کاش دنیا بالی وڈ کی فارمولا فلموں کی طرح سیدھی سادی ہوتی!

لاک ڈاؤن کے دوران بالی وڈ کی پرانی فلمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ فلمیں چند گنے چنے فارمولوں پر چلتی ہیں جو حقیقت سے خاصی دور واقع ہوئے ہیں۔

امر اکبر انتھونی اپنے زمانے کی بلاک بسٹر فلم تھی (من موہن ڈیسائی)

لاک ڈاؤن اور پھر گھر میں محصور رہتے ہوئے دنیا جہاں کی تفریحات میں سر کھپانے کے بعد ہر چیز سے دل بھر گیا۔ اب ایسے میں فلموں کے رسیا ہمارے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ یار کچھ نہیں کررہے تو 70 سے 90 کی دہائی کی فلمیں دیکھو اچھا وقت گزر جائے گا۔

موصوف کا دعویٰ تھا کہ اُس دور میں ایسی فلمیں تخلیق ہوتی تھیں‘ جن میں واقعی متاثر کن کہانیاں، اداکاروں کی دل کو چھو لینے والی فنکاری اور اُس پر موسیقی کا بھی اعلیٰ ذوق دیکھنے اور سننے کو ملتا۔ مشورہ معقول لگا۔ جبھی آن لائن فلموں کی ویب سائٹ پر جا کر کوئی دو درجن سے زیادہ فلمیں ڈان لوڈ کر ڈالیں۔ اب ہم تھے اور بالی وڈ کی وہ فلمیں جو کسی زمانے میں دھوم مچا چکی تھیں۔

ہفتہ بھر دل کھول کر ان کا نظارہ کیا۔ کہیں امیتابھ بچن تو کہیں رشی کپور تو کہیں گووندا تو کہیں جتندر تو جناب کہیں متھن چکرورتی، کہیں کوئی اور، ولن صاحبان کو نانی، دادی، پھوپھی سب کو یاد کراتے نظر آئے، کہیں جذبات اور کہیں احساسات تو کہیں پیار و محبت اور ظالم سماج کی بلند دیواریں، بارہ مسالے کی بھرپور چاٹ جسے مختلف روپ دے کر خوب بیچا گیا۔
 ن فلموں میں ہیروئن بے چاری کا بس یہ کام نظر آیا کہ جہاں ہیرو گھبرائے تو وہ اپنی اداؤں اور رقص سے اس کا اور فلم بینوں کے ’بلند فشار خون‘ کو تھوڑا نیچے لانے میں اپنے جوہر دکھاتی۔ درحقیقت وہ یہی پیغام دیتی کہ ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔‘

البتہ اُسے گھبرانے کے لیے ولن ہی کافی ہوتا۔ ہیروئن کو اغوا کرانا، رسیوں سے باندھ کر رکھنا اور اس کی عزت سے کھلواڑ، ولن کے آئین کے اہم نکات لگے۔ اسی طرح ہیرو کی بہن کا ہونا، اور پھر ولن کے ہاتھوں اغوا ہونا بھی ضروری تھا، ورنہ پھر کیسے ہیرو کو غیرت آتی۔
 ان فلموں میں ’کھونے اور پانے‘ کا فارمولا بھی کیا خوب لگا۔ کمبھ کا میلہ وہ مقام ہوتا جہاں ہیرو کی ماں دنیا کے جھمیلوں میں اس قدر گم ہو جاتی ہے کہ اپنے بچوں کو ہی گم کر دیتی۔ اور یہ کام نیروپا رائے جیسی ماں کے ذمے لگایا جاتا جو بحسن خوبی مصنف کے لکھے ہوئے سکرین پلے کے ساتھ انصاف کرتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب بچھڑے ہوؤں کو ملانے کے لیے یا تو کلائی پر یا کمر پر کوئی نشانی ضرور رکھوائی جاتی یا پھر کوئی اہم شے، جسے دیکھ کر کسی اور کی تصدیق نہیں رہتی۔ بیشتر فلموں میں ایسے بچوں کے لیے ’خاندانی نغمے‘ کی شق بھی ہوتی جو کوئی ایک بچہ بڑا ہو کر گنگناتا تو دوسرے کو بنا ’پاس ورڈ‘ کے وائی فائی کے سگنلز کے طرح یہ پتہ چل جاتا ہے یہ تو اس کا ’خاندانی نیٹ ورک‘ ہے۔ بچپن میں کھوئے ہوئے اس بھائی یا بہن کا کوئی ڈی این اے نہیں ہوتا۔ بس یہی ’خاندانی ترانہ ‘ تصدیقی عمل کا مرحلہ آسان کرتا اور لاپروا ماں پر کوئی ’فرد جرم‘ عائد نہیں کی جاتی۔

یہ فلمی مائیں بھی بڑی عجیب ہوتیں، جو یا تو لوگوں کے گھروں کے چھوٹے موٹے کام کرتی ہیں یا پھر سلائی مشین پر کم زور بینائی کے ساتھ کپڑے سیتی ہیں۔ جنہیں اعتراض ہے کہ سلائی مشین چلا کر کوئی امیر نہیں بن سکتا۔ تو جناب ان فلموں کا نظارہ ضرور کر لیں۔ اس دکھیاری اور غم زدہ ماں کی آنکھوں میں ایک ہی سپنا ہوتا ہے کہ بیٹا بس بڑا ہو جائے، اور جناب بچے کو جوان ہونے کے لیے کچھ زیادہ پاپڑ بیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس جب بھی کیمرا سائیکل یا تانگے کے پہیے پر فوکس کر لے، یہ اس کی نشانی ہے کہ ریشماں یا راجو چند لمحوں کے اندر اندر جواں ہو گئی ہے یا ہو گیا ہے۔
جائیداد ہتھیانے کے لیے چچا، سوتیلا بھائی، اور بعض دفعہ سوتیلی ماں بھی گاڑی کے بریک فیل کرنے میں کسی ’نامعلوم مکینک‘ سے مدد لیتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پورا ’ٹبر‘ ہمیشہ کسی پرفضا مقام سے واپسی پر موت کی راہ پر نکل پڑتا۔ جن میں کوئی ایک بچہ، جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے کے مصداق کسی غریب آدمی کی کٹیا میں پرورش پاتا اور کلائمکس سے ذرا پہلے اسے کوئی پرانا ملازم ڈرامائی اندا ز میں ملتا جو اُسے بتاتا کہ اس کے ممی ڈیڈی پر کیا قیامت ٹوٹی تھی۔ جس کے بعد ’نو دولتیا ہیرو‘ چن چن کر بدلہ لیتا۔

ان فلموں کو دیکھنے کے بعد یہ سمجھ نہیں آیا کہ چھپ چھپ کر دشمنوں کی باتیں سننے والا کوئی نیک دل انسان جو عام طور پر وفا دار ملازم ہوتا، آخر اتنا لاپروا کیوں ہوتا ہے کہ کبھی کوئی چیز گرا بیٹھتا ہے تو کبھی دروزے پر بوجھ ڈال کراسے کھول دیتا ہے، تو کبھی چھینک کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ جس کے بعد ولن اسے موت کے گھاٹ اتار کر ’چشم دید گواہ‘ کاقصہ ہی تمام کر دیتا ہے۔

ولن پر یاد آیا کہ اس کے تہہ خانے یا اڈے پر اس کے پیچھے کھڑے ہوئے اُس کے ساتھی اس قدر بھیانک لگنے کے بجائے مسخرے زیادہ لگتے لیں۔ یہ لمبی لمبی مونچھیں، کھچڑی زدہ بال، سخت گرمی میں چمڑے کی جیکٹیں اور اس پر بڑے بڑے رنگین چشمے۔ اب جو ولن اپنے ساتھیوں کی حجامت پر غور نہیں کرے گا اس کی حجامت پھر ہیرو تو بنائے گا نا!
دشمن کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہونے پر آخر متعلقہ فرد مصلحتاً خاموش کیوں نہیں رہتا۔ کیوں چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ اب وہ دنیا کو بتائے گا۔وہ یہ بھی تو کہہ سکتا ہوں کہ ’میں نہیں بتاؤں گا۔‘ اسی اکھڑپن اور ضد کی وجہ سے ولن کے ہاتھوں وہ خود دنیا سے اٹھ جاتا ہے۔

 یہی نہیں جناب، انتقام کے شعلے جب بھڑکتے ہیں تو ہیرو، ہیروئن اور یار دوست روپ دھار کر ولن کے سامنے رقص کرتے ہیں۔ کہیں تو ہیروز بار بار گیت میں اپنی پہچان ’امر اکبر انتھونی‘ تک گنگنا کر بتاتے لیکن شاطر انہ چالیں چلنے والے ولن بھیا پھر بھی انجان بنے رہتے۔ ہیرو کے ساتھ ایک مسخرے نما دوست کا ہونا بھی لازمی تھا ہے جس کی دوستی جوانی سے کلائمکس تک رہتی ہے۔
اگر کسی فلم میں ہیرو ہیروئن کے ساتھ ایک اور ہیروئن یا پھر ہیرو ہوں تو سمجھ جائیں ان دکھیاروں کا کلائمکس میں مرنا اٹل ہے۔ وہ بھی اُس وقت جب ولن بندوق تان کر ہیرو کا نشانہ لے گا اور یہ سائیڈ ہیرو یا ہیروئن ولن کو دھکا دینے کے بجائے ہیرو کو پرے دھکیل کر یہ گولی خود سینے پر کھاتے ہیں اور دوستی کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ اور اگر یہ کام سائیڈ ہیروئن کرتی تو وہ مرتے مرتے یہ ضرور بتاتی جاتی کہ ہیرو جی یہ گولی ترے پیار میں کھائی ہے۔ اب اگر دو دوست ایک ہی محبوبہ کے دیوانے ہوتے اور غلطی سے انکشاف ہو جاتا تو کوئی ایک قربانی کے لیے تیار رہتا۔

یہ بھی پتہ چلا کہ ان فلموں ہیروئن تو تو نوخیز کلی ہونا چاہیے، البتہ ہیرو صاحب کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے، ہیروئن کی والدہ کی عمر والے ہیرو بھی لہک لہک کر یہ گاتے نظر آئے گا، ’ممی نے تیری مجھے چائے پر بلایا ہے۔‘

ان فلموں کا سب سے دلچسپ منظر تو ہمیں وہ لگا جب پولیس مارپیٹ کے بعد سب سے اینڈ میں آتی یا پھر اُس وقت جب ولن اپنے بھیانک مقاصد کو پورا کرنے والا ہوتا تو لگا یہی کہ پولیس اپنی بھاری نفری سمیت کہیں قریب ہی بیٹھی اپنی انٹری کے انتظار میں تھی۔

دہرے کردار والی فلموں میں پتہ نہیں کیوں ایک اللہ میاں کی گائے ہوتا تو دوسرا ’فال گائے‘ دونوں کسی نہ کسی طرح اپنی لوکیشن تبدیل کر ہی لیتے۔

ڈرامائی موڑ تو بہت ہیں جن پر باقاعدہ کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ان فلموں کی ’فارمولا کہانیاں‘ بس تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ کسی بھی دوسری فلم کا موضوع بن سکتی ہیں۔

یہ فلمیں دیکھتے دیکھتے سوچا، اگر اُس زمانے کے فلم ساز حالیہ کرونا بحران پر اسی طرح کی فارمولا فلم بناتے تو کیا کرتے؟ دو بھائی کمبھ کے میلے پر بچھڑ گئے۔ ایک ولن بن گیا دوسرا ڈاکٹر۔ ولن نے دنیا کو تباہ کرنے کے لیے وائرس بنایا، بھائی نے تریاق تیار کیا۔ ہیروئن کو کرونا ہو گیا، لیکن اس تک تریاق نہیں پہنچ پاتا کیوں کہ وہ ولن کے تہہ خانے میں قید ہے۔

ڈاکٹر بھائی بڑی مشکل سے تہہ خانے تک پہنچ جاتا ہے، لیکن اسے ولن کے گماشتے پکڑ کر باندھ لیتے ہیں۔ اس دوران ڈاکٹر اپنا خاندانی گیت گاتا ہے، جس سے ولن کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، اور وہ اپنے بھائی کو پہچان کو نہ صرف ہیروئن کو کھول کر اس کے حوالے کر دیتا ہے بلکہ اپنے کرتوتوں پر شرمسار ہو کر وائرس کو ختم کرنے کا راز بھی اس کے حوالے کر کے مر جاتا ہے۔

کاش دنیا اتنی سیدھی اور سادی ہوتی جتنی 70 کی دہائی کی ان فلموں میں دکھائی جاتی ہے!

زیادہ پڑھی جانے والی فلم