ضلع کرم کا پہلا خواتین پولیس سینٹر اور صوفیہ نیکسن

ضلع کرم میں لوگوں کو مسیحی پولیس خاتون اہلکار پر نہیں البتہ پشتون خواتین اہلکاروں پر ضرور اعتراض ہے۔

ضلع کرم کے بعض ناراض  لوگ خواتین پولیس سینٹر کو تالے لگوانے اور بند کروانے کے درپے ہیں(تصویر: انیلا خالد)

حالات یوں بھی بدلیں گے، انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اچھے وقتوں میں بیتے دنوں کے غم اور مشکلات یاد کرنے میں ایک الگ لطف ہے۔ صوفیہ نیکسن چہک رہی تھیں اور بتاتی جا رہی تھیں۔

’اب ایک منفرد احساس ہوتا ہے۔  دل خوش ہو جاتا ہے کہ ہاں اب ہماری بھی کوئی اہمیت ہے۔ اب مجھے میلوں پیدل نہیں چلنا پڑتا بلکہ دفتر کی گاڑی لینے آتی ہے، یہی نہیں بلکہ تنخواہ بھی بڑھ گئی ہے۔‘

صوفیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پچھلے آٹھ سال سے ضلع کرم کے علاقے پاڑہ چنار میں ایک لیویز اہلکار کے طور پر ایک چیک پوسٹ پر ڈیوٹی سرانجام دیتی آرہی تھیں، جس کے لیے گاڑی کی سہولت میسر نہ ہونے کے سبب انہیں میلوں پیدل چلنا پڑتا تھا۔

صوفیہ نے بتایا کہ جس طرح چیک پوسٹ پر ایک خاتون کا ہونا لازمی تھا تاکہ ایسے معاملات جن میں ایک خاتون کی ضرورت پڑتی ہے، وہ ان سے باآسانی کروائے جائیں، اسی طرح پولیس سینٹر میں بھی اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کو تعینات کیا گیا ہے۔

قبائلی اضلاع  کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد لیویز اور خاصہ دار فورس کو خیبر پختونخوا پولیس میں ضم کرنے کی تجویز سامنے آئی۔ خاصہ داروں اور لیویز اہلکاروں کے مطابق انہوں نے پوری عمر ملک و قوم کی خدمت کی ہے لہٰذا اب جب قبائلی اضلاع میں باقاعدہ پولیس لانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تو انہیں نظرانداز کرنا ناانصافی کے مترادف ہوگا۔  بالآخر ان کے حق میں فیصلہ ہوا اور یہ لوگ باقاعدہ طور پر پولیس میں ضم کرلیے گئے۔

اس صورت حال کے بعد یہ  لازمی ہوگیا تھا کہ خواتین کے مسائل اور معاملات کے لیے خواتین پولیس اہلکاروں اور افسران کی تقرری کی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضلع کرم کے ضلعی پولیس افسر قریش خان کے مطابق یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ گھریلو تشدد اور خواتین سے متعلق دوسرے واقعات کسی بھی دوسرے علاقے کی طرح ضلع کرم میں بھی جنم لے رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ گھریلو خواتین عموماً شکایت درج نہیں کرواتیں  کیونکہ وہ مردوں کے سامنے کھل کر بتانے سے ہچکچاتی ہیں۔

ضلع کرم میں خواتین پولیس سینٹر کے قیام سے خاص طور پر خواتین میں حیرت و مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔  یہ سینٹر نہ صرف کرم بلکہ قبائلی اضلاع کی تاریخ کا بھی پہلا ویمن پولیس رپورٹنگ سینٹر ہے۔

صوفیہ کے مطابق اس وقت ان کے دفتر میں ضلع کرم کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی سات خواتین کام کر رہی ہیں، ان میں سے چار مسلمان اور تین مسیحی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بطور سینٹر انچارج شکایت کنندہ خواتین کے مسائل سننا ان کا کام ہے جب کہ ایف آئی آر درج کرنے کے لیے ان کے دفتر میں ایک مرد محرر کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔

صوفیہ نے بتایا کہ ابھی انہیں کام سیکھنا پڑ رہا ہے، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ خواتین عملہ خود اس قابل ہو جائے گا کہ وہ دفتر کے تمام امور سنبھال لے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مزید خواتین کی بھرتیاں بھی جاری ہیں۔

ضلع کرم کے مسیحی خاندان سے تعلق رکھنے والی صوفیہ اس پولیس سینٹر کی فی الحال واحد اور پہلی میٹرک پاس خاتون اہلکار ہیں۔

اگرچہ سینٹر کے قیام کے فیصلے کو ملک بھر میں کافی سراہا جارہا ہے لیکن کرم کے بعض لوگ اس حد تک ناراض ہیں کہ وہ سینٹر کو تالے لگوانے اور بند کروانے کے درپے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں خواتین پولیس سینٹر کا قیام 'بے حیائی' ہے۔

حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ قبائلی اضلاع جب خیبر پختونخوا میں ضم ہوئے اور ان علاقوں میں پولیس سٹیشن بنانے کی بات ہوئی تو مردوں کے پولیس سٹیشنزکی مخالفت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ ایسے میں خواتین پولیس سینٹر کی مخالفت سمجھ آتی ہے۔

پاڑہ چنار کے ایک نوجوان کے مطابق پولیس سینٹر کی مخالفت کرنے والوں کی  تنقید کا رخ زیادہ تر پشتون خواتین کی طرف ہے جب کہ مسیحی خواتین  پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔

ضلعی پولیس افسر قریش خان نے یکم مئی کو اس سینٹر کے افتتاح کے موقعے پر بتایا تھا کہ اگر یہ پائلٹ پراجیکٹ کامیاب رہا تو دیگر اضلاع میں بھی ایسے سینٹرز کھولے جائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی