'حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی لائے بغیر غریبوں کی مدد کر سکتی تھی'

ماہرین کے خیال میں حکومت کے پاس لاک ڈاؤن کے دوران غریب عوام کی مدد کے لیے وسائل موجود ہیں، ضرورت انہیں درست استعمال کرنے کی ہے۔

راولپنڈی کے راجہ بازار میں لاک ڈاؤن کے باوجود رش دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو قوم سے خطاب میں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ محدود وسائل کے باعث حکومت لاک ڈاؤن کے دوران معاشی طور پر کمزور طبقات کی بھرپور مدد کرنے سے قاصر ہے۔

حکومت نے اسی بنا پر لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد پاکستان کو کرونا (کورونا) وائرس کے کیسز میں تیزی آنے کے باوجود لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے۔

ماہرین پاکستان تحریک انصاف حکومت کے لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ڈاکٹر اور ماہرین صحت ملک میں کرونا وائرس کے کیسز کے بڑھتے ہوئے رجحان کے دوران لاک ڈاؤن میں نرمی کو خطرناک قرار دے رہے ہیں۔

دوسری طرف ماہرین اقتصادیات کے خیال میں حکومت کے لیے موجودہ ملکی وسائل کو عقل مندی سے استعمال کر کے لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں کی مدد کرنا ممکن ہے۔  

عمران خان کی مختلف رائے

وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ سخت قسم کے لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ مزدور طبقے، دھیاڑی دار ہنر مند  اور غیر ہنر مند افراد، چھوٹے تاجروں اور کاروبار کرنے والوں کی مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔

انہوں نے بار ہا تسلیم کیا کہ حکومت لاک ڈاؤن کی صورت میں کم آمدنی والے پاکستانیوں کو گھروں تک محدود کر کے ان کی مالی امداد نہیں کر سکتی۔

صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتوں سمیت تمام وفاقی اکائیاں بھی لاک ڈاؤن میں سختی کی حمایت اور اسے لاگو کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں۔

تاہم عمران خان صوبائی وزرا اعلیٰ کو لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اور اسی لیے جمعرات کو قومی رابطہ کمیٹی نے مزید کاروباری و معاشی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دی۔

پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے موجودہ صورت حال پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس ابھی تک کرونا وبا سے لڑنے کے لیے کوئی قومی ایکشن پلان نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے کوغلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک پاکستان میں بھوک سے کوئی نہیں مرا، لیکن کرونا وائرس نے کئی جانیں لے لی ہیں۔

'اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مہلک وبا پر قابو پانے کے لیے لاک ڈاؤن ہی واحد حل اور علاج ہے۔'

لاہور میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے سابق سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کا کہنا تھا: 'میں بغیر کسی ابہام کے پاکستان میں تباہی کا تصور کر رہا ہوں۔ ویکسین کی غیر موجودگی میں کرونا وائرس کا مقابلہ صرف لاک ڈاؤن سے ہی کیا جا سکتا ہے۔' 

سینیئر صحافی ذیشان حیدر نے کہا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے میں عمران خان کے لیے بہت بڑا رسک ہے۔ 'اگر کرونا وائرس کنٹرول ہو جاتا ہے تو حکومت اس کا کریڈٹ لے گی اور اگر حالات خراب ہوتے ہیں تو یہ ان کے لیے بڑے سیاسی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مثبت کیسز کی تعداد میں اضافہ اور لاک ڈاون میں نرمی ان کے لیے واقعی عجیب بات ہے۔

پاکستان میں کرونا وائرس

پاکستان میں مئی کے پہلے ہفتے کے دوران کرونا وائرس کی وبا میں کافی تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور روزانہ ریکارڈ ہونے والے مثبت کیسز کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ 

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق یکم سے سات مئی کے دوران ملک بھر میں مجموعی طور پر 9020 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ جس کا مطلب ہے کہ ان دنوں میں ہر روز اوسطاً 1288 نئے کیسز سامنے آئے۔ 

دوسری طرف 15 سے 30 اپریل کے دوران مجموعی طور پر 10832 افراد میں مہلک وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ یعنی ہر روز اوسطاً 722 لوگوں میں کرونا وائرس دریافت ہوا تھا۔

مئی کے پہلے سات دنوں کے دوران پاکستان میں کرونا وائرس کی وجہ سے مجموعی طور پر 177 اموات واقع ہوئیں۔

وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر فیصل سلطان گذشتہ ہفتے کے دوران کیسز میں اضافے کی وجہ ٹیسٹوں کی تعداد میں اضافے کو قرار دیتے ہیں۔

پاکستان میں کرونا کے کل مثبت افراد کی تعداد 27 ہزار کے ہندسے کی طرف بڑھ رہی ہے جبکہ تقریباً 300 اموات بھی ہو چکی ہیں۔

دنیا میں لاک ڈاؤنز کا رجحان

اس وقت دنیا میں 200 سے زیادہ ملک کرونا وبا سے متاثر ہو چکے ہیں اور کرہ ارض کی ایک تہائی آبادی لاک ڈاؤن میں زندگی گزار رہی ہے۔  ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا بھر میں تین ارب لوگ پابندیوں میں جی رہے ہیں۔ 

لاک ڈاؤنز کی وجہ سے مجموعی طور پر دنیا میں معاشی اور کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور ان مسائل سے امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک بھی بچ نہیں سکے۔

اکثر ریاستی اور حکومتی سربراہ لاک ڈاؤنز کی وجہ سے اپنی عوام کو پیش آنے والے مسائل اور مشکلات کا ذکر اور ان پر افسوس کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ تاہم کسی ملک نے خاص وقت سے پہلے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان نہیں کیا۔

گذشتہ دو ہفتوں کے دوران بعض ملکوں نے لاک ڈاؤنز میں نرمی کرنا شروع کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان انہی ملکوں کی مثالیں دیتے ہوئے اپنے لاک ڈاؤن مخالف بیانیے کی حمایت کرتے ہیں۔

تاہم ماہرین کے خیال میں جن ممالک میں نرمیاں کی گئیں وہاں لاک ڈاؤنز ہی کے ذریعے پہلے کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی تعداد کو کم کیا گیا۔

ذیشان حیدر کہتے ہیں: 'آپ کو دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ملے گا جہاں کرونا وائرس کے کیسز کا گراف سیدھا (سٹریٹ) ہوئے بغیر نرمی کی گئی ہو۔'

ماہرین لاک ڈاؤن کے نفاذ اور اس میں نرمی سے متعلق اٹلی کو ٹیسٹ کیس کے طور پر پیش کرتے ہیں، جہاں دو ماہ کے سخت لاک ڈاؤن کے بعد کرونا کیسز میں کمی ہوئی۔

اب وہاں شہریوں کی نقل و حرکت اور کاروباری و معاشی سرگرمیوں پر پابندیاں مرحلہ وار ہٹائی جا رہی ہیں۔

بھارت میں دنیا کا سب سے بڑا لاک ڈاؤن نافذ ہے، جس میں 1.3 ارب لوگوں کو ان کے گھروں تک محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی لاک ڈاؤن کے باعث پہنچنے والی تکالیف کی عوام سے معافی بھی مانگ چکے ہیں۔ تاہم انہوں نے حال ہی میں لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کا اضافہ کیا ہے۔

بعض ملکوں خصوصاً افریقہ میں عوام کو گھروں تک محدود رکھنے کی خاطر کرفیو بھی لگائے گئے ہیں۔ خلیجی ممالک میں اب بھی رات کو کرفیو نافذ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح سخت لاک ڈاؤن تو ہوا ہی نہیں، یہاں تو پہلے دو ہفتوں کے دوران بھی پابندیوں کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔

ان کے خیال میں ایسا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بیانیوں میں فرق کے باعث ہوا۔ 'اس وقت دنیا کے تمام لیڈر اسی طرح کی صورت حال سے نبرد آزما ہیں۔ انہوں نے روزگار اور زندگی میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے اور یہی لیڈر کا امتحان ہوتا ہے۔'

متبادل معاشی حل

ماہرین معاشیات وسائل کی کمی کی آڑ میں لاک ڈاؤن میں نرمی کو برا فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ اکثر ماہرین کے خیال میں حکومت کے پاس لاک ڈاؤن کے دوران غریب عوام کی مدد کے لیے وسائل موجود ہیں، ضرورت انہیں درست استعمال کرنے کی ہے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے مطابق شرح سود کو مزید کم کر کے حکومت جون جولائی تک چودہ سے پندرہ سو ارب روپے کی اضافی رقم حاصل کر سکتی ہے۔

اسی طرح انہوں نے کہا کہ ترقیاتی کاموں پر بھی کٹ لگا کر ایک بڑی رقم بچائی جا سکتی ہے۔ 'جو منصوبے ابھی شروع نہیں ہوئے یا جو ابتدائی مراحل میں ہیں ان کے فنڈز غریبوں کی امداد کی طرف موڑ دیےجائیں۔'

ایک اور اقتصادی ماہر کا کہنا تھا کہ پی ایس ڈی پی اور صوبائی اے ڈی پیز پر کٹ لگا کر حکومت آسانی سے 900 سے 1000 ارب روپے کی بچت کر سکتی ہے۔

تاہم احسن اقبال نے کہا کہ ترقیاتی کام روکنے سے ملک میں مزید بے روزگاری پیدا ہو گی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات میں کمی کر کے احساس کفالت پروگرام کے حجم کو مزید بڑا کر سکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان