اچانک غائب ہو جانے والا 'سیارہ' جو شاید تھا ہی نہیں

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر موجود ایک 'سیارہ' اچانک غائب ہو گیا ہے۔

ماہرین فلکیات اب یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ فینٹم سیارہ دراصل گرد کا ایک بادل تھا جو کہ کائناتی ٹکراؤ سے پیدا ہو تھا اور وقت کے ساتھ کم ہوتے ہوتے یہ ختم ہو گیا ہے۔ (تصویر: اے ایف پی)

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر موجود ایک سیارہ اچانک غائب ہو گیا ہے۔

اس غیر متوقع عمل کے بعد ماہرین فلکیات اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس سیارے کی موجودگی کے بارے میں وہ یقین رکھتے تھے شاید وہ کبھی تھا ہی نہیں۔

ماہرین فلکیات اب یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ فینٹم سیارہ دراصل گرد کا ایک بادل تھا جو کہ کائناتی ٹکراؤ سے پیدا ہو تھا اور وقت کے ساتھ کم ہوتے ہوتے یہ ختم ہو گیا ہے۔

یہ ایکسو پلانیٹ جسے 'فوماہاوٹ بی' کا نام دیا گیا تھا، نے 2000 کی دہائی کے وسط میں اس وقت تاریخ رقم کی تھی جب اسے ہمارے نظام شمسی سے باہر پہلی بار براہ راست دیکھا گیا تھا۔ تحقیق کار اس سے قبل سیاروں کی موجودگی کا تعین ان کے باقی ستاروں پر اثرات یا حرکت کے دوران ان کے سائے سے کرتے تھے لیکن یہ مشتبہ سیارہ ہبل کی خلائی ٹیلی سکوپ سے سالوں پر محیط عرصے کے دوران کئی بار دیکھا گیا تھا۔

لیکن اب ماہرین فلکیات کا ماننا ہے کہ یہ مشاہدات دراصل دو برفیلے اجسام کے ٹکراؤ کا نتیجہ تھے۔ اس ٹکراؤ کے بعد صاف گرد کا ایک بادل وجود پاتا تھا جو کہ خلا سے نظر آتا تھا اور زمین پر موجود ماہرین فلکیات غلطی سے اسے زمین سے 25 نوری سال کے فاصلے پر موجود سیارہ سمجھتے رہے۔

اس تحقیق کا یہ مطلب ہے کہ پہلے یقین کی جانے والی دریافت غلط تھی لیکن یہ غلطی اس کے ساتھ ہی ایک غیر متوقع اور بالکل نئی تحقیق کا راستہ کھولتی ہے۔ ہبل کی تصاویر میں شاید ایک سیارہ نہیں بلکہ کسی ٹکراؤ کے بعد پیدا ہونے والا ردعمل تھا اور یہ خیال سائنسدانوں کو اس بارے میں مزید تحقیق کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔

سٹیورڈ آبزرویٹری یونیورسٹی آف اریزونا میں اسسٹنٹ ماہر فلکیات اور نئی تحقیق کے کلیدی مصنف اندراس گاسپر کہتے ہیں: 'یہ ٹکراؤ بہت نایاب ہیں اور یہ بہت بڑی بات ہوگی اگر ہم ان کا کوئی ثبوت دیکھ سکیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہم اس وقت درست وقت اور مقام پر تھے جو ناسا کے ہبل ٹیلی سکوپ سے اس غیر متوقع واقعے کو دیکھ سکے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ دریافت صرف سیاروں کے وجود کے بارے میں ہی نہیں بلکہ ان کے فنا ہونے یا ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے بارے میں بھی مدد فراہم کر سکتی ہے۔

سٹیورڈ آبزرویٹری میں فلکیات کے پروفیسر جارج ریکی کا کہنا ہے کہ 'فوماہاوٹ سٹار سسٹم ہماری لیبارٹری کا امتحان ہے کہ ہم کیسے سیاروں اور ان کے ارتقا کو جانچ سکتے ہیں۔ دوسرے شمسی نظاموں میں ہم ایسے ٹکراؤ کے ثبوت دیکھ چکے ہیں لیکن اس نوعیت کے ٹکراؤ کا مشاہدہ ہمارے نظام شمسی میں نہیں دیکھا گیا۔ یہ ایک سیارے کا دوسرے سیارے کو تباہ کرنے کا بلو پرنٹ ہے۔'

سائنسدان جن کی تحقیق نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نے شائع کی ہے، کے مطابق اس ایکسوپلانیٹ کی مختلف نوعیت کی غیر معمولی خصوصیات کے مشاہدے کے بعد نتائج مرتب کیے گئے ہیں۔ یہ حقیقت کہ اس کو روشنی میں دیکھا جا سکتا تھا ایک عجیب بات ہے کیونکہ ایک ایکسوپلانیٹ روشنی منعکس کرنے کے لیے کافی چھوٹا ہوتا ہے لیکن دوسری جانب یہ انفرا ریڈ کی روشنی میں نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ گو کہ تحقیق کاروں کا ماننا ہے کہ انفراریڈ کی روشنی میں کوئی بھی سیارہ اگر حرارت رکھتا ہو تو وہ چمک اٹھتا ہے۔

ابتدائی طور پر اس سیارے کی موجودگی کے حامیوں کی جانب سے یہ رائے دی گئی تھی کہ ٹکراؤ کے بعد ہو سکتا ہے اس سیارے کے ارد گرد کوئی خول یا گرد کا بادل تخلیق پا گیا ہو لیکن نئی تصاویر میں سامنے آیا ہے کہ یہ سیارہ کبھی وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ ہبل کی 2014 کی تصاویر میں یہ سیارہ مکمل طور پر غائب ہو چکا ہے جبکہ اس سے قبل یہ تھوڑا دھندلا گیا تھا۔

اندراس گاسپر کا کہنا ہے کہ 'فوماہاوٹ بی ایسے افعال کر رہا تھا جو ایک حقیقی سیارے کو نہیں کرنے چاہیے تھے۔'

نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ سیارہ طویل عرصہ پہلے ہونے والے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی گرد تھی جو خلا میں پھیل رہی تھی۔ یہ بتدریج ختم ہوتی گئی کیونکہ ٹکراؤ سے پیدا ہونے والا ملبہ مزید پھیلنے کے بعد نہیں دکھائی دے سکتا تھا۔ سائنسدانوں نے شک ظاہر کیا ہے کہ اس پھیلاؤ کا محیط سورج کے گرد زمین کے مدار سے وسیع ہو سکتا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق