خود کو مسلمان صہیونی کہنے والے ڈیوڈ ایریل کیا چاہتے ہیں؟

ماضی میں مولانا خلیل الرحمٰن کے نام سے پہچانے جانے والے ڈیوڈ ایریل کو دو روز قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کرکے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے قائم سٹار آف ڈیوڈ کے نشان والا ان کا احتجاجی کیمپ بھی اکھاڑ دیا۔

ڈیوڈ ایریل اپنے احتجاج کے دوران جس خیمے میں رہائش پذیر تھے اس پر اسرائیل کے جھنڈے پر موجود سٹار آف ڈیوڈ واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔(تصویر: ڈیوڈ ایریل فیس بک پیج)

پاکستان اسرائیل کو جائز ریاست تسلیم نہیں کرتا اور ملک بھر میں اسرائیل کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ تصور بھی محال ہے کہ پاکستان کا کوئی شہری خود کو صہیونیت کا پیروکار کہلوائے اور اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت کرتا نظر آئے۔

لیکن وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک پاکستانی شہری نے کئی روز تک پاکستان اور اسرائیل کی دوستی کے حق میں احتجاج کیا۔

اپنے آپ کو مسلمان صہیونی (مسلم زائنسٹ) کہلوانے والے ڈیوڈ ایریل کو دو روز قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کیا جبکہ نیشنل پریس کلب کے سامنے قائم ان کا احتجاجی کیمپ بھی اکھاڑ دیا گیا۔

یاد رہے کہ صیہونیت (زائن ازم) یہودیوں کی وہ قوم پرست تحریک ہے جس کی کوششوں سے 1948 میں اسرائیل کی سرزمین پر یہودی ریاست قائم ہوئی اور اب یہ تحریک ریاست اسرائیل کا بہتر تعارف دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ اس تحریک کے پیروکاروں کو صیہونی (زائنسٹ) کہا جاتا ہے۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈیوڈ ایریل کے مطالبات میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان دوستانہ تعلقات کا قیام اور پاکستانی پاسپورٹ پر سے اسرائیل کے خلاف وہ الفاظ، جنہیں وہ نفرت انگیز قرار دیتے ہیں، کا ہٹایا جانا شامل ہیں۔

پاکستانی پاسپورٹ پر لکھا ہے: ’یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔‘ اس تحریر کے تحت پاکستانی پاسپورٹ کے حامل افراد اسرائیل کا سفر نہیں کر سکتے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیوڈ ایریل اپنے احتجاج کے دوران جس خیمے میں رہائش پذیر تھے اس پر اسرائیل کے جھنڈے پر موجود سٹار آف ڈیوڈ واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔    

ڈیوڈ ایریل کون ہیں؟

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ایک معزز مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے خلیل الرحمٰن 1973 میں پیدا ہوئے تھے۔

خلیل الرحمٰن نے دینی اور دنیاوی تعلیم آبائی شہر میں ہی حاصل کی اور وہیں اپنے والد کے قائم کردہ مدرسے میں پڑھانا شروع کر دیا اور انہیں مولانا خلیل الرحمٰن رحیمی کے نام سے جانا جانے لگا۔

ایک سینئئر صحافی عرفان اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: قاری یٰسین عزت دار مذہبی شخصیت ہیں اور شہر میں ان کا احترام کیا جاتا ہے۔'

انہوں نے بتایا کہ خاندان والے خلیل الرحمٰن کی حرکتوں سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے، کیونکہ وہ اکثر کوئی نہ کوئی ایسا کام کر دیتے تھے، جسے معاشرے میں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو معلوم ہوا کہ ان کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے خلیل الرحمٰن کو ان کے والد نے کچھ سال قبل ملائیشیا بھیج دیا، جہاں وہ کچھ عرصہ ایک مدرسے میں درس و تدریس کا کام کرتے رہے تھے۔

عرفان اللہ کے مطابق: ’خلیل الرحمٰن کے خاندان والے ان سے ہر قسم کا تعلق ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور شاید انہیں جائیداد سے بھی عاق کر دیا گیا ہے۔‘

کہا جاتا ہے کہ خلیل الرحمٰن کی سوچ میں تبدیلی تقریباً سات سال قبل پیدا ہوئی، جب انہوں نے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان دوستانہ تعلقات کے لیے کوششیں شروع کیں اور خود کو مسلمان صہیونی (مسلم زائنسٹ) کی حیثیت سے متعارف کروانے لگے۔ 

خلیل الرحمٰن نے تقریباً دو سال قبل اپنا نام تبدیل کر کے ڈیوڈ ایریل رکھ لیا اور انہوں نے اپنی لمبی داڑھی بھی منڈھوا دی۔

سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو انٹرویو میں ڈیوڈ ایریل اپنے نام کی تبدیلی کی وجہ بتاتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ کچھ مقدس ہستیوں نے خواب میں آکر انہیں نیا نام رکھنے کو کہا۔ گذشتہ سال دسمبر میں انہوں نے نئے نام کے ساتھ قومی شناختی کارڈ بھی حاصل کر لیا۔

ایک دوسری ویڈیو میں وہ بتاتے ہیں کہ شناختی کارڈ میں نام کی تبدیلی کے بعد انہوں نے نئے نام سے پاسپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کی اور پاکستانی پاسپورٹ میں اسرائیل کے خلاف مبینہ نفرت انگیز الفاظ ہٹانے کی درخواست بھی دی، جس پر ان کا پاسپورٹ بلاک کر دیا گیا۔

اُن دنوں وہ اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی میں ملازم تھے، جہاں سے انہیں نام کی تبدیلی اور اسرائیل کے حق میں پیغامات دینے کے بعد فارغ کر دیا گیا۔

نوکری جانے کے بعد ڈیوڈ ایریل نے نیشنل پریس کلب کے سامنے سبزہ زار میں خیمہ لگا کر احتجاج شروع کر دیا۔

ڈیوڈ ایریل چاہتے کیا ہیں؟

نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کے دوران ڈیوڈ ایریل روزانہ فیس بک پر پیغامات کے ذریعے اپنے مطالبات اور جدوجہد کے اغراض و مقاصد واضح کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ایسے ہی ایک پیغام میں ان کا کہنا تھا: ’پاکستان اور اسرائیل میں دوستی ہونی چاہیے، تاکہ یہاں مقیم میری طرح کے زائنسٹ اور اقلیتی شہری بیت المقدس جا سکیں۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ زائنسٹ خیالات رکھنے والے افراد موجود ہیں، جو یروشلم سے پیار کرتے ہیں اور وہاں جانا چاہتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’صہیونیت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور کوئی شخص مسلمان رہتے ہوئے بھی زائنسٹ ہو سکتا ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور تل ابیب میں دوستی کروانے کی کوششوں اور اسرائیل کو پسند کرنے کی وجہ بیت المقدس ہے، جس سے انہیں بہت پیار ہے۔ ’میں چاہتا ہوں کہ میں اور دوسرے پاکستانی زائنسٹ یروشلم جا سکیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوں۔‘

ڈیوڈ ایریل کا یہودیوں اور اسرائیلی شہریوں سے تعارف ملائیشیا میں قیام کے دوران ہوا، جب انہوں نے 2016 میں برطانیہ میں بننے والی تنظیم پاکستان اسرائیل الائنس میں شمولیت اختیار کی۔

اس تنظیم کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات شروع کرنے کے لیے کوششیں کرنا تھیں۔ کچھ عرصہ بعد ہی ختم ہو جانے والی اس تنظیم کی بنیاد پاکستانی نژاد برطانوی شہری نور ڈاہری نے رکھی تھی۔

نور ڈاہری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’وہ ہمارے ساتھ ایک سال تک رہے اور میرا اندازہ ہے کہ انہیں کوئی نفسیاتی مسئلہ ضرور تھا۔‘ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ڈیوڈ ایریل شہرت کے شوقین تھے۔ وہ دوسروں سے مختلف طریقے سے کام کرتے تھے اور اپنے لیے خطرات میں اضافہ کر رہے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ڈیوڈ ایریل کی بہت سارے اسرائیلی اور دوسرے یہودیوں سے جان پہچان ہوئی اور یہ سب کچھ ان کی تنظیم سے تعلق کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔

تاہم نور ڈاہری اس بات سے بے خبر ہیں کہ ڈیوڈ ایریل کے خیالات کس وجہ سے اور کب تبدیل ہوئے۔

ڈیوڈ ایریل سے انٹرویو کرنے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ شہاب احمد کا کہنا تھا: ’دراصل وہ یہودیوں سے بہت متاثر تھے اور پاکستان میں موجود یہودیوں سے ان کا سوشل میڈیا کے ذریعہ رابطہ تھا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈیوڈ ایریل ایک مختلف سوچ کے مالک ہیں، لیکن بظاہر ان میں کسی دماغی خرابی کی علامات موجود نہیں تھیں۔‘

ڈیوڈ ایریل اسرائیلی حکومت اور یہودیوں کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم کو سیاسی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔

احتجاج کے دوران خیمے پر سٹار آف ڈیوڈ کی موجودگی کی وضاحت کرتے ہوئے ڈیوڈ ایریل کا کہنا تھا کہ وہ ورلڈ سٹار آف ڈیوڈ نامی تنظیم کے بانی ہیں، جس کا نشان سٹار آف ڈیوڈ (ستارۂ داؤدی) ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’سٹار آف ڈیوڈ ایک پیغمبر کا نشان ہے اور میرا نام بھی ڈیوڈ ہے، اسی لیے میں نے اپنے کیمپ پر یہ لگا رکھا ہے۔‘

ڈیوڈ ایریل 2016 میں پاکستانی پارلیمنٹ کے متفقہ طور پر منظور کیے گئے پائیدار ترقیاتی اہداف (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یا ایس ڈی جیز) کے نفاذ کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔

وہ اپنی ویڈیوز میں کرونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لیے معاشرتی دوری کو اپنانے اور چہرے کو ماسک سے ڈھانپنے کی تلقین بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ڈیوڈ ایریل اور ان کے خیالات کی شدید مخالفت دیکھنے میں آئی اور اکثر لوگوں نے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے انہیں ’پاکستان دشمن‘ بھی قرار دیا۔

ڈیوڈ ایریل کے احتجاج کے دوران پاکستان یوتھ پارلیمنٹ کے رہنما شہیر سیالوی نے ان کے خیمے پر سے سٹار آف ڈیوڈ کا نشان بھی ہٹا دیا تھا۔

ٹوئٹر پر ڈیوڈ ایریل کے خلاف ایک ٹویٹ کے جواب میں اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر محمد حمزہ شفقات نے بتایا: ’انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے اور ہمیں ان کے پس منظر کا علم ہے۔ تشدد کو ہوا نہیں دینا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان