پی آئی اے اور یونینز کے درمیان نئی قانونی محاذ آرائی

پی آئی اے ملازمین کی تنظیموں نے انتظامیہ کی جانب سے تسلیم نہ کرنے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کر دیا۔

پی آئی اے انتظامیہ نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے سی بی اے کے علاوہ تمام یونینز کے ساتھ 'ورکنگ ریلیشن شپ' ختم کر دیا ہے(اے ایف پی)

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی جانب سے سی بی اے  (کلیکٹو بارگیننگ ایجنٹ) یونین کے علاوہ ملازمین کی تمام دیگر تنظیموں کے ساتھ 'ورکنگ ریلیشن شپ' ختم کرنے کے خلاف ان تنظیموں نے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پی آئی اے انتظامیہ نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے پاکستان ایئر لائن پائلٹ ایسوسی ایشن(پالپا)، سینیئر سٹاف ایسوسی ایشن(ایس ایس اے)، ایئر لائن ٹیکنالوجسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان(آٹاپ)، سوسائٹی آف ایئر کرافٹ انجینیئرز آف پاکستان(سیپ) اور پاکستان ایئر لائن کیبن کریو کے ساتھ 'ورکنگ ریلیشن شپ' ختم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ تنظیمیں پی آئی اے کے ساتھ کسی بھی حوالے سے مذاکرات نہیں کر سکیں گی۔

پالپا کے صدر کیپٹن چوہدری سلمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے  کہا کہ 'جب ہماری تنظیم نے پائلٹس کے لیے کرونا وائرس سے بچاؤ کا حفاظتی سامان یعنی پرسنل پروٹیکٹیو اکیوپمنٹ (پی پی اے) مانگا تو وہ سامان پورا کرنے کی بجائے تمام یونین کی قانونی حیثت ختم کردی گئی۔'

'پائلٹ 18 سے 22 گھنٹے تک کام کرتے رہے۔ پی آئی اے کے صرف دو طیاروں میں حفاظتی بنکر ہیں مگر اس کے باوجود ہم نے کبھی شکایت نہیں کی۔

'10 دن کی چھٹی بھی نہیں دی جارہی۔ ایسے حالات میں تنظیموں کی قانونی حیثیت ختم کردی گئی ہے، جس کے خلاف ہم عدالت میں جائیں گے۔'

انہوں نے بتایا: 'جب ہم نے حفاظتی سامان مانگا تو انتظامیہ نے کہا کہ آپ الاؤنس بڑھوانے اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے ایسا کہہ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'ہم کرونا وائرس جیسی آفت کے دور میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ڈاکٹر فرنٹ لائن پر کام کررہے ہیں تو ہم بھی کررہے ہیں۔ ہمیں بھی حفاظتی سامان ملنا چاہیے۔ ایسا مطالبہ تو پالپا نے کیا تھا تو پھر ساری تنظیموں کی حیثیت کیوں ختم کردی گئی۔؟'

دوسری جانب پی آئی اے ترجمان عبداللہ خان نے پالپا کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پائلٹس اور دوسرے عملے کو کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی سامان مہیا کردیا گیا تھا۔

'اٹھارویں ترمیم کے بعد صرف سی بی اے ہی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ باقی ساری تنظیمیں غیر قانونی ہو چکی ہیں کیوں کہ یہ تنظیمیں سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں اور اب یہ تنظیمیں صرف اپنے ارکان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر سکتی ہیں مگر ملازمین کی ترجمانی کرتے ہوئے پی آئی اے انتظامیہ سے بات نہیں کرسکتیں۔ اس لیے پی آئی اے نے ایسا فیصلہ کیا۔'

یہ سب تنظیمیں تو کئی سال سے کام کررہی ہیں تو پی آئی اے کو اب ان تنظیموں کے ساتھ 'ورکنگ ریلیشن شپ'  ختم کرنے کا خیال کیوں آیا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کئی تنظیمیں بن گئی ہیں اور ان کے بھی کئی گروپس ہوگئے ہیں۔

'ملازمین کے ٹرانسفر، پوسٹنگ ہو یا تنخواہوں کا معاملہ، یہ تنظیمیں کہتی تھیں کہ ہر کام کے لیے پہلے ان سے مشاورت کی جائے۔ ان تنظیموں نے کئی کیس بھی کیے ہوئے ہیں۔ اس وقت پی آئی اے خسارے میں جا رہی ہے اس لیے کچھ سخت فیصلے کرنے پڑے۔'

 سی بی اے یونین چھوٹے سکیل کے ملازموں کی تنظیم ہے۔ صرف گریڈ ایک سے چار تک کے ملازمین ہی سی بی اے کے رکن بن سکتے ہیں۔

پی آئی اے میں تقریباً 14 ہزار ملازمین میں سے گریڈ ایک سے چار کے صرف چھ ہزار ملازمین ہیں جب کہ پانج ہزار سینیئر افسروں اور پانچ سو پائلٹس سمیت بڑے گریڈ کے کل آٹھ ہزار ملازمین سی بی اے کے رکن نہیں بن سکتے۔

جب پی آئی اے ترجمان سے پوچھا گیا کہ سی بی اے ارکان کے علاوہ باقی ملازمیں کا اب کیا ہوگا اور ان کے مسائل کیسے حل ہوں گے تو ان کا کہنا تھا: 'یونین مزدوروں کے لیے ہوتی ہے۔ سینیئر افسر تو پہلے ہی مزے میں ہیں۔ باقی رہا سوال کہ ان کے مسائل کا کیا ہوگا تو اگر ان کو کوئی مسئلہ ہے تو وہ انفرادی طور پر انتظامیہ سے بات کریں یا پھر چار پانچ کا گروپ بنا کر بات کرسکتے ہیں۔'

سینیئر سٹاف ایسوسی ایشن(ایس ایس اے) کے سیکرٹری جنرل صفدر انجم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'اس وقت کرونا ایمرجنسی لگی ہوئی ہے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی سے وائرس سے بچاؤ کے لیے ایس او پیز پر عمل کروانے کی بجائے تنظیموں کی حیثیت ہی ختم کردی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

'یہ سب تنظیمیں قانونی طور پر رجسٹرڈ ہیں اور پچھلے 60 سال سے پی آئی اے کے ساتھ کام کررہی ہیں۔ ان تنظیموں نے ملازمین اور انتظامیہ کے درمیان اچھا ماحول قائم  کر رکھا تھا۔ اس طرح ان کی حیثیت ختم کرنا مارشل لائی فیصلہ ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ پی آئی اے نے سینیئر سٹاف ایسوسی ایشن(ایس ایس اے) کا آفس بھی بند کردیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان