'میں بس اپنی ماں کے گلے لگنا چاہتی ہوں'

جیسیکا ریٹی کی والدہ اُن کے گھر سے محض پانچ منٹ کے فاصلے پر رہتی ہیں لیکن دو ماہ سے نافذ لاک ڈاؤن نے آپس میں مضبوطی سے جڑے خاندان کو ایک دوسرے سے الگ کیے رکھا۔

ریٹی کی والدہ کیرل جو اپنی بیٹی سے ملنے کی امید میں ہیں (دی انڈپینڈنٹ)

برطانیہ کی دیہی جنوب مغربی کاؤنٹی کورن وال میں جیسیکا ریٹی کی والدہ اُن کے گھر سے محض پانچ منٹ کے فاصلے پر رہتی ہیں لیکن ملک میں دو ماہ سے زیادہ عرصے سے نافذ لاک ڈاؤن نے آپس میں مضبوطی سے جڑے خاندان کو ایک دوسرے سے الگ کیے رکھا۔

36 سالہ جیسیکا ریٹی اپنے پارٹنر بین اور آٹھ سالہ بیٹی لِلی کے ساتھ ایک ہی جگہ کھڑے کیراوان (سفری گاڑی) میں بند رہیں۔ تینوں ایک ہی کمرے میں رہتے ہوئے کام کرتے، زندگی گزارتے اور پڑھائی کرتے۔ اس دوران انہوں نے قریب ہی واقع اپنی اُس جائیداد کی تعمیرومرمت کا کام جاری رکھا جس کی دیکھ بھال نہیں کی گئی تھی۔

تینوں اپنے باغ سے باہر کہیں نہیں جا سکتے تھے۔ انہوں نے خاندان کے لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے ویڈیو کالنگ ایپ فیس ٹائم پر انحصار کیا۔

تاہم بدھ سے حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں جزوی نرمی کا مطلب ہے کہ برطانیہ میں لوگ اب گھر کے لوگوں کے علاوہ بھی کسی سے ملاقات کر سکیں گے۔ (جس کے لیے دوسرے کے گھر سے باہر رہنا اور سماجی دوری کی شرط پوری کرنی ہو گی۔)

ریٹی کے لیے یہ بہت صحیح وقت ہے کیونکہ اُن کی سالگرہ 13 مئی کو بنتی ہے۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو انٹرویو میں کہا: 'یہ بہت خوشی کی بات ہے۔ میں آج شام اپنی والدہ کیرل سے ملاقات کروں گی۔ اگرچہ مجھے پریشانی ہے کہ میں بس انہیں گلے لگانا چاہتی ہوں اس لیے ایسا کرنا انہیں سرے نہ دیکھنے کے مقابلے میں زیادہ مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ لِلی کے لیے خاص طور پر مشکل ہو گا۔'

اس خاندان نے مقامی جھینگا مچھلی کے ساتھ رات کا کھانا کھانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ وہ کمبل اوڑھے باغ میں پکنک کے بنچ پر بیٹھ کر جھینگا مچھلی کھانا چاہتے ہیں۔

ریٹی کہتی ہیں: 'موسم گرم نہیں ہے لیکن میں وہاں اپنی والدہ کی موجودگی اور قربت سے خوش ہونا اور ان کے پیارے چہرے کو دیکھ کر لطف اٹھانا چاہتی ہوں کیونکہ انہیں ذرا کم سنائی دیتا ہے۔ اس سماجی دوری کو برقرار رکھتے ہوئے اُن کے ساتھ بات چیت کرنا مشکل ہے۔'

اُنہیں یہ پریشانی بھی ہے کہ یہ ملاقات 'توقعات پر پوری نہیں اترے گی' کیونکہ وہ ایک دوسرے  کے قریب نہیں آ سکتیں۔ وہ مایوسی کا شکار ہیں کہ اُن کے والد، جو دل کے مسائل کا شکار ہیں، اس ملاقات میں شامل نہیں ہو سکتے۔

'جب وہ ایک ہی گھر میں رہ رہے ہیں تو ایک ہی فرد سے ملاقات کا ضابطہ اُن کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن ہم نے اب تک قواعد وضوابط کی پابندی کی ہے۔'

12 مئی کو برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اپنی تقریر میں لاک ڈاؤن سےنکلنے کے منصوبے کے بارے میں بتایا تھا۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلےمیں لوگوں کو آزادیاں دینا شامل ہے جیسا کہ وہ غیرمعینہ مدت تک ورزش کر سکتے ہیں، دھوپ سینک سکتے ہیں یا پارک میں پکنک منا سکتے ہیں۔

اُنہیں پھولوں کی دکانوں پر جانے اور خاص طور پر گھر سے باہر نکل کر ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کی اجازت ہو گی جس کی 23 مارچ کو نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد اجازت نہیں تھی۔ لیکن اس پابندی کے حوالے سے ابتدائی طور پر ابہام تھا۔

یہ ابہام خود حکومت کے اندر بھی تھا۔ پیر کو وزیراعظم بورس جانسن کی تقریر کے 24 گھنٹے بعد وزیر خارجہ ڈومینک راب نے کہا کہ لوگ ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں۔ بعد میں انہوں نے یہ بیان واپس لیتے ہوئے کہا آپ کسی سے نہیں مل سکتے۔

60 صفحات پر مشتمل دستاویز کے اجرا سے آخر کار تصدیق ہو گئی کہ برطانیہ میں لوگ کسی دوسرے خاندان کے ایک شخص سے مل سکتے ہیں۔ لیکن سکاٹ لینڈ، ویلزاور شمالی آئرلینڈ کے لوگ اب تک لاک ڈاؤن کی سخت پابندیوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ خود مختار ملکوں کے رہنماؤں نے پابندیاں جلد نرم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

چیسٹر کے علاقے میں 48 سالہ ڈیوڈ ایٹکنسن کے نزدیک بدھ کو آنے والے نئے قواعد کا مطلب یہ ہے کہ وہ سماجی دوری رکھتے ہوئے اپنی عمررسیدہ ہمسایہ جینٹ کے ساتھ چائے کا کپ پی سکتے ہیں، جن کے لیے وہ لاک ڈاؤن کے دوران اخبارات اور دودھ خریدا کرتے تھے۔

ایٹکنسن مذاق کے طور پر کہتے ہیں: 'جینٹ کی عمر 80 برس سے زیادہ ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ گذشتہ کچھ ہفتے سے ایلڈی (سپرمارکیٹ کا نام) نہیں گئیں۔ ایٹکنسن کی والدہ جینٹ کی دوست تھیں جو کئی برس پہلے فوت ہو گئیں جس کے بعد دونوں ہمسائے ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایٹکنسن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: 'باہر کچھ سردی تھی لیکن ہم ایک باغ میں بیٹھ گئے۔ (ایک مناسب سماجی دوری کے ساتھ) اور آٹھ ہفتے میں پہلی بار تھوڑی بہت گفتگو کی۔ اس سے پہلےمیں ہمیشہ اُن کے ساتھ چائے پینے کے لیےجاتا تھا لیکن لاک ڈاؤن کے بعد سے میں سامان بس اُن کے دروازے پر رکھ دیتا ہوں۔ آج صبح ہم کسی چھوٹے سے باغ کی کرسیوں پر بیٹھ کر باتیں کر سکتے تھے۔

'یہ انتہائی سادہ بات ہے کہ لیکن اسے کرنے سے کچھ جینٹ کو سکون اور حوصلہ ملتا ہے اور کچھ مجھے اپنی والدہ اور اُن کی دوست کے ساتھ وفاداری کا احساس ہوتا ہے۔'

ایٹکنسن کہتے ہیں کہ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں کمیونٹی میں اپنے کردار کے بارے میں مزید آگاہی ملی ہے اور کمزور لوگوں کو مدد کی ضرورت کا پتہ چلا ہے۔ 'زندگی میں کسی چھوٹے سے عمل کا درحقیقت بڑا مطلب ہو سکتا ہے اور اس دوستی کو برقرار رکھنا واقعی بہت اہم کام ہے۔'

سٹریٹ فورڈ اپان ایون کے علاقے میں مقیم 36 سالہ جیمز لکس فورڈ اور ان کی 33 سالہ اہلیہ لورین کے لیے بدھ کی صبح سماجی دوری کے ساتھ کی جانے والی چہل قدمی کے دوران اپنی دوست ایلیئٹ کو دیکھنے کا موقع پرلطف اور خوش کن بھی تھا۔

لکس فورڈ کہتے ہیں: 'ایک بڑا موقع ہے جس کی ہمیں کمی محسوس ہوتی ہے۔ ہم نے گپ شپ کی، میدان میں چند بھیڑیں دیکھیں اور ایک جوڑے کو دیکھا جو سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے ڈیٹ پر تھا۔ یہ سب بڑا حوصلہ افزا تھا۔

'مجھے بہت سکون ملا جس سے میں مانوس بھی ہوں۔ مجھے احساس ہوا کہ جب یہ سب ختم ہو جائے گا تو خاندان اور دوسرے دوستوں کے ساتھ ایسے ہی بے حد خوش رہنے کا موقع ملے گا۔'

دوسرے لوگوں کو پتہ چلا ہے کہ طویل عرصے تک تنہا رہنے کے بعد دوستوں کو دوبارہ ملنے کی اجازت سے جذباتی سکون ملتا ہے۔

مینٹل ہیلتھ فاؤندیشن کی تازہ تحقیق میں ایک چوتھائی بالغ افراد نے بتایا کہ لاک ڈاؤن شدید تنہائی کا سبب بنتا ہے۔ 35 سالہ ریچل مرے کا تعلق لندن سے ہے۔ وہ 16 مارچ سے اپنے فلیٹ میں اکیلی ہیں۔ عمارت میں کوئی کھلی جگہ نہیں ہے۔ وہ ہفتے کو اپنی دوست شونا سے ملنےجائیں گی جنہوں نے ان کے پاس آنے اورملنے کے لیے بائیک خریدی ہے۔

وہ کہتی ہیں: 'جب میں نے پہلی بار سنا کہ وہ لاک ڈاؤن ختم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں تو میں نے زیادہ بےآرامی محسوس کرنا شروع کر دی۔ مجھے خاندان اوردوستوں کی کمی زیادہ محسوس ہونے لگی۔'

بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اینڈروئیڈ ویڈیو کالنگ ایپ زُوم اور ویڈیو چیٹ کے استعمال پر گزارہ کرتی رہیں۔ مرے اور شونا لاک ڈاؤن کے تمام عرصے کسی وقفے کے بغیر ہر ہفتے والے دن آپس میں باتیں کرتے۔ 'ہم مدد کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے رہے۔ وہ ایسا انسان ہوں گی جن سے میں نے سب سے پہلے ملنے کو سوچا ہے۔ اب بارے میں سوچنا خیالی اور کسی قدر بے چین کر دینے والا لیکن حیران کن بھی محسوس ہوتا ہے۔'

انتیس سالہ اینجلیکا میلن لندن میں اکیلی رہتی ہیں۔ وہ 23 مارچ سے آئسولیشن میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خود کو اتنے لمبے عرصے آئسولیشن میں رکھنے کے بعد کسی دوست سے ملاقات کا امکان بہت بڑا جذباتی سکون ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: 'مجھے لاک ڈاؤن ذہنی طور پر بہت محسوس ہوا۔ خاص طور پر ویک اینڈز پر، ہفتوں سے کسی کے ساتھ کھانا شیئرنہ کرنا یا کسی کے گلے نہ لگنا۔'

'جب انہوں نے کہا کہ وہ قواعد تبدیل کر رہے ہیں تو میں شروع میں بہت پرجوش تھی۔ اچانک میں نے لوگوں سے ملنے اور منصوبے بنانے کے لیے دباؤ محسوس کرنا شروع کر دیا، لیکن میں معاملے کو سست روی سے لے رہی ہوں اور خود کو یاد دلا رہی ہوں کہ سماجی دباؤ لینے کی حقیقت میں اس وقت ضرورت نہیں۔ ہم جتنے کم لوگوں سے ملیں گے اُتنے محفوظ رہیں گے۔'

وہ جمعرات کو اپنی بہترین دوست جیما سے ملیں گی اور ایک مقامی قبرستان میں چہل قدمی کریں گی۔ 'ہم ہمیشہ طویل مٹرگشت کے لیے جایا کرتے تھے اور اپنی زندگی پر باتیں کرتے تھے۔ میں اکٹھے گزارے گئے اس وقت کی کمی محسوس کی ہے۔ مجھے اس وقت ان نہ ملنا ناقابل یقین حد تک مشکل لگا ہے لیکن ہم دونوں قواعد پر عمل کرنا چاہتےتھے۔ میں لازمی طور پر ان سےملنے کے تڑپ رہی ہوں۔ میں اس بارے  میں صرف سوچ کر تڑپ رہی ہوں۔

دوسرے لوگوں کی طرح جو شہروں کی تنگ جگہوں میں رہتے ہیں، میلن کہتی ہیں وہ علاقہ مصروف ہونے کی صورت میں سماجی دوری کے حوالے سے پریشان ہیں۔ وہ کہتی ہیں: 'میں زیادہ سکون محسوس کروں گی کہ اگر وہ پارکوں میں جانےکے لیے کسی قسم کا طریقہ کار وضع کردیں۔ جسا کہ دروازے کی پالیسی یا عمرکےاعتبار سے مختلف گروپوں کے لیے الگ الگ داخلی راستہ مقرر کر یا جائے۔ مجھے تشدد کے واقعات کو پریشانی ہے۔'

لیکن جموعی طور پر میلن پرامید ہیں کہ یہ نئے اقدامات ہمیں اس میں سے کیا واپس کرتے ہیں  جو لاک ڈاؤن سےپہلے  حاصل تھا۔ 'میرا خیال ہے یہ مجھے لاک ڈاؤن سے پہلے کی زندگی یاد دلائیں گے اور ہم آہستہ آہستہ اپنی پرانی زندگی کی جھلکیں واپس پانا شروع کر دیں گے۔'

آنے والےہفتوں میں قواعد میں مزید کمی کی جائے گی یا نہیں، سکاٹ لینڈ، ویلز اور آئرلینڈ میں بہرحال قواعد میں نرمی کا انحصار آزمائش کے پہلے مرحلے کی کامیابی پر ہو گا۔پہلا مرحلہ اموات اور نئے کیسوں کی شرح میں مسلسل کمی کا ہے۔ یہ تجویز دی گئی ہے کہ یکم جون تک برطانیہ میں ان خاندانوں پر مشتمل گروپوں کو اکٹھے ہونے دیا جائے تا کہ سماجی آئسولیشن کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ایسا ہوگا اور کب ہوگا یہ ابھی تک معلوم نہیں لیکن جو بات ہم جانتے ہیں وہ یہ کہ مستقبل میں اکٹھے گزرنے والے وقت کو ہلکا نہیں لیا جانا چاہیے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ