نسل در نسل ذہنی انتشار کا شکار کشمیری نوجوان سمت کی تلاش میں 

انڈین میڈیا نے ڈاکٹر شاہ فیصل کو دوسرا شیخ عبداللہ قرار دیا ہے جو کشمیر کو بھارت کے اور قریب لانا چاہتا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے سابق بیوروکریٹ  شاہ فیصل  17 مارچ 2019  کوسری نگر میں نئی سیاسی جماعت  کا اجرا کرتے ہوئے۔ (تصویر: روئٹرز)

کشمیری نوجوان خود کو ایک ایسے چوراہے پر محسوس کر رہے ہیں جہاں انہیں اپنی منزل نہ صرف بہت دور نظر آرہی ہے بلکہ اپنی زندگی اتنی بےمعنی لگنے لگی ہے کہ وہ آئے دن موت کو ترجیح دے کر بندوق برداروں کی صف میں شامل ہو رہے ہیں۔

یہی وجہ کہ چند برسوں میں کشمیر کے انتہائی پڑھے لکھے نوجوان بھارت کی حکمرانی کے خلاف بندوق اٹھا رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ بغیر تربیت اور اسلحہ کے وہ بھارتی فوج کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور ان کی موت اٹل ہے۔ 

ریاست جموں وکشمیر کی تقریبا سوا کروڑ آبادی میں 30 فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے۔ بیشتر پڑھے لکھے ہیں اور اکثر سرکاری نوکریوں کو ہی ترجیح دیتے آ رہے ہیں۔ مگر ریاستی سطح پر اس وقت تقریباً پانچ لاکھ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بےروزگار ہیں، معیشت بری طرح متاثر ہوچکی ہے، سرکاری نوکریاں نایاب ہیں اور نجی شعبے کو کبھی پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

گذشتہ سات دہایوں سے جاری سیاسی بدحالی اور مسلح تحریک کی وجہ سے سب سے زیادہ کشمیری نوجوان بھارتی فوجی عتاب اور عذاب سے گزر رہے ہیں۔ گوکہ نوجوانوں نے سنہ 47 کے بعد کئی بار بھارتی آئین کے تحت ریاستی انتخابات میں حصے دار بننے کی کوشش بھی کی جن میں متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یاسین ملک بھی شامل رہے ہیں لیکن بھارت نے ہر مرتبہ ایسے نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بناکر نہ صرف سرکاری ایوانوں سے دور رکھا بلکہ بندوق اٹھانے پر بارہا مجبور بھی کر دیا۔ 
1987 میں نوجوانوں نے مسلم یونائٹڈ فرنٹ بنا کر بھارتی آئین کے تحت ریاستی انتخابات میں حصے دار بننے کی کوشش کی لیکن حکومت بھارت نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد کے حق میں انتخابی دھاندلی کر کے بعض نوجوان رہنماؤں کو پابند سلاسل کر دیا جس کے نتیجے میں نوجوانوں نے مسلح تحریک شروع کر دی جو اب تک جاری ہے اور جس کی بیشتر آبادی  کھل کر حمایت بھی کرتی آ رہی ہے۔

 نوجوانوں کو اس وقت ایک امید کی کرن نظر آئی تھی جب شیخ عبداللہ کے پوتے عمر عبداللہ نے 2009 میں بحثیت وزیراعلی ریاست کی باگ ڈور سنبھالی۔ کشمیری نوجوان کو لگا کہ کہ عمر عبداللہ اپنے دادا شیخ عبداللہ کی سیاسی غلطیوں کو درست کر کے ریاستی عوام کو باوقار اور محفوظ زندگی گزارنے کا عہد پورا کروانے میں کوشاں رہیں گے مگر ان کے دور حکومت میں 120 معصوم بچوں کی سکیورٹی افواج کے ہاتھوں ہلاکت سے وادی پھر تشدد کی لپیٹ میں آگئی اور عوام خصوصاً نوجوانوں کا اعتبار متزلزل ہو گیا۔

2014 میں محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے نوجوانوں کو انتخابی مہم میں شامل کرکے یقین دلایا کہ وہ ریاست میں نوجوانوں کے لے سازگار حالات پیدا کر کے انہیں ہر فیصلہ سازی میں شریک کرے گی لیکن نتائج کے بعد پارٹی نے ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر کے مرکزی جماعتوں کے خلاف نفرت اور غصے کو اورگہرا کر دیا جس میں اس وقت شدت پیدا ہوئی جب 2016 میں کشمیری نوجوانوں میں ہردلعزیز بندوق بردار برہان وانی کو ایک فوجی مقابلے کے دوران ہلاک کیا گیا۔

برہان کی ہلاکت کے بعد پڑھے لکھے اور اعلی عہدوں پر تعینات نوجوانوں نے بندوق اٹھائی اور بھارت مخالف کارروائیاں ہر طرف دوبارہ شروع ہوگئیں۔ نتیجہ یہ کہ بھارت نواز سیاست دانوں کو ایک بار پھر اپنے گھروں میں قید رہنا پڑا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تقریبا ایک دہائی پہلے کشمیری نوجوان ڈاکٹر شاہ فیصل نے بھارت کے سول سروسز امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو بندوق چھوڑ کر اپنی ذہانت دکھانے کی جانب مائل کر دیا اور بعض آزادی پسند لوگوں نے اسے بھارت کی سازش سے تعبیر کرکے کہا تھا کہ فیصل کا سہارا لے کر بھارت کشمیری نوجوانوں کو مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کر رہا ہے البتہ نوجوانوں میں کچھ کر دکھانے کی تڑپ تیز ہوگئی اور ہر سال بھارتی سول سروسز میں درجن بھر کشمیری نوجوان بھی کامیاب فہرست میں شامل ہوتے گئے۔ 

شاہ فیصل نے چند ماہ پہلے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاج میں اعلیٰ عہدے سے استعفیٰ دے کر سیاست میں حصہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس کا خیرمقدم کیا اور انہیں آزادی کی تحریک میں شمولیت کا مشورہ دیا۔ مرکزی جماعتوں نے انہیں اپنی پارٹی میں آنے کی دعوت دی مگر انہوں نے دونوں طبقوں کو مسترد کر کے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا اور آزادی کی بجائے مرکزی دھارے کی سیاست چلانے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت اور ریاست کے مابین اہم پل بننے کا کردار ادا کریں گے۔ آزادی پسند نوجوانوں نے فیصل کا فیصلہ ناپسند کیا۔

شاہ فیصل نے اگرچہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان  اور دلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال کی سیاست سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا مگر بھارتی آئین کے تحت عوام کو بنیادی حقوق اور سہولیات دینے کا ان کا وعدہ کشمیری نوجوان کو ہضم نہیں ہوا۔ پیپلز موومنٹ کے نام سے جماعت کا اعلان کرتے ہوے فیصل نے نوجوانوں کو یقین دلایا کہ وہ روزگار کے وسائل پیدا کریں گے, رشوت اور خاندانی راج کا خاتمہ کریں گے تاہم کشمیری نوجوانوں میں یہ سوچ گہری ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے بغیر کوئی اقدام کارگر  ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔                            

انڈین میڈیا نے فصیل کو دوسرا شیخ عبداللہ قرار دیا جو کشمیر کو بھارت کے اور قریب لانا چاہتا ہے جبکہ بھارت نے بقول تجزیہ نگار کشمیر مخالف پالیسی اختیار کرکے کشمیری نوجوانوں میں نہ صرف نفرت کا جذبہ مزید گہرا کر دیا ہے بلکہ انہیں آزادی کی تحریک کے لیے عالمی سطح پر متحرک ہونے پر مجبور بھی کردیا ہے اور وہ بھارت کی کشمیریوں کو مینسٹریم میں ڈالنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے پر بضد نظر آرہے ہیں۔

کشمیر میں سیاسی انتشار کشمیری نوجوانوں کی نسل در نسل ذہنی انتشار کا شکارکر رہا ہے اور انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔                                          

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ