مہمند میں پاکستانی فوج کا ترقیاتی منصوبہ: وسیع و عریض جدید سکول

شدت پسندوں نے اس ضلع کے سکولوں کا نصاب شریعت کے خلاف قرار دیتے ہوئے 80 کے قریب سکولوں کو بموں سے اڑا دیا تھا، جس کے نتیجے میں ہزاروں بچے تعلیم جاری رکھنے سے محروم ہو چکے تھے، تام اب تعمیر نو جاری ہے۔

سکول کے موجودہ پرنسپل عنایت اللہ کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ سکول میٹرک تک تعلیم فراہم کرے گا اور اسے مستقبل میں ہائیر سیکنڈری سکول کا درجہ دیا جائے گا۔ (تصاویر: انڈپینڈنٹ اردو)

قبائلی ضلع مہمند کے تاریخی مقام ناکئی پاس سے گزرتے ہوئے کندھارو ڈاگ کے علاقے میں واقع مہمند ماڈل سکول اس ضلع کا سب سے پہلا اورجدید سکول ہے جو شدت پسندوں کے دور کے بعد وجود میں آیا ہے، کیونکہ اس وقت علاقے کے سکولوں کو بموں سے اڑا دیا گیا تھا۔

29 ایکڑ اراضی پر محیط یہ سکول ایسی جگہ آباد ہے، جہاں حلیم زئی، پنڈیالی، اتمان خیل، مٹھئی موسیٰ خیل اور برہان خیل سمیت آس پاس کے تمام قصبوں اور قبیلوں کی رسائی ممکن ہے۔

ناکئی پاس اور کندھارو  ڈاگ کا علاقہ تاریخی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں 1935 میں مشہور شخصیت حاجی ترنگزی کی سرپرستی میں مہمند قبائل انگریزوں کے خلاف معرکہ آرا ہوئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جہاں اس جنگ میں سینکڑوں قبائلی ہلاک ہوئے وہیں انگریزوں کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

ضلع مہمند  بنجر ڈھلوانوں اور پہاڑوں پر مشتمل دشوار گزار علاقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے اکثر مکین  تنگ آکر میدانی علاقوں کا رخ کیا کرتے تھے۔ بعد کے وقتوں میں یہاں سے نقل مکانی کرنے والے لوگ شدت پسندوں کے ہاتھ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

اس تمام نقل مکانی کے باوجود ضلع مہمند کی موجودہ آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق چار لاکھ 66 ہزار 984 افراد پر مشتمل ہے۔

شدت پسندوں نے اس ضلع کے سکولوں کا نصاب شریعت کے خلاف قرار دیتے ہوئے 80 کے قریب سکولوں کو بموں سے اڑا دیا تھا اور نتیجتاً ہزاروں بچے تعلیم جاری رکھنے سے محروم ہوگئے تھے۔

جب یہاں حالات معمول پر آئے تو پاکستانی فوج نے اس ضلع میں تعمیر و ترقی کا کام شروع کیا۔ ان ہی منصوبوں میں سے ایک مہمند ماڈل سکول بھی ہے۔ 

یہ سکول موجودہ وقت میں مہمند رائفلز کے دائرہ اختیار میں ہے، تاہم فرنٹئیر کور نارتھ (ایف سی نارتھ) کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بہت جلد وہ اس تعلیمی ادارے کو سول ایڈمنسٹریشن کے حوالے کر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مہمند ماڈل سکول فوج کی جانب سے اس ضلع کے عوام کے لیے ایک تحفہ ہے جو سہولیات اور نظام تعلیم کے  لحاظ سے ضلع مہمند کی تاریخ کا پہلا تعلیمی ادارہ ہے۔

سکول کے موجودہ پرنسپل عنایت اللہ کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ سکول میٹرک تک تعلیم فراہم کرے گا اور اسے مستقبل میں ہائیر سیکنڈری سکول کا درجہ دیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا: ’اس کا نصاب خیبر پختونخوا کے دیگر سرکاری سکولوں کی طرح ہے۔  پی سی ون کے مطابق عملے کے 36 افراد کی تقرری کی منظوری ہوچکی ہے جبکہ دور دراز کے اساتذہ کے لیے سکول کے اندر بہترین ہاسٹل کی سہولت بھی موجود ہے۔‘

کرونا لاک ڈاؤن سے پہلے کیے گئے دورے کے دوران یہ بات مشاہدے میں آئی کہ ضلع مہمند کے بچوں کے لیے اس سکول میں وہ تمام سہولیات بھی موجود ہیں جو خیبر پختونخوا کے بیشتر سرکاری سکولوں میں نہیں۔ یہ سکول کسی بھی نئے تعمیر شدہ کیڈٹ کالج سے زیادہ مختلف نہیں لگ رہا تھا۔ کمروں کی ساخت، راہداریاں، فرنیچر اور کلاس رومز  انتہائی معیاری اور صاف ستھرے تھے۔

یہاں بچوں کے لیے ایک بہت بڑی لائبریری کا بھی انتظام ہے، جبکہ سائنس کے تجربات کے لیے بنائی گئی لیب بھی جدید آلات سے مزین اور متاثر کن ہے۔

سکول کے منتظمین نے بتایا کہ فی الوقت تقریباً 500 طلبہ یہاں زیر تعلیم ہیں اور مستقبل میں اس تعداد کو ایک ہزار تک بڑھایا جائے گا۔

سکول کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ سکول پورے ضلع مہمند میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا سکول ہے جو صرف ساخت کے لحاظ سے نہیں بلکہ نظام تعلیم کے لحاظ سے بھی ماضی اور حال کے تمام سکولوں پر سبقت لے گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہمند میں بسنے والے لوگ اپنے بچوں کے لیے اس سکول کو پہلی ترجیح دیتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس