کا پیج تھا، جس پر 'گھر بیٹھیے، کتابیں پڑھیے' کے نام سے ایک مہم چل رہی تھی۔

اس مہم میں بہت سی ویڈیوز دیکھنے کو ملیں، جن میں کسی ادبی کتاب، شاعری کے مجموعے یا کسی اچھے شاعر کی غزل یا نظم وغیرہ کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے، پھر اس کا کچھ حصہ پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔

اس فیس بک پیج کو لائک کرنے والوں کی تعداد سات ہزار کے قریب تھی اور میں پہلی بار سماجی رابطے کی کسی سائٹ پر ایسا کچھ دیکھ رہی تھی، جہاں صرف ادب سے متعلق بات ہو رہی تھی اور اس میں ایسے لوگ بھی تھے جو میری طرح عام لوگ تھے۔

'جوائے آف اردو' اور 'گھر بیٹھیے، کتابیں پڑھیے' کی بانی زرمینہ انصاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'گھر بیٹھیے، کتابیں پڑھیے' مہم کا خیال اس طرح سے آیا کہ جب لاک ڈاؤن ہوا تو جوائے آف اردو کا دبئی میں پبلشنگ ہاؤس لانچ ہونے جارہا تھا اور اسی میں ہم نے اپنی پہلی کتاب کی رونمائی کرنی تھی مگر وہ ہم نے کرونا وائرس کے پیش نظر لاک ڈاؤن سے پہلے ہی ملتوی کردی تھی۔

'لاک ڈاؤن کا دورانیہ بڑھ گیا تو ہمیں شدید ذہنی اضطراب کا سامنا کرنا پڑا۔ بس دل کو ہلکا کرنے کے لیے ہم نے سوچا کہ اس ساری صورتحال کو ہم مثبت طریقے سے کیسے لے سکتے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'ہم ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ اتنا کچھ ہے پڑھنے کو مگر وقت نہیں ملتا تو سوچا اسی وقت کواستعمال کریں اور یہاں سے 'گھر بیٹھیے، کتابیں پڑھیے' مہم کا آغاز کردیا۔'

زرمینہ نے مزید بتایا کہ انہوں نے اپنے مشیروں، رضاکاروں اور ممبران کو لکھا کہ وہ ہمیں اپنی سفارشات بھیجیں کہ ہمیں گھر بیٹھ کرکیا پڑھنا چاہیے تاکہ وقت ضائع کرنے کی بجائے ہم کچھ سیکھ سکیں۔

'انہوں نے اپنی سفارشات بھیجیں کہ کون سی کتابیں پڑھیں یا وہ خود کیا پڑھ رہے ہیں جس کے بعد ایک دم سے لوگوں کو یہ آئیڈیا پسند آگیا۔'

اس مہم میں مختلف شعبوں اور مختلف ممالک کے لوگ اردو ادب سے کچھ پڑھتے دکھائی دیتے ہیں، یہاں تک کہ بھارت کی گلوکارہ امرتہ کاک جھنجھن والا بھی اس کا حصہ ہیں۔

انہوں نے چند روز قبل دہلی سے اپنی ایک ویڈیو بھیجی جس میں وہ فنا بلند شیر (حنیف محمد) کی شاعری 'میرے رشک قمر' خصوصاً اس مہم کے لیے گا رہی ہیں۔

زرمینہ نے بتایا کہ اس وقت بھی ان کے پاس 15 سے زیادہ ویڈیوز پڑی ہیں جنہیں ابھی انہوں نے اپنے پیج پر پوسٹ کرنا ہے جبکہ روزانہ انہیں دو سے پانچ ویڈیوز موصول ہوتی ہیں۔ 'یاسرہ رضوی، معظم علی خان، عاصمہ نبیل کے علاوہ اور بہت سے لوگ آپ کو اس پیج پر نظر آئیں گے۔'

زرمینہ کے خیال میں اس فیس بک مہم کا آئیڈیا کامیاب رہا۔ 'اس میں جو کچھ بھی آ رہا ہے اسے ایک ایڈیٹوریل بورڈ دیکھتا ہے۔ ہم کسی بھی تضاد میں نہیں پڑنا چاہتے، ہمارا کوئی سیاسی یا مذہبی مقصد نہیں۔

'ہم ایک غیرجانب دار تنظیم ہیں، کوئی ایسی چیز جس میں کسی قسم کی نسل پرستی، عدم برداشت یا بدتمیزی ہے اسے ہم شائع نہیں کریں گے۔'

جوائے آف اردو کن لوگوں کے لیے ہے؟

زرمینہ انصاری 15 برس کی تھیں تو سکالرشپ پر اعلی تعلیم کے سلسلے میں ملک سے باہر چلی گئیں اور تب سے یہ امریکہ، ماسکو، فرانس وغیرہ سمیت کئی ملکوں میں رہ چکی ہیں۔

امریکہ کے میسی چیوسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے تعلیم حاصل کرنے والی زرمینہ نےاردو کا مضمون او لیولز میں آسان اردو کے طور پر پڑھا۔

اس کے بعد ان کا اردو زبان سے تعلق ایک طرح سے ٹوٹ گیا اور انگریزی سمیت دیگر زبانوں سے جڑ گیا۔ سات برس پہلے انہیں شدت سے احساس ہوا کہ کہیں ان کا چار سالہ بیٹا اردو سے ناواقف نہ رہ جائے، جس کے بعد انہوں نے 2013 میں 'جوائے آف اردو' کی بنیاد رکھی۔

'ہماری تنظیم مکمل طور پر رضاکارانہ اور سیلف فنڈڈ ہے۔ ہمیں کوئی عطیہ نہیں دیتا۔ لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ اس کا نام جوائے آف اردو کیوں ہے، لطف اردو کیوں نہیں؟ تو میں انہیں بتاتی ہوں کہ یہ دو لسانی تنظیم ہے، ایک پبلشنگ ہاؤس ہونے کے طور پروہ کتابیں جو ہم شائع کرنے جارہے ہیں یا جن پر کام ہو رہا ہے وہ بھی دو لسانی ہیں۔

'وہ لوگ جو اردو اور اردو ادب سے واقف ہیں ان کے لیے تو بہت سی تنظیمیں ہیں لیکن ہم لوگ جو باہر رہتے ہیں ہمارے بچے بین الاقوامی سکولوں میں پڑھتے ہیں، وہ لوگ جو یہ سوچتے ہیں کہ انہیں اردو کیوں سمجھ نہیں آتی وہ بھی غزلیں سمجھنا چاہتے ہیں، شاعری سمجھنا چاہتے ہیں، اردو ادب پڑھنا چاہتے ہیں یا وہ لوگ جو زندگی کی بھاگ دوڑ میں اردو ادب سے دور چلے گئے ہیں۔

'ہمیں ایک محرومیت کا احساس ہوتا تھا کہ ہمیں کیوں نہیں پڑھایا گیا۔ اگر مجھے انگریزی، روسی، فرانسیسی ادب کے بارے میں معلوم ہے تو اردو ادب کے بارے میں کیوں نہیں؟ بہت سے مواقعے پر احساس ہوا کہ یہ غلطی ہو گئی، مگر یہ غلطی ہماری نہیں بلکہ سسٹم کی تھی ہم نے تو نہیں کہا تھا کہ ہمیں اردو ادب نہ پڑھائیں۔'

'جوائے آف اردو' کیا، کہاں اور کیسے کام کرتی ہے؟

زرمینہ نے بتایا کہ اس تنظیم کو بنانے کے لیے انسانی حقوق کی رکن سبین محمود نے ان کا بہت حوصلہ بڑھایا، جنہیں 24 اپریل، 2005 کو کراچی میں قتل کر دیا گیا تھا۔

زرمینہ کا کہنا ہے کہ سبین کے دنیا سے چلے جانے کے بعد انہوں نے جوائے آف اردو کوبہت سنجیدگی سے لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ان کی اس تنظیم کے تحت بیٹھکیں ہوتی ہیں اور اس تنظیم سے جڑے انگنت ممبران انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔

'ان بیٹھکوں میں ہونے والی سرگرمیوں کو ریکارڈ کرکے تنظیم کی سماجی رابطوں کی سائٹس جن میں فیس بک، یوٹیوب اور انسٹاگرام وغیرہ پر ڈال دیا جاتا ہے مگر اس کا مقصد صرف اپنا ایک ریکارڈ بنانا تھا۔'

زرمینہ نے بتایا کہ لاہور میں ڈاکٹرعارفہ سیدہ زہرہ اور جوائے آف اردو کا بہت برسوں کا ساتھ ہے۔

'اسی طرح قاسم جعفری اور بہت سے نامور دانش وروں اور اردو دانوں نے ہماری رہنمائی کی کیونکہ ہمیں تو کچھ آتا جاتا نہیں اور ہم یہ بات کھل کر کہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے۔

'اس لیے ہم نے اپنے ایڈوائزر بہت سوچ سمجھ کر چنے جو نامور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں اردو پڑھاتے ہیں۔

'جوائے آف اردو کے تحت تین قسم کی بیٹھکیں ہوتی ہیں۔ ایک جس میں بچوں کے لیے سٹوری ٹیلنگ، بڑوں کے لیے ہم یا تو ایک لیکچر قسم کا سیشن کرتے ہیں اور کہیں ہم صرف اکٹھے بیٹھ کر کوئی ایک عبارت چن لیتے ہیں اور اسے پڑھتے ہیں۔

'یہ ان لوگوں یا طالب علموں کے لیے ہے جو کہتے ہیں کہ ہمیں اردو سمجھ نہیں آتی یا پڑھنے میں روانی نہیں۔

جوائے آف اردو کی بیٹھکیں غیر ممالک کے علاوہ پاکستان میں لاہور، کراچی، اسلام آباد اور ملتان سمیت دیگر شہروں میں بھی ہوتی ہیں۔

 'ہم گھروں میں سیشن کرنے کی اجازت نہیں دیتے، ہم ان بیٹھکوں میں شامل ہونے کی فیس بھی وصول نہیں کرتے۔ اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ بیٹھک کروانے کے لیے کوئی ہم سے بھی معاوضہ نہ لے لہٰذا ہم یونیورسٹیوں یا لائبریریوں میں یہ بیٹھکیں منعقد کروانے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر کوئی ایسی جگہ جہاں خاموشی ہو۔'

زیادہ پڑھی جانے والی ادب