بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں خاتون فوٹو جرنلسٹ پر مقدمہ

 فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا پر' اینٹی نیشنل سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی' کے الزام میں یہ مقدمہ درج کیا گیا۔

(چھبیس سالہ مسرت زہرا- فیس بک)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس نے سری نگر میں مقیم معروف نوجوان خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر 'اینٹی نیشنل پوسٹس اور تصویریں' اپ لوڈ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا ہے۔

سائبر پولیس سٹیشن کشمیر زون سری نگر کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق مسرت زہرا کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون اور تعزیرات ہند کی دفعہ 505 کے تحت مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے: 'سائبر پولیس سٹیشن کو قابل اعتماد ذرائع سے اطلاع ملی کہ فیس بک صارف مسرت زہرا نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور عوامی سکون کے خلاف جرائم کو فروغ دینے کی مجرمانہ نیت سے اینٹی نیشنل پوسٹس اپ لوڈ کرتی ہیں۔ اس فیس بک صارف کے بارے میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایسی تصویریں اپ لوڈ کرتی ہیں جو عوام کو امن وامان بگاڑنے پر اکسا سکتی ہیں۔'

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ 'مذکورہ صارف (مسرت زہرا) ایسی تحریریں بھی پوسٹ کرتی ہیں جن سے اینٹی نیشنل سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہیں اور جو ملک کے خلاف بدگمانی اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی شبیہہ کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔'

مسرت زہرا نے جو بحیثیت فری لانسر کام کرتی ہیں، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مقدمہ درج کرنے کی خبر پوری صحافی برادری کے لیے افسوسناک ہے۔ بقول ان کے ایسی کارروائیوں کا مقصد کشمیری صحافیوں کی آواز دبانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں مقدمے کے خلاف خود قانونی چارہ جوئی شروع نہیں کروں گی بلکہ میں نے اس سلسلے میں پریس کلب کشمیر کے ساتھ بات کی ہے اور میں ان ہی کی طرف سے کی جانے والی کارروائی پر انحصار کروں گی۔

مسرت نے کہا کہ مقدمے میں مجھے صحافی کے بجائے ایک فیس بک صارف کے بطور پیش کیا گیا ہے۔ بحیثیت صحافی کشمیر میں گذشتہ کئی برسوں کے دوران رونما ہوئے واقعات جن کی میں خود چشم دید گواہ ہوں، کے متعلق چیزیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتی ہوں۔

انہوں نے کہا: 'میں کوئی سماجی کارکن ہوں نہ میرا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے، بحیثیت صحافی کیا میں وہ تصویریں پوسٹ نہیں کرسکتی ہوں جو میرے آرکائیو میں ہیں؟ میں وہی پوسٹ کرتی ہوں جو کشمیر میں گذشتہ کئی برسوں کے دوران وقوع پذیر ہوا ہے جس کی میں خود چشم دید گواہ ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ ایک صحافی کی اپنی کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہوتی ہے لیکن یہ لوگ یہاں صحافت کا گلا گھونٹنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں اس پیشے میں بہت ہی کم خواتین کام کرتی ہیں اور خواتین فوٹو جرنلسٹس بہت کم ہیں۔

مسرت زہرا کے خلاف پولیس کی کارروائی سے کشمیری عوام میں بالعموم اور صحافی برادری میں بالخصوص شدید غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور پیر کو مقدمہ درج ہونے کی خبر پھیلتے ہی سوشل میڈیا پر ہزاروں ایسی تحریریں دیکھنے کو ملیں جن میں ان سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

ایک اور صحافی پیرزادہ عاشق، جو بھارتی اخبار 'دی ہندو' کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نامہ نگار ہیں، کے خلاف بھی جنوبی کشمیر کے پولیس اسٹیشن اننت ناگ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں ان پر شوپیاں میں گذشتہ روز ہونے والے تصادم کے متعلق 'فرضی خبر' شائع کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

دی انڈین ایکسپریس کے ڈپٹی ایڈیٹر مزمل جلیل نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا: 'مسرت زہرا، جو کہ ایک پیشہ ور فوٹو جرنلسٹ ہیں، نے اپنے چار سالہ کیریئر میں ایمانداری سے کشمیر کی کہانیاں کہی ہیں۔ ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنا ظالمانہ کارروائی ہے۔ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم ایف آئی آر کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جرنلزم جرم نہیں ہے۔ ڈرانا دھمکانا اور سینسرشپ سے کشمیری صحافیوں کو خاموش نہیں کیا جاسکتا'۔

سینئر کشمیری صحافی گوہر گیلانی کے مطابق کشمیر میں صحافیوں کو مختلف حربوں سے ڈرانے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ وہ رپورٹنگ نہ کریں۔ بقول ان کے ان کارروائیوں کا مقصد صحافیوں کو خاموش کرانا ہے۔

انہوں نے کہا: 'ہمارے یہاں صحافی نارمل رپورٹنگ کرتے ہیں۔ جب صحافیوں کو پولیس تھانوں پر بلایا جاتا ہے اور انہیں مختلف سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے طلب کیا جاتا ہے تو یہ کارروائیاں صحافت کی آزادی پر سوالات کھڑے کرتی ہیں۔'

گوہر گیلانی نے کشمیر میں صحافیوں کو 'ڈرانے اور دھمکانے' کی کارروائیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا: 'اخبار دی ہندو کے صحافی پیرزادہ عاشق کو گذشتہ برس اگست میں تھانے پر بلایا گیا جہاں ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنے ذرائع کے نام بتائیں۔ غالباً نومبر میں ہمارے ساتھیوں بشارت مسعود اور حکیم عرفان کو جو بالترتیب دی انڈین ایکسپریس اور دی اکنامک ٹائمز کے ساتھ وابستہ ہیں، کارگو انٹیروگیشن سنٹر بلایا گیا جہاں ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ فروری میں ہمارے ایک اور ساتھی نصیر گنائی جو آوٹ لک میگزین کے ساتھ وابستہ ہیں، کو بھی وہاں بلایا گیا۔'

انہوں نے مزید کہا: 'سال 2018 میں ہمارے نوجوان ساتھی عاقب جاوید کو ایک بیرونی ایجنسی نے پوچھ گچھ کے لیے دلی طلب کیا تھا۔ جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافی عرفان احمد ملک اور دیگر کئی نام ہیں جن کو یکے بعد دیگرے مختلف اداروں کی طرف سے پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا'۔

آصف سلطان نامی کشمیری صحافی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور عالمی صحافتی تنظیموں کی بارہا اپیلوں کے باوجود سال 2018 کے ماہ اگست سے مسلسل سینٹرل جیل سری نگر میں بند ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حال ہی میں صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' نے آصف سلطان نامی محبوس کشمیری صحافی کی رہائی کے لئے آن لائن پیٹیشن شروع کی ہے۔ انہیں مبینہ طور پر مسلح سرگرمیوں، جن کو ان کے اہل خانہ نے مسترد کیا ہے، میں ملوث ہونے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔

کشمیر پریس کلب نے فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس سے مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک پریس ریلیز میں کلب نے کہا کہ ادارہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں صحافیوں کی تنگ طلبی کا معاملہ پریس کونسل آف انڈیا اور دیگر صحافتی انجموں کے ساتھ اٹھائے گا۔

کشمیر کی تقریباً تمام بھارت نواز علاقائی جماعتوں نے مسرت زہرا کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی شدید مذمت کی ہے اور اس کو صحافت کا گلہ گھونٹنے کی کارروائی قرار دیا ہے۔ اگرچہ مزاحمتی خیمے سے بھی بیانات جاری ہونے کا قوی امکان تھا لیکن اس خیمے کے بیشتر لیڈران کو گذشتہ برس پانچ اگست سے مسلسل تھانہ یا خانہ نظر بند رکھا گیا ہے۔

کشمیری مصنف وحید مرزا نے ایک ٹویٹ میں خاتون صحافی کے کام کی تعریف کچھ یوں کی۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین