حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان ڈاکٹر نے خودکشی کیوں کی؟

ڈاکٹر طاہر نے موت سے قبل خود کو کس دوا کا انجیکشن لگایا تھا اور کیا انہیں کرونا وائرس تھا ؟

(پکسابے)

سوموار کے روز حیدرآباد کے لیاقت ہسپتال میں کام کرنے والے ستائیس سالہ ڈاکٹر طاہر المانی کی وفات کی خبر سامنے آئی، تاہم اس وقت یہ بات واضح نہیں تھی کہ موت کس وجہ سے ہوئی ہے۔

ڈاکٹر طاہر کا تعلق سندھ کے سونو محمد المانی گاؤں سے تھا جو سندھ کے ٹنڈو محمد خان دسٹرکٹ میں واقع ہے۔ ڈاکٹر طاہر المانی گریڈ سترہ پر لیاقت یونیورسٹی ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں اینستھیٹسٹ (یعنی مریضوں کی قبل از آپریشن بےہوشی میں فرائض سرانجام دینے والے ڈاکٹر) تھے۔

’طاہر انتہائی محنتی ڈاکٹر تھا۔ اس کی اچانک موت نے ہم سب کو تشویش میں ڈال دیا۔ وہ اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا اور اس کی تین چھوٹی بہنیں ہیں۔ طاہر کے والد بھی ڈاکٹر تھے مگر اب ذیادہ تر بیمار رہتے ہیں۔ شروع میں گھروالوں نے شرمندگی کے باعث لوگوں سے یہ بات چھپائی کہ طاہر نے خودکشی کی تھی۔‘ یہ کہنا تھا ڈاکٹر طاہر کے کزن فضل المانی کا۔

موت کی وجہ کیا تھی اور کیسے سامنے آئی؟

ڈاکٹر طاہر کی وفات کی خبر سامنے آنے کے اگلے دن ڈاکٹرز کی ایک تنظیم ینگ ڈاکٹرز ایسوسیشن کے دو نمائندے ان کی رہائش گاہ پر معلومات حاصل کرنے گئے۔ اس وفد میں ڈاکٹر فیضان میمن اور ڈاکٹر غفران میمن شامل تھے۔

گھروالوں سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر طاہر نے خودکشی کی تھی۔ جس کمرے سے ڈاکٹر طاہر کی لاش برامد ہوئی وہاں ان کے پاس سے ایک خالی انجیکشن بھی ملا۔ ان کے سیدھے ہاتھ کی کلائی کٹی ہوئی تھی اور دوسرے زخموں کے نشان بھی تھے۔

 

’طاہر انتہائی حساس طبعیت کا مالک تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوجاتا تھا۔ میرے لیے یہ کسی صدمے سے کم نہیں ہے کہ ہمارے خاندان کے اتنے لائق بیٹے نے اپنی جان لے لی۔‘ یہ کہنا تھا طاہر کے کزن فضل المانی تھا۔

انہوں نے موت کی وجوہات کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ ’طاہر کچھ دنوں سے کافی پریشان تھا۔ اس نے اپنی موت سے پندرہ دن پہلے بھی خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی کلائی پر چوٹ کے نشان بھی ہیں لیکن اس وقت شکر ہے وہ بچ گیا۔ اس بار اس نے پھر سے کوشش کی تو زندگی نے اسے دوسرا موقع نہیں دیا۔ طاہر کی باتوں سے اکثر لگتا تھا کہ اسے ڈپریشن ہے۔ اس کے علاوہ طاہر کو یہ خدشہ بھی تھا کہ اسے کرونا وائرس ہے، لیکن وہ اس ڈر سے ٹیسٹ نہیں کرواتا تھا کہ کہیں اس کا ٹیسٹ پازیٹو نا آجائے۔‘

ڈاکٹر طاہر کے کزن فضل کے مطابق ان کے بھائی نے پندرہ دن پہلے ہسپتال سے استعفیٰ بھی دیا تھا لیکن وہ قبول نہیں ہوا۔ اس وجہ سے انہوں نے ہسپتال سے سات دن کی چھٹی لے لی تھی اور اس دوران وہ گھر میں ہی تھے لیکن خاموشی سے اپنے کمرے میں ہی رہتے تھے۔

طاہر کے گھر جانے والے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے وفد میں شامل ڈاکٹر فیضان جو طاہر کے ساتھی ڈاکٹر اور اچھے دوست بھی ہیں، نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے ڈاکٹر طاہر کو کرونا وائرس ہو اور انہوں نے سماجی دباؤ کے باعث سب سے یہ بات چھپائی ہو کیوں کے ان کی تین چھوٹی بہنیں بھی ہیں اور والدین بوڑھے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ روز قبل ہی لیاقت ہسپتال کے ڈاکٹرز کی جانب سے پی پی ایز کی عدم فراہمی کے باعث ڈاکٹروں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا تھا جن میں ڈاکٹر طاہر بھی شامل تھے۔ اس کے بعد بھی حفاظتی سامان کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ڈاکٹر طاہر بھی اکثر بغیر حفاظتی سامان کے بغیر اپنی ڈیوٹی کرتے تھے۔ اس وجہ اب تک لیاقت ہسپتال حیدرآباد کے ہیلتھ ورکرز میں کرونا کے دس کیسز بھی سامنے آچکے ہیں۔

ہم نے جب ڈاکٹر فیضان سے پوچھا کہ کیا یہ بات سامنے آئی کہ ڈاکٹر طاہر نے موت سے قبل خود کو کس دوا کا انجیکشن لگایا تھا اور کیا انہیں کرونا وائرس تھا ؟

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ذاتی طور پر ڈاکٹر طاہر کے والدین سے یہ بات پوچھی تھی مگر ان کا کہنا تھا کہ طاہر کے کمرے سے انہیں دوا کی کوئی شیشی نہیں ملی، صرف ایک خالی سرنج ملی تھی۔ میں نے ان کے والدین سے فورنسک جانچ کے لئے جب سرنج مانگی تو انہوں نے کہا کہ سرنج پھینک دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ طاہر کے انتقال کے بعد ان کے گھروالوں نے باڈی کا پوسٹ مارٹم کروانے سے بھی انکار کردیا۔‘

 اگر پوسٹ مارٹم ہوتا تو نہ صرف یہ بات سامنے آجاتی کہ ڈاکٹر طاہر کو کرونا وائرس تھا یا نہیں بلکہ یہ بھی کہ انہوں نے موت سے قبل خود کو کس دوا کا انجیکشن لگایا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان