کیا لاک ڈاؤن میں سائیکلنگ اور ورزش محفوظ ہے؟

سائیکلنگ کے ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے کئی فوائد ہیں۔ برطانیہ میں اس کی اجازت بھی ہے لیکن تشویش بھی پائی جاتی ہے۔

بعض لوگوں نے سائیکلنگ کرنے والوں کی جانب سے حکومتی ضابطہ کار کی خلاف ورزیاں کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے (اے ایف پی)

اس سے قبل شاید سائیکل پر باہر نکلنے کا پرکشش وقت نہیں تھا۔ لاک ڈاؤن نے سڑکوں پر ٹریفک کو کافی کم کر دیا ہے اور شہروں میں ڈرامائی طور پر ماحول میں بہتری آئی ہے۔ اپریل میں دھوپ بھی نکل آئی ہے اور سائیکلنگ کے مقابلے میں دیگر بہتر سرگرمیاں موجود ہیں۔

ہماری جسمانی اور ذہنی فلاح کے لیے سائیکلنگ کے فوائد سب جانتے ہیں، لیکن معاشرے میں اس نے کرونا وائرس کی وجہ سے زیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے۔ سائیکلنگ لوگوں کو بھیڑ والی بسوں اور ٹرینوں جیسی پبلک ٹرانپسورٹ سے بچاتی ہے اور ان لوگوں کو سواری فراہم کرتی ہے، جن کے پاس کوئی متبادل نہیں۔

لیکن بعض لوگوں نے سائیکلنگ کرنے والوں کی جانب سے حکومتی ضابطہ کار کی خلاف ورزیاں کرنے اور اسے سماجی سرگرمی کے طور پر جاری رکھنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہیں خدشہ ہے کہ زیادہ دور فاصلے تک سفر کرنے سے وائرس وہاں تک پھیل سکتا ہے یا کسی بھی حادثے کی صورت میں صحت کے عملے کے لیے، جیسے کہ برطانیہ میں این ایچ ایس ہے، اضافی بوجھ ثابت ہوسکتا ہے۔

سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن ان کی رفتار بھی بڑھ گئی ہے لہٰذا خالی سڑکوں پر سائیکلنگ اتنی محفوظ نہیں رہی جتنا کہ تصور کیا جاتا ہے۔

برطانیہ میں لاک ڈاؤن کے دوران سائیکلنگ کے قواعد کیا ہیں؟

مارچ میں متعارف کرائے گئے کرونا وائرس ایکٹ 2020 کے تحت ورزش وہ کام ہے جس کی وجہ سے لوگ گھروں سے نکل سکتے ہیں۔ لیکن یہ یا تو اکیلے یا پھر اپنے گھر کی لوگوں کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔

حکومت واضح ہے کہ سائیکلنگ واک اور دوڑ کے ساتھ روزانہ کی قابل اجازت ورزش ہے۔ تاہم اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ کتنی دیر یا کتنی دور تک سائیکل چلا سکتے ہیں۔

جب پوچھا گیا کہ ہمیں ورزش کے لیے کتنا وقت ملنا چاہیے، تو کابینہ کے وزیرِ مائیکل گوو نے کہا: 'میرے خیال میں زیادہ تر لوگوں کے لیے ایک گھنٹے تک چلنے، 30 منٹ کی دوڑ یا اس کے درمیان کی سائیکل سواری ہونی چاہیے، جو ان کی صحت کی نوعیت پر بھی منحصر ہے، مناسب ہے۔‘

حکومت نے کہا ہے کہ آپ کو ’اپنے علاقے‘ میں رہنا چاہیے لیکن آپ ورزش کے مقام تک جانے کے لیے کثرت کے وقت سے زیادہ طویل ڈرائیو نہیں کرسکتے۔

سرکاری وکیلوں کا کہنا ہے کہ یہ پولیس کی تشریح پر منحصر ہے کہ آیا وہ دن میں ورزش کے لیے ایک سے زائد مرتبہ گھر سے نکلنے کو ’جائز وجہ‘ مانتی ہے یا نہیں۔

لاک ڈاؤن کے آغاز میں برطانیہ میں کئی گروپس نے، بشمول سائیکلنگ یوکے، نے سائیکلنگ کو جاری رکھنے کے لیے کوششیں کیں۔ انہوں نے اسے ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے ایک ایسے وقت پر اہم قرار دیا جب اسے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔

کرائے کی سکیموں نے جیسے کہ لندن میں برامپٹن بائیک ہائر نے لوگوں کو تمام ملک میں مفت سائیکلیں فراہم کیں۔ حکومت نے بھی اس بات کو یقینی بنایا کہ سائیکل کی دکانیں ان اہم خدمات میں شامل اور کھلی رہیں تاکہ سائیکلنگ کرنے والوں کو مرمت اور ضروری آلات مہیا کرنے میں مشکل درپیش نہ ہو۔

رواں ہفتے حکومت نے قواعد میں نرمی کی تاکہ مقامی حکام سائیکل والوں کی سہولت کے لیے سڑکوں پر نشانات میں تبدیلی لائیں اور جہاں ممکن ہو تحفظ کے لیے گاڑیوں کو متبادل راستہ دیں۔

دیگر ممالک نے سائیکلنگ کے بارے میں کیا کیا ہے؟

کچھ یورپی ممالک میں سائیکلنگ کی اب بھی فعال طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ بیلجیئم میں، جو شاید زمین پر سب سے زیادہ سائیکلنگ کرنے والی قوم ہے، دوست کے ساتھ سواری ان چند سماجی سرگرمیوں میں سے ایک تھی جو لاک ڈاؤن کے سخت ابتدائی اقدامات سے بچ گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیلجیئم کی وزیر صحت میگی ڈی بلاک نے کہا کہ ’آپ جہاں تک چاہیں جا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں واک یا سائیکلنگ کے لیے باہر جانا صحت کے لیے اچھا ہے۔‘

برلن میں سائیکلنگ لینز کو بڑھایا گیا ہے اور سائن بورڈ لگائے ہیں کہ سائیکل کے ذریعے کام پر جانے سے لوگ انفیکشن سے بچ سکتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد سے نیدرلینڈز میں سہ پہر میں سو فیصد اضافہ ہوا اور 50 سال میں سڑکوں پر سب سے کم گاڑیاں دیکھی گئیں۔

لیکن سپین، اٹلی اور فرانس میں – وہ تین ممالک جہاں کرونا وائرس کے اعدادوشمار برطانیہ سے ملتے ہیں - سائیکلنگ کو گھر کے دو کلومیٹر کے علاقے کے اندر تک محدود کیا گیا ہے۔ سپین میں ان سائیکل سواروں کو جو اہم کارکن نہیں ہیں تین ہزار یوروز تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔

برطانیہ میں تشویش کیا ہے؟

ایک تشویش یہ ہے کہ سائیکل سوار غیرضروری طور پر زیادہ فاصلے تک سفر کر سکتے ہیں۔ مقبول فٹنس ایپ سٹراوا پر ایک نیا چیلنج دیا گیا ہے کہ لوگ اپریل میں سائیکل پر 777 میل مکمل کریں۔ کئی لوگ ایک دن میں 200 کلومیٹر کے سفر ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ پیشہ ور سائیکلسٹ جو سکیپر پر اس وقت تنقید کی گئی جب انہوں نے بغیر کوئی قانون توڑے 201 کلومیٹر مکمل کیے۔

پیک ڈسٹرکٹ اور بریڈویل کے مقامی لوگوں نے شیفیلڈ سے سائیکلنگ کرنے والوں کے خلاف شکایت کی کہ وہ وائرس کو ان کے علاقوں میں پھیلا سکتے ہیں۔

البتہ اگر کوئی سائیکل سوار اکیلا یا پھر خاندان کی صورت میں سفر کرتے ہیں اور کسی علاقے میں مقامی دکانیں یا بازار استعمال نہیں کرتے تو اس بارے میں کوئی سائنسی شواہد نہیں کہ وہ مقامی لوگوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔

ایک تحقیقی مقالہ نے، جو بڑی تعداد میں آن لائن تقسیم ہوا، دعویٰ کیا گیا کہ سائیکل سوار کو دوسرے سے تقریباً 20 میٹر فاصلہ رکھنا چاہیے تاکہ وہ ان کی سانس لینے کے دوران نکلے ذرات سے محفوظ رہ سکیں۔ لیکن اس تحقیق کو سرکردہ ایپٹمالوجسٹس نے مسترد کیا اور اس کے تنقیدی جائزے سے قبل شائع کرنے پر تنقید کی۔

یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ کچھ لوگ سماجی سرگرمی کے طور پر سائیکلنگ کر رہے ہیں۔ ایسٹر کے اختتام ہفتہ لندن کے پارکوں میں مل کر گروپوں کی صورت میں سائیکلنگ کی تصاویر  دیکھی جاسکتی ہیں، جو سرکاری ہدایات کے منافی ہے۔ لیکن سائیکل سواروں کی وسیع اکثریت اکیلے سواری کرتے ہیں۔ بہت کم ثبوت ہے کہ سماجی سائیکلنگ لاک ڈاؤن کے دوران ایک سنگین مسئلہ ہے۔

اگرچہ فاصلے کی حدود کا تعین کر دیا گیا ہے لیکن مانچسٹر کے سائیکلنگ اور واکنگ کمشنر اور سابق پیشہ ور سائیکلسٹ کرس بورڈمین کہتے ہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’گھر سے گھر‘ تک سواری کریں۔ ’میں کسی کے ساتھ نہ ملوں، میں کسی دکان یا کیفے پر نہ رکوں اور میں گھر سے گھر جا رہا ہوں۔ یہ مجھے صحت مند رکھے گی، مجھے محفوظ رکھے گی اور مجھے ذہنی سکون دے گی۔‘

کیا سائیکل چلانے والے نیشنل ہیلتھ سروس پر بوجھ ہیں؟

 یقینی طور پر اگر کوئی ایسا حادثہ، جس میں این ایچ ایس سے علاج کی ضرورت پرتی ہے تو حالیہ بحران میں اس سروس کی جانب سے دی جانے والی خدمات درکار ہوگی۔ پورے برطانیہ کی سڑکوں پر ٹریفک معمول کی سطح سے تقریباً ایک چوتھائی تک کم ہے جس کا مطلب ہے کہ سڑکیں محفوظ ہیں اور حادثات کی تعداد کم ہے، لیکن کچھ تیز رفتار ڈرائیور اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

گرین پارٹی کی رکن کیرولن رسل نے حکومت سے کارکنوں اور عوام کے تحفظ کے لیے رفتار کی حدود کو کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ  سڑک پر پیدل اور سائیکل چلانے والے لوگوں کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔  

تیز رفتار گاڑیوں کے ذمہ دار سائیکل سوار نہیں، لیکن انہیں اس سے ہونے والے حادثے کے خطرے سے زیادہ محتاط رہنا چاہیے؟

لندن کے واکنگ اور سائیکلنگ کمشنر ولن نارمن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ 'لندن میں رہنے والوں کے لیے سائیکلنگ ایک آسان اور کسی بھی ضروری سفر کرنے کے لیے نہایت اہم ذریعہ ہے اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق اپنی روزمرہ زندگی میں سائیکل چلانا ہر ایک کے لیے ورزش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔‘

ٹی ایف ایل اور سٹی ہال لندن بوروں ان رہائشیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے جو سڑکوں پر ٹریفک کم کرنے کے خواہاں ہیں۔ جب تک کہ اس سے ہنگامی خدمات یا دیگر ضروری سفر میں رکاوٹ نہ آئے۔

لندن بھر میں سڑکوں پر ٹریفک اب آدھی ہوگئی ہے اور ان خاموش سڑکوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سارے سماجی بحالی کے  لیے کام کرنے والے سائیکل سوار کارکن بہت خوش ہیں۔

زیادہ تر لوگ ان سٹرکوں کے استعمال میں حفاظت کا خیال کرتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ کچھ خود غرضی سے قوانین توڑ رہے ہیں اور خطرناک حد تک تیزی سے گاڑی چلا رہے ہیں۔

ہم تمام گاڑی چلانے والوں کو اس بات سے خبردار بھی کر رہے ہیں کہ تیز رفتاری کس قدر خطرناک ہے اور موجودہ قومی بحران میں اس طرح کی لاپرواہی سراسر غلط ہے۔ اپنے اور دوسروں کو خطرے میں ڈالنے والے ڈرائیوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

سائیکلنگ یوکے کا ادارے کے، جوکہ برطانیہ میں سائیکل چلانے والوں کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے، مطابق یہ سرگرمی سائیکل سواروں کے لیے خطرناک ہے۔

وہ ایک بلاگ پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ ’جب ہم نے 2018 سے ٹریفک حادثے کی اطلاع دہندگی کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا ہے کہ ہر نو لاکھ میل کے بعد سائیکل سواروں کو شدید حادثے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو باقی دنیا سے تقریباً 36 گنا زیادہ ہے۔

ان اعدادہ شمار سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ 80  فیصد سے زیادہ سائیکل سواروں کی اموات کا سبب ایک گاڑی ہے، لہٰذا شاید ہی کبھی پھر سائیکل چلانے والوں کو ایسا وقت میسر ہو جب سٹرکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم ہو۔

لاک ڈاؤن کے بعد سے صحت عامہ کے ماہرین اور حکومت نے باقاعدگی سے سائیکلنگ کو فروغ دیا ہے جبکہ معاشرتی فاصلے کا مشاہدہ کرتے ہوئے، اسے ذاتی ورزش اور چھوٹے سفر کے لیے محفوظ پایا گیا۔

سائیکلنگ یو کے کے سربراہ ، ڈنکن ڈولیمور نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ 1950 کی دہائی میں ٹریفک کی سطح کے مقابلے میں اب سڑکیں معمول سے کہیں زیادہ محفوظ ہیں۔

نتیجاً اب ہر روز خطرے کے باوجود باہر جانے خاندانوں کا استقبال کر رہے ہوتے ہیں جوکہ سائیکل چلاتے اور پیدل چلتے ہوئے باہر وقت گزارنے سے لطف انداوز ہوتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں۔

سائیکلنگ یوکے کے بقول اب سائیکلنگ کافی بڑھ چکی ہے جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سے صحت سے متعلق کارکن سائیکلنگ کو فروغ دیتے ہیں اور ایک خیراتی ادارے کی حیثیت سے ہم انشورنس، سائیکلنگ کی وجہ سے ہونے والے حادثات اور اپنی مفت ممبرشپ کے ساتھ، محفوظ طریقے سے سائیکل چلانے میں مدد کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔

اگر کچھ بھی ہو جائے تو سائیکل چلانے سے جسم پر پڑنے والے مثبت اثرات اور اس سے بڑھنے والی قوتِ مدافعت ایک طویل عرصے تک ہماری صحت کے لیے کافی فائدہ مند ہو گی۔ کچھ نہ کرنے سے صحت کے شعبے پر اربوں پاؤنڈ کا بوجھ پڑے گا۔

 تو کیا ہمیں لاک ڈاؤن میں سائیکل چلانی چاہیے؟

مختصر جواب ہاں ہے: جب تک ہم قواعد کو مانتے رہیں، ’گھر سے گھر‘ سواری کرتے رہیں، اکیلے یا گھر کے کسی فرد کے تو سائیکلنگ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

سائکلنگ کے ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بہت فائدے ہیں اور حکومت نے عوام کو باہر نکلنے اور ورزش کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ب برطانیہ میں سائیکلنگ کی اجازت ہے۔ وقت اور فاصلے پر کوئی پابندی نہیں، اگرچہ سرکاری مشورہ ’مقامی رہنے‘ کے ہیں، لہٰذا یہ عام شخص پر ہے کہ وہ قواعد کی تشریح کس طرح کرتا ہے۔

سب سے اہم تحفظات مصروف سڑکوں اور گنجان پارک سے بچنے کے ہیں۔ تیز رفتار ٹریفک سے ہوشیار رہیں، اور غیر ضروری خطرات لینے کے کوشش نہ کریں۔ ان لوگوں کے لیے جو خاموش سڑکوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، یہ ایک نادر دور ہے جبکہ ان لوگوں کے لیے جو کچھ عرصے سے یہ نہیں کرسکے ہیں ان کے لیے بھی باہر نکلنے کا ایک بہتر موقع ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل