مصر میں نیا تنازع: مردوں کے زیر جاموں کے اشتہار پر پابندی

اشتہار ناظرین میں اتنا مقبول ہوا کہ اس کے فیس بک پر جاری ہونے کے فوراً بعد ہی اسے اڑھائی لاکھ سے زیادہ ناظرین دیکھ چکے تھے۔ تاہم تقریباً 8000 افراد جنہوں نے ردعمل ظاہر کیا میں سے 5400 ’ناراض‘ تھے۔

عبد الفتاح السیسی مشرقی مصر میں ایک فوجی اڈے کا دورہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ان لوگوں کے لیے جو عرب دنیا کے ٹیلی ویژن اور مشہور رمضان سیریز کو دیکھتے ہیں، ميس عبد الجبار ہمدان سليم جو مس ہمدان کے نام سے زیادہ جانی جاتی ہیں، ایک جانا پہچانا چہرہ ہیں۔

پچھلی ایک دہائی سے 37 سالہ اردنی اداکارہ عرب دنیا میں سب سے زیادہ مقبول رہی ہیں اور انہوں نے ’نوف‘ اور ’شی مین المازی‘ (ماضی کی کچھ چیزیں) جیسی سیریز میں کام کیا ہے۔ تاہم ان کی آخری ٹی وی پیشکش ایک مختصر اشتہار تھا جس کے چلنے کے دو دن بعد ہی اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ تھا مردوں کے زیرجاموں (انڈرویئر) کا ایک اشتہار۔

مس ہمدان کا جرم یہ ہے کہ اس مقبول اور پرکشش اشتہار میں وہ پڑوسی کے بیٹے کو دوربین سے دیکھتی ہیں اور گانے میں اس کے ’پٹھوں، طاقت اور مردانگی‘ کی تعریف کرتی ہیں۔ یہ اشتہار ناظرین میں اتنا مقبول تھا کہ اس کے فیس بک پر جاری ہونے کے فوراً بعد ہی اسے اڑھائی لاکھ سے زیادہ ناظرین دیکھ چکے تھے۔ تقریباً 8000 افراد جنہوں نے ردعمل ظاہر کیا، میں سے 5400 ’ناراض‘ تھے۔ قاہرہ کی سڑکوں پر چلنے والی خواتین کی مردوں کے ہاتھوں توہین اور تعاقب معمول کی بات ہے لیکن ایک عرب عورت ’ہمسائے کے لڑکے‘ کی تعریف نہیں کر سکتی ہے۔

احتجاج اتنا شدید تھا کہ دو دن کی نشریات کے بعد کپمنی 'کاٹن نل' نے اشتہار روک دیا اور ایک بیان میں کہا: ’ہمیشہ کی طرح، ہم اپنے ناظرین کے ذوق کا خیال رکھتے ہیں اور مصر میں اس تنازع کے خاتمے کے لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس اشتہار کو تمام سیٹلائٹ چینلز پر روک دیا جائے۔‘

(سکرین گریب)


تاہم مصر کے سرکاری ادارے قانونی چارہ جوئی اور سزا کے خواہاں ہیں۔ صارفین کے تحفظ کے ادارے نے اس اشتہار پر پابندی عائد کر دی کیونکہ اس کے بقول ’یہ معاشرتی آداب، روایات اور عوامی اخلاقیات کی توہین ہے۔' یہ بھی کہا گیا کہ اس اشتہار نے صارف کی تحفظ کے قانون، اشتہاری قوانین اور مصری فوجداری قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

مردوں کے زیر جاموں کے اس متنازع اشتہار کا تعلق مشہور کمپنی کاٹن نل سے ہے، جو کئی سالوں سے اپنے پرکشش اشتہارات کے لیے مشہور ہے۔

سال 2016 کے رمضان میں اس کمپنی کے اشتہارات کے ساتھ ساتھ کئی دیگر کمپنیوں جیسے ڈیری ڈیری، ڈیزی انڈرویئر اور الاحرام ڈرنک پر ’مصری روایات، رسم و رواج اور عوامی اخلاق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا۔‘

اس سے قبل 2014 کے ماہ رمضان میں مصر کے مشہور مزاح نگار ہانی رمضی کے کاٹن نل کے لیے ایک اشتہار کو سوشل میڈیا پر حملوں کے بعد ہٹا دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر روئی بول سکتی تو اس کی زبان مصری ہوگی۔‘

مصر ایک طویل عرصے سے باقی دنیا کے لیے روئی کا ایک بہت بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اس کمپنی کو مقامی روئی سے اپنی مصنوعات تیار کرنے پر فخر ہے۔ عربی میں ’کتن‘ کا مطلب روئی ہے اور اس طرح اسے انگریزی میں ’کاٹن‘ کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔ کاٹن نل کی بنیاد 1999 میں شامی کاروباری شخصیت باسل سماکیہ نے رکھی تھی اور گذشتہ دو دہائیوں سے نہ صرف مصر بلکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک میں بھی ایک مشہور کمپنی بن چکی ہے۔

پریشان اراکین پارلیمان

مصری پارلیمنٹ کے کچھ ممبران، جن کے پاس لوگوں کے حقوق دبانے جیسے اہم معاملات پر کہنے کو کچھ نہیں ہے، وہ کھڑے ہو کر اس اشتہار کے خلاف آواز اٹھانے لگے ہیں۔

ایک مشہور مصری قبطی عیسائی جان طلت نے کہا: ’اس اشتہار کا مواد عوامی اخلاقیات اور قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ کسی کے اخلاق کو نقصان پہنچانے پر بھی قانون کسی کو سزا دیے سکتا ہے اور یہ اشتہار ہر گھنٹے لاکھوں افراد دیکھتے ہیں اور اس میں غیراخلاقی الفاظ شامل ہیں۔ آئندہ ایسے اشتہاروں کو روکنے کے لیے قانون پر سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیے۔‘

مصری قانون کے تحت ’غیر اخلاقی‘ رویے کے نتیجے میں چھ ماہ قید کی سزا اور تقریباً 20 ہزار روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔

کچھ خواتین قانون سازوں نے بھی اس اشتہار کی مخالفت کی ہے۔ مثال کے طور پر مائی محمود نے، جو اس سے قبل پارلیمنٹ کے کچھ اراکین کے خواتین کے خلاف بیانات پر ڈٹ گئی تھیں، جان طلعت کے ساتھ شامل ہوگئیں۔ انہوں نے کہا: ’اس اشتہار کو روکنا ضروری ہے کیونکہ یہ مصری عوام کی روایات اور اخلاقیات کے مطابق نہیں ہے۔‘

مس محمود نے مزید کہا: ’خاص طور پر ملک کی کرونا وائرس کی وجہ سے موجودہ صورت حال میں اس اشتہار سے شہریوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔‘

دیگر ممالک کی طرح مصر نے بھی کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے بڑے عوامی اجتماعات اور نائٹ کلبوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ مس محمود نے کاٹن نل سے جرمانے کا مطالبہ بھی کیا۔

کچھ سوشل میڈیا صارفین نے بھی ان اراکین کے قدامت پسندانہ موقف کے ساتھ خود کو منسلک کیا۔ مصطفیٰ سعد نامی صارف نے ٹوئٹر پر لکھا: ’اس اشتہار کو ہراساں کرنے، جنس پرستی یا مرد برادری کی مخالفت کیوں نہیں سمجھا جاتا ہے، جو اس اشتہار میں گوشت کے ٹکڑے کی طرح پیش کیا جاتا ہے؟‘

ایک اور صارف نے لکھا: ’یہ کس طرح کا اشتہار ہے؟ کیا میری بیٹی کے لیے اپنے بوائے فرینڈ کے شارٹس اور انڈرویئر کے بارے میں بات کرنا ٹھیک ہے؟‘

سیسی دور میں معاشرتی قدامت پسندی

اگرچہ انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا ہی سیسی حکومت کا اصل مقصد اور اس کی آمریت کا جواز رہا ہے، لیکن ہم نے اس دور میں معاشرتی قدامت پسندی اور جبر میں اضافہ دیکھا ہے۔ درحقیقت، پچھلی کچھ دہائیوں کے دوران مصری معاشرے میں قدامت پرستی کا عروج (جو لبنانی مصنفہ کم گیٹاس کی حالیہ کتاب ’دی بلیک ووئو‘ کا موضوع ہے) غیرموثر نہیں رہا ہے۔

میس ہمدان اس سے پہلے بھی کئی بار اس مسئلے میں الجھی ہیں۔ مثال کے طور پر نومبر 2018 میں جب وہ ایک ہالووین پارٹی کی اپنی تصاویر سے ناراض ہوگئیں۔ ان تصاویر میں وہ سیاہ چمڑے کی چولی پہنے ہوئے تھیں۔

حالیہ دنوں میں چند اراکین پارلیمنٹ نے ایک اور معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور وہ ہے انسٹاگرام اور ٹِک ٹاک جیسے نیٹ ورک پر خواتین کی موجودگی۔

حنین حصام نامی ایک 20 سالہ لڑکی کو، جن کے دونوں نیٹ ورکس پر تقریباً 10 لاکھ فالوورز ہیں، حال ہی میں آن لائن ویڈیوز شائع کرکے خواتین کو پیسہ کمانے کی ترغیب دینے کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ مصری اداکارہ اور ڈانسر سما المصری کو بھی انٹرنیٹ پر ’نامناسب‘ تصاویر اور ویڈیوز‘ ڈالنے کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ یہ دونوں 15 دن جیل میں قید کاٹ رہی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ المصری سیسی کی واضح حمایت کے لیے جانی جاتی ہیں۔


اس واقعے کے بعد رکن پارلیمان طلعت نے وزیر اعظم سے شکایت کی اور انٹرنیٹ کے ’غیراخلاقی اور غیرمناسب‘ استعمال پر سنسرشپ کا مطالبہ کیا۔ یہ مسیحی نمائندہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عرب دنیا میں معاشرتی قدامت پسندی نہ صرف اسلام پسندوں بلکہ چند مسیحیوں کی وجہ سے بھی ہے۔

کچھ ماہ قبل، انہوں نے نیٹ فلیکس پر جاری ہونے والی مزاحیہ ’دا فرسٹ ٹیمپٹیشن آف جیسس‘ پر تنقید کرکے شہ سرخیاں بنائیں۔ ایک برازیلی کمپنی کی یہ پیشکش حصرت عیسیٰ کو ہم جنس پرست تعلقات میں ظاہر کرتی ہے۔ مسٹر طلعت نے مصری پارلیمنٹ میں اس فلم کے خلاف بات کرتے ہوئے بین الاقوامی معاہدے کا مطالبہ کیا جس کے تحت انبیا کی کسی توہین کو ممنوع قرار دیا جائے گا۔

سال 2018 میں مصر نے سائبر کرائم سے متعلق ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت حکومت کو انٹرنیٹ پر سنسرشپ اور مواصلات کی نگرانی پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔

انسٹاگرام پر ایک ویڈیو میں مس حصام نے کہا کہ نوجوان لڑکیاں ’لائکی‘ جیسے پلیٹ فارم استعمال کرکے ویڈیو کلپس کے ذریعے 3000 ڈالر تک کما سکتی ہیں۔

مس حصام قاہرہ یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کی طالبہ ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے نہ صرف ان کی حمایت نہیں کی بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ وہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرے گی، جس میں یونیورسٹی سے اخراج بھی شامل ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گرفتاری سے قبل حصام نے اپنے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے انسٹاگرام پر لکھا: ’مشہور شخصیات اپنے کام کے لیے لائیو ویڈیو پلے بیک سافٹ ویئر بھی استعمال کرتی ہیں۔ کیا ان کا کام بھی جسم فروشی سمجھا جاتا ہے؟‘

مس المصری پر جنسی ویڈیوز پوسٹ کرنے کا الزام ہے۔ انہوں نے کسی غلط کام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ویڈیوز ان کے فون سے چوری ہوچکے ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر انہیں شیئر کیا گیا ہے۔ انڈپینڈنٹ فارسی نے ان نام نہاد ’متنازع‘ ویڈیوز میں سے چند دیکھیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سوشل نیٹ ورک پر کوئی غیرمعمولی نہیں تھیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ المصری سیسی کی واضح حمایت کے لیے جانی جاتی ہیں۔ مصر میں محمد مرسی کی حکمرانی کے دوران وہ یوٹیوب پر ان ویڈیوز کے لیے مشہور ہوئیں جن میں انہوں نے اخوان المسلمون اور اس وقت کی حکومت کو چیلنج کیا تھا۔ اس سے قبل فلم ’علی واحدیہ ون ناس‘ (2011) میں ان پر خواتین صحافیوں کی جنسی تصویر پیش کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ الازہر کے حکام نے فلم کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا اور مصر کی صحافیوں کی یونین نے احتجاج بھی کیا تھا۔ آخر کار یہ فلم ایک ایسے وقت میں سینسر کی گئی، جب مصری انقلاب نے پابندیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

مصر میں خواتین کے حقوق کی کارکن غدیر احمد نے ان گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کے ’کرپٹ قوانین‘ اور مصری خواتین پر بڑھتے ہوئے سماجی دباؤ کی وجہ سے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں، کئی مصری فنکاروں اور خواتین کو اسی طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اداکارہ رانیہ یوسف پر قاہرہ فلم فیسٹیول میں اپنے لباس کی وجہ سے 2018 میں تنقید کی گئی تھی۔

بلاشبہ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے والے اس علاقے تک ہی محدود نہیں ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گذشتہ اتوار ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ مصر میں صحافت پچھلے چار سالوں میں ایک جرم بن چکی ہے۔ اس رپورٹ میں ہم نے تقریباً 37 صحافیوں کے بارے میں پڑھا جو پچھلے چند سالوں میں قید ہوئے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی