خیبر پختونخوا میں لاک ڈاؤن: انتظامیہ کبھی نرمی، کبھی سختی کرتی ہے

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور اور دیگر اضلاع میں کرونا وبا اور لاک ڈاؤن کی مجموعی صورتحال کا مختصر جائزہ۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں دوسرے صوبوں کی نسبت کرونا (کورونا) وبا کی وجہ سے اموات کی شرح سب سے زیادہ یعنی پانچ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

پنجاب اور سندھ میں یہ شرح دو فیصد جبکہ بلوچستان، گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں ایک فیصد ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں نہ صرف شرح اموات زیادہ ہے بلکہ اس صوبے میں شرح صحت یابی بھی کافی سست رفتار ہے، جس کے لیے محکمہ صحت اور طبی ماہرین مختلف جواز وجوہات پیش کر رہے ہیں۔

کرونا وائرس کے اعدادو شمار رکھنے والی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں کُل کیسز کی تعداد 3،956 ہے، جن میں غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف کل (آٹھ مئی) کو 371 نئے کیسز کا اضافہ ہوا۔

صرف پشاور کے مختلف علاقوں میں مثبت کیسز سامنے آنے کے بعد اس وقت تک 25علاقوں کا لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ محکمہ پولیس اور فوج نے مل کر 50 مقامات پر ناکے لگا رکھے ہیں تاکہ عوام پر رہیں۔

خیبر پختونخوا کا ایک طبقہ صوبائی حکومت پر تنقید کر رہا ہے کہ صوبے میں کرونا وائرس سے زیادہ ہلاکتوں کے باوجود ٹیسٹس کی استعداد پنجاب کے مقابلے میں کم ہے۔

تاہم وزیرصحت تیمور جھگڑا کا کہنا ہے کہ پنجاب اور کراچی پشاور کے مقابلے میں کافی بڑے معاشی مراکز ہیں اور ان کے پاس پہلے ہی بڑی بڑی لیبارٹریاں تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ کووڈ۔19 کیسز کی تعداد اس لیے بڑھ رہی ہے کہ عوام سماجی فاصلہ رکھنے کے اصولوں پر عمل نہیں کر رہے یا پھر بروقت علامات ظاہر ہونے پر ہیلپ لائن پر رجوع نہیں کرتے۔

ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکثر مریض غلط بیانی سے کام لیتے ہیں، جو بعد میں ڈاکٹروں سمیت ہر کسی کے لیے خطرے کا باعث بنتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کی حکومت، پولیس اور فوج مل کر صوبے میں مستعدی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ تاہم دیہات میں صبح سے شام تک دکانیں اور بازار کھلے ہیں اور لوگوں کا کافی ہجوم رہتا ہے۔

دیہاتوں میں چونکہ کرونا وائرس کا اثر شہروں کی طرح زیادہ نہیں لہٰذا لوگوں میں آج کل یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ کرونا وبا ایک جھوٹ اور سازش ہے۔

خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں انتظامیہ اور پولیس بھی کبھی نرم اور کبھی سخت رویہ اپناتی ہے، جس کی وجہ سے عوام کھلے عام سماجی فاصلے کو نظر انداز کرتے نظر آرہے ہیں۔

اگر پشاور کی بات کریں تو وبا کے شروع کے 15، 20 دنوں تک شہریوں نے احتیاط کی اور گھروں سے باہر نہیں نکلے لیکن آہستہ آہستہ اب وہ گھروں سے باہر نکلنا شروع ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے پشاور کی تمام بڑی شاہراہوں پر آج کل خوب رش دیکھا جا سکتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے آج (نو مئی) سے لاک ڈاؤن میں مزید نرمی لانے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ اس بیان سے پہلے صوبوں اور وفاق کے درمیان اختلاف رائے پایا جارہا تھا، لیکن اب متفق رائے سے صوبوں میں آج سے مختلف کاروبار مرحل وار کھولے جائیں گے، جس کے بعد صوبے میں کرونا کیسز کی تعداد میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔ 

حکومت پاکستان نے تمام تعلیمی ادارے 15جولائی تک بند رکھنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جس پر پشاور یونیورسٹی کے بعض پروفیسروں نے کہا کہ صرف پروموٹ کرنا ہی مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ طلبہ کو تعلیم بھی دینا ہے۔

ان اساتذہ کا کہنا ہے کہ بعض طلبہ ایسے ہیں جو اگر پروموٹ ہوجائیں تو وہ مختلف مضامین میں آگے جانا چاہیں گے۔ تو کیا ایسے طلبہ کی پڑھائی کی رک جائے گی؟ اور اس حوالے سے حکومت کیا لائحہ عمل اپنائے گی؟

اساتذہ کا کہنا ہے کہ جہاں دیگر مقامات کو کھولا جا رہا ہے ہیں وہیں تعلیمی اداروں کو بھی کھول دیا جائے۔ اس کے لیے سماجی فاصلہ رکھنے کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خاص تعداد میں طلبہ کو کلاس میں بٹھایا جا سکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت