کیا اس سال انٹرنیشنل کرکٹ ہوسکے گی؟

اربوں ڈالر کی آمدنی پر کرونا وائرس کا سانپ کنڈلی مار کر بیٹھ گیا ہے۔ ایسے میں کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی کیا کر رہی ہے؟

آسٹریلیا کرکٹ بورڈ کے اگرچہ اگلے چند ماہ کوئی پراجیکٹ نہیں لیکن خطرے کی بو سونگھتے ہوئے بورڈ نے ملازمین کی تنخواہوں میں 80 فیصد کمی کردی ہے۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

کرونا (کورونا) وائرس کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں دنیا جس طرح گھروں میں مقید ہوگئی ہے، اس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی ہے۔

سماجی فاصلے کو برقرار رکھنے کے لیے دنیا بھر میں کھیلوں کی سرگرمیاں روک دی گئی ہیں، میدان سونے پڑے ہیں اور کھلاڑی اپنا وقت سوشل میڈیا پر اوٹ پٹانگ ورزشوں اور ماضی کی غلطیوں کو دہرا کر گزار رہے ہیں۔ پرانے راز  نئے انداز میں افشا کیے جارہے ہیں، کچھ اپنے کیریئر کے خاتمے کی وجوہات بیان کررہے ہیں اور کچھ ریٹنگ بڑھانے کے لیے مصنوعی لڑائیوں کو ہوا دے رہے ہیں۔

ایسے میں کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی کیا کر رہی ہے؟

آئی سی سی کو سب سے بڑی فکر اپنی آمدنی کی ہے جس کو گہن لگتا نظر آرہا ہے۔ اربوں ڈالر کی آمدنی پر کرونا وائرس کا سانپ کنڈلی مار کر بیٹھ گیا ہے۔ آئی سی سی کا اس سال کا سب سے بڑا پروجیکٹ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ہے جو اکتوبر اور نومبر میں آسٹریلیا میں شیڈول ہے۔ ایونٹ کے میڈیا رائٹس فروخت ہوچکے ہیں اور کرکٹ گراؤنڈز کے استعمال کی قیمت بھی پیشگی ادا کی جاچکی ہے۔

اگر ایونٹ وقت پر نہ ہو سکا تو معاہدے کے تحت اسپانسرز معاہدے میں ترمیم کرسکتے ہیں اور میڈیا کمپنی دستبردار ہوسکتی ہے، جس کا نتیجہ اربوں کا نقصان ہے۔ آئی سی سی کے براڈکاسٹ حقوق  2023 تک بھارتی نشریاتی ادارے سٹار سپورٹس نے دو بلین ڈالر میں حاصل کر رکھے ہیں، دوسری طرف ٹی ٹوئنٹی ایونٹ کے لیے ہوٹلز سے لے کر لاجسٹک تک بک  کرلیے گئے ہیں، جو موجودہ حالات میں خطرے میں نظر آتے ہیں۔

آئی سی سی کے علاوہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کے بورڈز بھی سخت پریشان ہیں ۔بھارتی کرکٹ بورڈ کے لیے انڈین پریمیئر لیگ کا اس سال کا ایڈیشن غیر معینہ مدت تک ملتوی  کرنا سب سے کڑوا فیصلہ ہے۔ کرونا لاک ڈاؤن کے سبب بھارت میں 4 مئی تک لاک ڈاؤن نے کسی بھی قسم کی کرکٹ کو ناممکن بنادیا ہے اس منسوخی سے بھارتی بورڈ کو 400 ملین ڈالر کی آمدنی ہاتھوں سے نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ اگر اس سال کوئی اور کرکٹ نہ ہوئی تو آسٹریلیا کے ساتھ سیریز کا نفع بھی مٹی میں مل جائے گا۔

انگلینڈ کے کرکٹ بورڈ نے جون تک ہر قسم کی کرکٹ بند کردی ہے اور حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس سال کرکٹ کی جنم بھومی میں شاید کوئی میچ نہ کھیلا جاسکے۔ انگلش کرکٹ بورڈ نے ابتدائی مرحلے میں 300 ملین ڈالر کے نقصان کا اندازہ لگایا ہے جو بڑھ جائے گا۔

آسٹریلیا کرکٹ بورڈ کے اگرچہ اگلے چند ماہ کوئی پراجیکٹ نہیں لیکن خطرے کی بو سونگھتے ہوئے بورڈ نے ملازمین کی تنخواہوں میں 80 فیصد کمی کردی ہے۔ صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے آسٹریلین فاسٹ بولر ہیزل ووڈ نے کہا ہے کہ آسٹریلین کھلاڑی اپنی تنخواہوں میں رضاکارانہ کٹوتی کے لیے تیار ہیں تاکہ مالی بحران سے نمٹا جاسکے۔ آسٹریلیا کی ساری امیدیں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے ہیں۔

ہیزل ووڈ کے برعکس انگلش کھلاڑیوں نے تنخواہوں میں کٹوتی کا خیال مسترد کردیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر ایک کو معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔

پاکستانی کھلاڑی فی الحال خاموش ہیں لیکن وہ کسی بھی کٹوتی کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ان کی تنخواہوں کا کچھ حصہ وزیراعظم کے کرونا فنڈ میں دیا جاچکا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی اس صورت حال کو سنگین قرار دیتے ہوئے پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ اگر ٹی ٹوئنٹی کپ وقت پر نہ ہوا تو بورڈز دیوالیہ ہوسکتے ہیں۔ پی سی بی فی الحال کسی پریشانی کا شکار نہیں لیکن عالمی خسارے کے اثرات پی سی بی پر ضرور پڑیں گے اور عالمی کساد بازاری بورڈ کی نیّا غرق کرسکتی ہے۔

آئی سی سی کی کوششیں

آئی سی سی نے مالی خطرات کو بھانپتے ہوئے اپنی کوششیں شروع کردی ہیں اور کونسل کے چیف ایگزیکیٹو مانو سہانی نے جمعرات کو ایک ویڈیو کانفرنس طلب کی ہے، جس میں 12 مکمل ممبران اور تین الحاق شدہ ممالک کے نمائندے شرکت کریں گے۔

کانفرنس کا مقصد ایک ایسے حل کی تلاش ہے جس سے کرکٹ کو دوبارہ بحال کیا جاسکے اور ممکنہ مالی خسارے سے بچا جائے۔ سہانی سمجھتے ہیں کہ یہ کانفرنس جامد پانی میں پہلا پتھر ہے جس سے اجتماعی سوچ کو آگے بڑھایا جاسکے گا کیونکہ ابھی تک سب انفرادی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ممکنہ حل کیا ہے؟

کچھ کھلاڑیوں کی تجویز ہے کہ سماجی فاصلوں اور احتیاطی تدابیر کو سامنے رکھتے ہوئے خالی سٹیڈیم میں میچز کھیلے جائیں، جو شائقین اپنے گھروں پر دیکھ سکیں۔ یہ خیال ڈنمارک اور جرمنی کی فٹبال لیگز کو دیکھتے ہوئے سامنے آیا ہے جہاں مئی کے آخری ہفتے سے خالی سٹیڈیم میں میچ شروع ہونے کی امید ہے۔

اس خیال کی سابق اور موجودہ  کھلاڑیوں کی اکثریت نے مخالفت کی ہے۔ سابق کینگرو کپتان ایلن بارڈر، آئین چیپل اور مائیکل کلارک نے ایسے کسی کھیل کو مذاق سے تعبیر کیا ہے ۔انگلش فاسٹ بولر جمی اینڈرسن اور پاکستان کے عاقب جاوید کے خیال میں یہ کرکٹ نہیں ہوسکتی، کرکٹ کا اصل مزہ بھرے ہوئے گراؤنڈز میں ہی ہے۔

ذرا سوچیے خالی سٹیڈیم میں کرکٹ میچ کیا ہوگا؟ شاید مسٹر بین کی کسی فلم کا خاموش منظر یا پھر پلے سٹیشن پر کوئی ورچول گیم۔

انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے مئی جون میں ویسٹ انڈیز کی میزبانی منسوخ کردی ہے اور ساؤتھ افریقہ کی ٹیم سری لنکا نہیں جارہی۔ ایسے میں پاکستان کا جولائی، اگست میں انگلینڈ کا دورہ بڑھ سکتا ہے، اگر کرکٹ ممکن ہوئ ی تو۔

انگلینڈ کرکٹ بورڈ براڈکاسٹ رائٹس کو کیش کرانے کے لیے خالی سٹیڈیم میں ٹیسٹ کھلانے کا سوچ رہا ہے لیکن موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایسا ممکن نظر نہیں آتا اور ایسا ہوا بھی تو بورڈ کو بھرپور تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز کے خالی ہوتے ہوئے خزانوں نے کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔  طے شدہ ادائیگیاں اور اگلے مہینوں کی تنخواہیں، سب کے لیے کرونا وائرس سے بڑا امتحان بنتی نظر آرہی ہیں۔ آمدنی کے بند ہوجانے کے ساتھ اگلا مسئلہ سپانسرز کی مالی حالت ہے جو خود مشکل صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔

سب سے بڑی سپانسر ایمریٹس ایئرلائنز پچھلے دو مہینوں سے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہے جبکہ نسان موٹرز اور ایم آر ایف کو بھی خسارے کا سامنا ہے۔ دوسرے چھوٹے سپانسرز بھی مشکلات کا شکار ہیں، جب یہ خود ہی خوشحال نہیں ہونگے تو کرکٹ کو بھلا خاک دیں گے۔ ایسے میں اگر کرکٹ بحال نہ ہوسکی تو آئی سی سی اور ملکی بورڈز کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔

کیا آئی سی سی کی جمعرات کی میٹنگ کوئی اجتماعی سوچ اپنا سکے گی یا پھر وہی ماضی کی کشمکش، جس میں بھارت پاکستان کو دیوار سے لگانے میں مصروف ہے  اور جنوبی افریقہ مسلسل نظر اندازی کا شکار ہے، مزید آگے بڑھے گی۔

بھارتی کرکٹ بورڈ کو اب بھی یقین ہے کہ وہ ایک ارب شائقینِ کرکٹ کی مارکیٹ کے ذریعے اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے لیکن چھوٹے بورڈز ہوا کے ساتھ اڑ سکتے ہیں اور شاید بھارت اس وقت کا ہی انتظار کر رہا ہے، اگر بگ تھری کا منصوبہ دوبارہ سامنے آجائے تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔

بھارت ویسے بھی انگلینڈ اور آسٹریلیا کے علاوہ کسی کے ساتھ کھیلنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

آئی سی سی، جو اب تک اپنی ساخت اور بھارتی اثر ورسوخ کے باعث بھارت کے فائدے کے فیصلے کرتا رہا ہے، شاید آج بھی دباؤ میں رہے، لیکن اب تاریخ کے اس موڑ پر اس کی بقا کا انحصار  صرف بھارت نہیں بلکہ دوسرے بورڈ پر بھی ہے، جن میں سے کچھ میں اب تک کرونا وائرس کی تباہ کاریاں اپنی شدت پر نہیں پہنچی ہیں اور اگر کرکٹ جلد وہاں بحال ہوگئی تو انگلینڈ اور بھارت جیسے بڑے ہاتھیوں کی سبکی ہوگی۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ