کرونا کے بارے میں ہماری سوچ دوسرے مسلم ممالک سے مختلف کیوں؟

غیر مسلم ممالک میں بھی مذہبی عبادت گاہیں عوام کے لیے مکمل طور پر بند ہیں۔ ان تمام سخت اقدامات کا مقصد انسانی جانوں کا تحفظ ہے۔ ان ممالک میں کسی طرح بھی عوام نے ان احکامات کی خلاف ورزی نہیں کی۔

(اے ایف پی)

کرونا وبا کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام مسلمان ممالک باقی دنیا کی طرح تقریبا ایک ہی حکمت عملی سے کام لے رہے ہیں۔

اس حکمت عملی کا مقصد طبی اداروں پر دباؤ کو کم کرنا اور مریضوں کی ہسپتالوں میں آمد کو زیادہ عرصے پر پھیلانا ہے تاکہ تمام مریضوں کو مناسب طبی سہولتیں مل سکیں اور ان کی صحت یابی کے لئے طبی عملہ مکمل توجہ دے سکے۔ یہ حکمت عملی چین میں کامیابی سے وبا کا مقابلہ کر سکی اور اس کا اہم پہلو شہروں کو مکمل طور پر بند کرنا تھا جس کی وجہ سے وبا کے تیزی سے پھیلنے کے خلاف مضبوط بند باندھا گیا۔

موجودہ حالات میں لاک ڈاؤن سے بہتر حکمت عملی ابھی تک کسی مسلمان رہنما کے ذہن میں نہیں آئی ہے۔ اسی لئے آپ کو سارے بڑے مسلمان ممالک اسی پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دے رہے ہیں۔ چاہے سعودی عرب ہو یا ترکی، یا ملیشیا، یا سب سے بڑا مسلمان ملک انڈونیشیا، انہوں نے شہریوں کے اجتماع پر چاہے وہ بازاروں میں ہوں یا مسجدوں میں، ان پر مکمل پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

مسلمانوں کی سب سے مقدس عبادت کی جگہ خانہ کعبہ تقریبا چھ ہفتوں سے عبادت و عمرہ کے لیے بند ہے اور خدشہ ہے کہ اس سال کرونا وبا کے خطرے کی وجہ سے شاید حج بھی نہ ہو سکے۔ ترکی میں تمام مساجد پر تالے لگا دیے گئے ہیں اور ریاست سختی سے ان احکامات پر عمل درآمد کرا رہی ہے۔

غیر مسلم ممالک میں بھی مذہبی عبادت گاہیں عوام کے لیے مکمل طور پر بند ہیں۔ ان تمام سخت اقدامات کا مقصد انسانی جانوں کا تحفظ ہے۔ ان ممالک میں کسی طرح بھی عوام نے ان احکامات کی خلاف ورزی نہیں کی اور کھلے دل سے عوام کی صحت اور ان کی فلاح کے ان اقدامات کو تسلیم کیا ہے اور ان پر عمل پیرا ہیں۔

لیکن ایک مسلمان ملک جس کا نام پاکستان ہے وہاں پر صورت حال قدرے مختلف ہے۔ یہاں پر ایسا لگ رہا ہے کہ نہ تو عوام کو اپنی جان کی اور صحت کی پروا ہے اور نہ ہی مذہبی رہنماؤں کی اکثریت کو اس وبا کی سنجیدگی اور اس سے جڑے ہوئے خطرات سے آگہی ہے۔ اور سب سے زیادہ تو وفاقی حکومت اس سلسلے میں گومگو کا شکار ہے اور قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔

اس بقائی خطرے سے نمٹنے کے لیے صحت کے شعبے سے وابستہ اہلکاروں کے لیے آسانی پیدا کرنے اور ان کی جانوں کو خطرات کم کرنے کی بجائے عوام، مذہبی رہنما اور وفاقی حکومت مل کر ان خطرات میں اضافہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس مجرمانہ غفلت کو دیکھتے ہوئے سارے ملک کے ڈاکٹروں کی تنظیمیں چیخ اٹھی ہیں اور یکسو ہو کر سخت لاک ڈاؤن کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ طبی اہلکاروں میں بڑھتی ہوئی انفیکشن اور اموات نے صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔

جب سے لاک ڈاون میں نرمی کی گئی ہے کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے جس کی وجہ سے 23 اور 25 اپریل کے تین دنوں میں تین ہزار کے قریب کرونا کے مریضوں میں اضافہ ہوا. قابل ذکر بات یہ ہے کہ کرونا کے پہلے ہزار مریض تقریبا ایک مہینے میں اس مرض میں مبتلا ہوئے. کراچی میں تین بڑے ہسپتالوں میں جہاں کرونا کے مریضوں کے لیے آئی سی یو کی سہولت ہے وہ تمام اس وقت مکمل گنجائش پر کام کر رہے ہیں اور مزید کسی قسم کے اضافے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔

حکومت ہسپتالوں کو بنیادی طبی سہولتیں مہیا کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں اور اگر مریضوں کی رفتار میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو کیا ہم مزید اموات کو روکنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟

یقینا کوئی ملک بھی اس بڑھتی ہوئی وبا کا طبی سہولتوں کے لحاظ سے مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس وبا کو پاکستان میں بڑھنے سے روکا جائے اور ڈاکٹروں کی لاک ڈاؤن سخت کرنے کی پکار پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان کے تقریبا 90 فیصد عوام کرونا وبا کی سنجیدگی اور اس کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں اور چاہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رہے مگر نو فیصد عوام کا خیال ہے کہ لاک ٹاؤن کی وجہ سے وہ اپنے روزگار سے محروم ہوگئے ہیں اور انہیں بھوک اور افلاس سے مرنے کا خطرہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت کو 90 فیصد عوام کے مقابلے میں نو فیصد عوام کی فلاح کے لیے سخت لاک ڈاؤن کی حکمت عملی سے اختلاف ہے۔ اور وہ اسی لیے سندھ حکومت کی لاک ڈاؤن کی پالیسی سے مسلسل اختلاف کرتی آئی ہے۔ وفاقی حکومت کے ترجمان سندھ حکومت کو مسلسل نشانے پر رکھے ہوئے ہیں اور اس مشکل وقت میں جبکہ قومی یکجہتی کی ضرورت ہے، ایک تسلسل سے سندھ حکومت کو ایک مخالف سمجھتے ہوئے ان کے وبا سے نبٹنے کے ہر قدم پر تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں۔

وفاقی حکومت کی حکمت عملی تضاد کا شکار اور سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک طرف تو وزیراعظم، یقینا کچھ طبی معلومات کی بنیاد پر، فرما رہے ہیں کہ مئی کا مہینہ بہت سخت ہو گا اور اس میں وبا کے بڑھنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں مگر اس کے ساتھ ہی لاک ڈاؤن میں نرمی کا عندیہ بھی دیتے ہیں۔ لاک ڈاؤن میں نرمی سے لوگوں میں میل جول بڑے گا اور سماجی فاصلہ کم سے کم ہوتا جائے گا جو اس وبا میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ مذہبی رہنماؤں کے دباؤ میں آ کر مسجدوں کو کھولنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ پاکستان میں لاکھوں مساجد ہیں۔ کیا حکومت ان تمام مساجد میں اپنے طے شدہ قواعد وضوابط کی عمل درآمد کا مشاہدہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعظم مزید فرماتے ہیں کہ ہم ایک آزاد معاشرہ ہیں اور ہم اس معاشرے میں مسجدوں کو بند نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری عوام تراویح کی نماز مسجد میں ادا کرنا چاہتے ہیں اور ہم انہیں کیسے روک سکتے ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا باقی دوسرے مسلمان ممالک آزاد معاشرے نہیں ہیں اور کیا ہم ان سے زیادہ مسلمان ہیں؟ اگر باقی مسلمان ممالک میں عوام اپنے گھروں میں تراویح پڑھ سکتے ہیں تو پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟

اپنے تضادات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم اپنی مسجدیں کھولنے کی پالیسی کو اموات بڑھنے کی صورت میں تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ آپ اگر طاقت سے اب مسجدیں بند نہیں کروا سکتے تو اموات کے بڑھنے کے بعد کون سی طاقت کا استعمال کریں گے؟

سیاسی رہنماؤں کی درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور بصیرت عموما بحرانوں میں کھل کر سامنے آتی ہے۔ کرونا بحران نے ہماری وفاقی حکومت کی صلاحیت اور بصیرت دونوں کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ وفاقی حکومت کی توجہ قومی یکجہتی پیدا کرنے کی بجائے اس وقت بھی اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے پر مرکوز ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کے تمام سیاسی اختلافات ختم کرتے ہوئے اس قومی مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی سطح پر ایک پالیسی بنائی جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔

کیونکہ وزیراعظم دیہاڑی دار طبقہ کی فلاح کی وجہ سے کسی قسم کا سخت لاک ڈاؤن کرنے کے خلاف ہیں تو انہیں ایسی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جس سے یہ طبقہ بھوک کا شکار نہ ہو۔ احساس پروگرام کے تحت اس طبقے کی مالی مدد ایک اچھا قدم ہے اور اسے مزید بڑھاتے ہوئے ان علاقوں میں جہاں اس طبقے کی اکثریت ہے وہاں پر مختلف فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر سوپ کچن یا موبائل کچن بنائے جائیں جہاں پر ان لوگوں کو مفت کھانا مل سکے۔ بہت ساری فلاحی تنظیمیں یہ کام پہلے سے ہی کر رہی ہیں اور اگر انہیں حکومتی امداد مل جائے تو ایک بہت بڑی تعداد کو کچھ ہفتوں کے لیے بھوک کا شکار ہونے سے بھی بچایا جا سکتا ہے اور اس وبا کا موثر مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس بڑے فلاحی کام کے لیے قیادتی صلاحیتوں اور تدبر کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے موجودہ وفاقی قیادت میں ناپید لگتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر