شہنشاہ اکبر اور عمران خان میں کیا بات مشترک ہے؟

بظاہر تو دونوں میں کوئی چیز مشترک نظر نہیں آتی، لیکن غور سے دیکھا جائے تو دونوں کو ایک جیسے چیلنجوں کا سامنا تھا۔

(عمران خان: ذوالفقار آذین، اکبر پبلک ڈومین)

مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں نماز تراویح سمیت رمضان المبارک کی سرگرمیاں معطل ہیں۔ مصر میں بھی مساجد بند ہیں اور ایران جہاں مذہبی قیادت ہے وہاں باجماعت نماز پر پابندی ہے۔ مگر پاکستان جہاں کرونا ایک بڑے خطرے کے طور پر موجود ہے مگر پھر بھی مساجد معمول کے مطابق کھلی ہیں۔

حکومت اور علما کے درمیان جو 20 نکات ہیں، بقول وزیراعظم اس سے بہتر درمیانی راستہ ممکن نہیں تھا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ’پتن‘ کے سروے کے مطابق 80 فیصد مساجد میں معاہدے کے نکات پر عمل نہیں کیا جا رہا، جس کا واضح مطلب ہے کہ پاکستان کی حکومت اس اتھارٹی سے محروم ہے جو سعودی عرب، ایران اور‘ مصر جیسی حکومتوں کو حاصل ہے۔

عمران خان حکومت اگر کسی سے حقیقتاً خائف ہے تو وہ علما اور مذہبی قیادت ہی ہے۔ عمران خان اور ان کے قریبی حلقے مساجد کو بند کرنا چاہتے تھے۔ ایک وزیر اپنے قریبی حلقوں میں یہ کہتے پائے گئے کہ اگر علما نہیں مانتے تو حکومت ان کے ساتھ ٹکر لے کر نیا مسئلہ نہیں کھڑا کرے گی۔ اگر مساجد سے کرونا پھیلتا ہے تو پھیلے، علما جانیں اور عوام جانیں۔

ان حالات میں ایک مولانا طارق جمیل ہی بچتے ہیں۔ جب وہ وزیراعظم کے روبرو ان کی ستائش کرتے ہیں تو وزیراعظم کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا ہے کیونکہ باقی تمام علما میں انہیں مولانا فضل الرحمٰن ہی دکھائی دیتا ہے۔
علما نے اگرچہ ہر دور اور ہر حکمران کے راستے میں روڑے اٹکائے ہیں لیکن جس خوبصورتی سے ان کے ساتھ جلال الدین اکبر نے نمٹا وہ کسی اور کا خاصا نہیں رہا۔

اکبر 14 سال کی عمر میں بادشاہ بنے تھے اس لیے ان کے آئیڈیل مخدوم الملک ہی تھے جن سے وہ بچپن میں درس لیتے تھے۔ دربار میں فقہ اور قانونی معاملات انہی کے سپرد تھے۔ اکبر ان پر بہت اعتماد کرتا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے بڑا مال و متاع جمع کر لیا، وہ عالمِ دین تھے مگر بادشاہ کی قربت نے انہیں قارون ثانی بنا دیا۔ جب ان کے گھر کی تلاشی لی گئی تو تین کروڑ نقد اور سونے کی اینٹیں ملیں جنہیں زمین میں دفنایا گیا تھا۔

انہوں نے زندگی میں ایک پائی زکوٰۃ ادا نہیں کی کیونکہ سال ختم ہونے سے پہلے ہی یہ اپنی جائیداد بیوی کے نام کر دیتے تھے۔ حج کے بارے میں ان کا فتویٰ تھا کہ یہ فرض نہیں رہا کیونکہ خشکی کے راستے شیعوں کی سرزمین ایران سے گزرنا پڑے گا اور سمندری راستے سے مگرمچھوں کا خطرہ ہے۔

اکبر شروع میں بڑا مذہبی تھا اس کے دربار میں حتمی رائے کا اختیار علما کو ہی حاصل تھا، مگر یہ علما بعض اوقات وہ اپنی نشستوں کی ترتیب پر جھگڑ پڑتے۔ اکبر نے تنگ آ کر دربار میں ہر ایک کی الگ نشست مخصوص کر دی۔ درباری علما مشرق میں، سید مغرب میں، علما جنوب میں اور شیخ شمال میں بٹھائے گئے۔ مگر پھر بھی وہ ایک دوسرے کے خلاف چیختے چلاتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک دن دربار میں تعدادِ ازدواج پر بحث ہو گئی۔ اکبر کی ا س وقت چار سے زائد بیویاں تھیں۔ علما نے کہا کہ چار کے سوا سب ناجائز ہیں اور ان سے جو اولاد ہوئی وہ بھی ناجائز ہے۔ اکبر بہت پریشان ہوا۔

ایک مولوی نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا۔ اس نے قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیا کہ ’دو اور دو، تین اور تین، چار اور چار شادیاں کرو۔‘ ان کی تاویل کے تحت اس کا مطلب ہوا 2+2+3+3+4+4: 18۔ اتنی کھینچا تانی تو اکبر بھی سمجھ گیا اور اس نے حنفی قاضی کو ہٹا کر مالکی قاضی مقرر کر دیا جس نے اس وقت متعہ کے بارے میں فتویٰ دے کر بادشاہ کی تمام شادیاں جائز قرار دے دیں۔

اکبر علما کے درمیان مختلف فقہی مسائل پر بحث مباحثہ بھی کرواتا رہتا تھا۔ مگر اس کے دربار کے دو بڑے عالم مخدوم الملک اور عبدالنبی ایک دوسرے کو کافر قرار دینے لگے جس کی وجہ سے دربار میں دو گروہ بن گئے۔ اکبر ان سے مایوس ہوا اور اس نے فیصلہ کیا کہ دربار میں دوسرے مذاہب کو بھی دعوت دی جائے۔ چنانچہ اس نے ہندو، بدھ، عیسائی، زرتشت اور دیگر مذاہب کے پیشواؤں کو بھی دعوت دی۔ اکبر ان کے سامنے سوالات رکھتا اور پھر فرداً فرداً ہر مذہب کے پیشوا سے اس کا جواب پوچھتا۔

اس نے محسوس کیا کہ ہر مذہب کے اندر مختلف فرقے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد آرا رکھتے ہیں۔ اکبر نے یہ بھی جان لیا کہ ہندوستان، جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے وہاں اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کیے جا سکتے۔ اکبر نے شیخ مبارک کو دربار میں بلایا اور کہا کہ ان مولویوں سے نجات دلانے کی ترکیب سوچو۔

شیخ مبارک نے کہا، ’مہابلی، اگر آپ مجتہد اور امام عادل کی حیثیت اختیار کر لیں اور علما سے اس کی توثیق کروا لیں تو پھر ان مولویوں کی خصوصی حیثیت ختم ہو جائے گی۔‘

چنانچہ اکبر نے دستاویز بنوائی اور تمام علما کے دستخط لے لیے جن میں مخدوم الملک اور عبدالنبی بھی شامل تھے۔ اب چونکہ کسی کی بااختیار حیثیت نہیں رہی تھی ا س لیے بادشاہ کی شان میں قصیدے پڑھے جانے لگے۔

ایک عالم شیخ آملی تو اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے ایک پرانی دستاویز دکھا کر یہ ثابت کرنا چاہا کہ 900 ہجری میں ایک شخص آئے گا جو تمام برائیوں کا خاتمہ کر دے گا اور وہ شخص اکبر اعظم ہی ہیں۔ خواجہ مولانا شیرازی نے ایک پمفلٹ لکھ کر اکبر کو امام مہدی قرار دے ڈالا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ اس کے بعد نوبت یہاں تک پہنچی کہ علما، مفتی اور قاضی بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے دربار اور شاہی پارٹیوں میں شراب تک پینے لگے۔ جب کچھ علما میں بےچینی پھیلی تو انہوں نے اکبر کے خلاف کفر کے فتوے لگا دیئے۔ اکبر نے کچھ کو قتل کروا دیا اور کچھ گرفتار کر لیے گئے۔

مخدوم الملک اور شیخ النبی سے چونکہ پرانا تعلق تھا اس لیے انہیں کہا کہ وہ حج پر چلے جائیں اور باقی زندگی وہیں گزاریں۔ لیکن وہ حج سے واپس آ گئے جس پر انہیں بھی قتل کروا دیا گیا۔ جن مولویوں کے بارے میں خیال تھا کہ وہ نہ فسادی ہیں نہ اس کے خلاف ہیں انہیں جاگیریں الاٹ کیں۔ اس کے بعد اکبر نے دربار میں علما کی بجائے دانشوروں سے مشورے لینے شروع کیے جن میں حکیم ابولافتح، حکیم حمام، حکیم علی، حکیم عین الملک اور شیخ فیضی ، بیربل، ٹوڈرمل، ابوالفضل اور ملا دو پیازہ جیسے صاحبان دانش شامل تھے۔ چنانچہ آج بھی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں پچھلے ایک ہزار سال میں اکبر جیسا بادشاہ نہیں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر کے ہندوستان کو مالی لحاظ سے وہی حیثیت حاصل تھی جو آج امریکہ کو ہے۔ اشوک کے بعد اعظم کا خطاب پانے والا وہ دوسرا ہندوستانی بادشاہ تھا۔

عمران خان اور جلال الدین اکبر میں اور کوئی مماثلت ہو نہ ہو ایک قدر ضرور مشترک ہے کہ اکبر کی طرح عمران خان بھی علما سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ عمران خان جب حلف نامے میں خاتم النبین کا تلفظ صحیح طریقے سے ادا نہیں کر سکے تھے تو ان کے مخالف علما نے ان کے عقیدے پر سوال اٹھا دیئے تھے۔ پھر جب انہوں نے اپنا معاشی مشیر ایک قادیانی کو رکھا تب بھی علما کے دباؤ پر وہ اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔

ان کے قریبی مشیر شہزاد اکبر پر بھی قادیانی ہونے کا الزام لگایا گیا حالانکہ وہ سنی العقیدہ ہیں۔ اس کے بعد سے عمران حکومت کو سمجھ لگ گئی کہ علما سے الجھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نورالحق قادری تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ اپنی ساری توانائیاں دوسرے وزرا کے بیانات کی وضاحتوں میں صرف کر رہے ہیں۔

حقیقت یہی ہے کہ عمران خان اکبر اعظم ہو سکتے ہیں نہ ہی آج کے حالات کو 16ویں صدی کے ہندوستان سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ قصہ مختصر کہ 22 کروڑ عوام کرونا کی صوابدید پر ہیں اور ان کے حکمران علما کے رحم و کرم پر ہیں۔ آج کے حکمران اکبر اعظم جیسے ہو سکتے ہیں نہ ہی ان کے مشیر اکبر کے نورتنوں جیسے ، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکبر کے دور کے علما میں اور آج کے علما میں کوئی فرق نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ