کیا نیب کو بند کر دینا چاہیے؟ ‎

نیب حکمرانوں کے کہنے پر اس وقت قدم اٹھاتا ہے جب حکمرانوں نے سیاسی مقاصد حاصل کرنے ہوں۔ اگر اسے سیاسی انجینیئرنگ نہیں کہتے تو پھر کسے کہتے ہیں؟

نیب جس مقصد کے لیے بنا اسے حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہا (اے ایف پی)

میں پچھلے دس، بارہ سال سے قومی احتساب بیورو (نیب) کو بند کرنے کی بات کر رہا ہوں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ جس مقصد کے لیے بنا اسے حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہا۔

پہلے کرپشن چند کروڑ روپوں کی ہوتی تھی لیکن اب بات اربوں تک چلی گئی ہے۔ پچھلے دنوں تحقیقاتی صحافیوں حامد میر اور رؤف کلاسرا نے بھی اس قسم کے واقعات اپنے کالموں میں لکھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیب حکمرانوں کے کہنے پر قدم اٹھاتا ہے اور انہی کے کہنے پر فائلیں بند کر دیتا ہے۔ ان اقدامات کو ایسے وقت پر کیا جاتا ہے جن سے سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ اگر اسے سیاسی انجینیئرنگ نہیں کہتے تو پھر کسے کہتے ہیں؟

میں نے نیب کو بند کرنے کی بات ضرور کی ہے مگر یہ نہیں کہا کہ کرپشن کو کھلی چھٹی دے دینی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہر شہری کسی نہ کسی صورت کرپشن میں ملوث ہے۔ ہم کرپشن کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ کچھ صورتوں میں اسے جائز بھی سمجھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی ذاتی مفاد کے لیے قوانین توڑے اور اخلاقیات کو چھوڑ دے تو ایسے شخص کو ہم ہوشیار، چالاک اور کامیاب سمجھتے ہیں۔

سیاست میں ایلکٹیبل وہی لوگ ہیں جو چالاکیوں سے دھاندلی کرنا جانتے ہیں جبکہ وہ شخص جو ایمان داری، اصول اور قانون کی پاسداری کی بات کرے تو اسے بیوقوف اور سادہ خیال کرتے ہیں۔ اگر ہم کرپشن کو واقعی ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ذہنی رجہانات اور ثقافت کو بدلنا ہوگا۔ یہ مقصد صرف دور رس لائحہ عمل سے حاصل ہو سکتا ہے اور سطحی اقدامات سے کرپشن ختم نہیں ہو سکتی۔ ہمیں دوسری قوموں کی تاریخ سے بھی اس معاملے میں سبق سیکھنا چاہیے۔

بدعنوانی کسی حد تک ہماری ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔ اس سے نجات پانے کے لیے ہمیں آنے والی نسل کی کردار سازی پر نئے سرے سے توجہ دینی ہوگی۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کی طرف بھی اتنی ہی توجہ اور وسائل لگانے پڑیں گے۔

استادوں کے انتخاب میں انتہائی احتیاط کرنی ہوگی اور والدین کو ان کے ساتھ مل کر تعلیم کے ساتھ تربیتی نتائج کے معیار کا تعین بھی کرنا پڑے گا۔ اگر ہم آج سنجیدگی سے اس کام پر توجہ دیں تو کم از کم 30 سال تک اس پر کام کرنا ہوگا تب کہیں جا کر ایک بہتر معاشرہ بن پائے گا۔

اس کے ساتھ موجودہ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے بھی چند اقدامات کرنے ہوں گے۔ موجودہ سماجی خرابی کی ذمہ داری جج، جرنیل، بیوروکریٹ اور سیاست دان سب پر آتی ہے۔ لیکن قوموں کی تعمیر میں پہلا قدم سیاست دانوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ نیب کو ختم کرنے کے بعد چند اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ سب سے پہلے تو یہ تعین کرنا ہوگا کہ کس ادارے کے ذمہ کرپشن کی پکڑ لگائی جائے۔

میری نظر میں ایف آئی اے اس کام کے لیے ایک موضوع ادارہ ہے اور ان جرائم کو پکڑنے اور سزا دلوانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن یہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب اس ادارے کو مکمل آزادی اور خود مختاری دی جائے۔ قابل افسروں کو اس میں تعینات کیا جائے اور سیاست دانوں کی مداخلت روکی جائے۔ اس کے لیے نئی قانون سازی کرنا پڑے گی۔

وزارتِ قانون اور اٹارنی جنرل کو اچھے پراسیکیوٹر رکھنے پڑیں گے جو تحقیقاتی افسروں کے مکمل تعاون سے کیس تیار کریں۔ جب تک کیس عدالت میں پیش کرنے کے قابل نہ ہو اس وقت تک تمام تحقیق کو خفیہ رکھا جائے۔ عدالتی نظام میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہوگی تاکہ ایک دفعہ کیس کی سماعت شروع ہو تو اسے جلد از جلد مکمل کیا جائے۔

سیاست دانوں کو آگے بڑھ کر ملک کے نظام کو ٹھیک کرنا ہے۔ اس لیے انہیں اپنا احتساب خود کرنا ہوگا۔ پارلیمان میں ایک اخلاقی اقدار کی کمیٹی ہونی چاہیے جو اپنے ممبران اور حکومت کے وزیروں پر اقتدار اور اختیارات کے بےجا استعمال اور ذاتی فوائد حاصل کرنے پر کارروائی کرے اور انہیں سزا دے جس میں پارلیمان سے بےدخلی بھی ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا ادارہ اس کمیٹی کے زیر اثر ہونا چاہیے تاکہ حکومتی اداروں میں بےقاعدگی اور کرپشن پر نظر رکھے۔

اس کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کو اپنے اندر پارٹی رہنماؤں اور عہدے داروں کا بھی احتساب کرنا ہوگا۔ ہماری سیاسی پارٹیاں اور ان کے ارکان اپنی پارٹیوں کے اندر موجود کرپشن پر نہ صرف آواز نہیں اٹھاتے بلکہ اس کا دفاع کرتے ہیں۔ کامیاب جمہوریتوں میں جب کسی اہم عہدے دار کو کرپشن یا طاقت کے بےجا استعمال میں ملوث پایا جاتا ہے تو پارٹی خود انہیں عہدہ چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے۔

ہمارے یہاں ایسی کوئی روایت نہیں۔ احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی اپنے پارٹی کے صدر شہباز شریف سے پوچھنے کو تیار نہیں کہ انہوں نے ایک غیرملکی شہری سے کئی لاکھ پاؤنڈز کا تحفہ کیوں لیا؟ اسی طرح پیپلز پارٹی کے لوگ زرداری صاحب سے پوچھنے کو تیار نہیں ہیں کہ بحریہ ٹاؤن میں مہنگا مکان پاکستان کے ایک بڑے بلڈر سے کیوں لیا؟

میں اور کچھ دوسرے لوگ جب تک پی ٹی آئی میں رہے اس وقت تک عمران خان کے غیرآئینی اقدامات اور کرپٹ لوگوں کی سپورٹ پر آواز اٹھاتے رہے۔ آٹھ سال میں مجھے کوئی واقع بھی ایسا یاد نہیں جب عمران خان کرپشن کرنے والوں کو سزا دے سکے ہوں۔ اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں جب وہ اس بات کی تعریف کرتے ہوئے پائے گئے کہ کسی نے کتنی چالاکی سے دولت کمائی۔

خیبر پختونخوا کے سینیٹ الیکشن میں جن ایم پی ایز کو انہوں نے نکالا وہ صرف سیاسی ڈرامہ تھا۔ وہ کسی ایک ایم پی اے پر بھی ووٹ بیچنا ثابت نہ کر سکے جبکہ اصل وجہ یہ تھی کہ اگلے الیکشن میں انہیں ٹکٹ دینا نہیں چاہتے تھے۔ اور اگر انہوں نے واقعی ووٹ بیچے تو خریدار کو انہوں نے نہ کوئی سزا دی اور نہ ان کے خلاف کوئی اقدام کیا۔

خیبر پختونخوا کے احتساب ادارے کو عمران خان نے اس وقت بند کیا جب وہ چند اہم وزرا کے خلاف اقدامات کرنے والے تھے۔ سیاسی پارٹیوں کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ اس بات پر قانون سازی کرنی ہوگی کہ اگر کسی پارٹی کا پارلیمانی رکن کرپٹ قرار پائے تو اس شخص کو ٹکٹ دینے والوں پر بھی کچھ جرمانہ ہونا چاہیے۔ اگر کوئی پارٹی متعدد بار کرپشن میں ملوث پائی جائے تو اس کی رجسٹریشن بھی منسوخ کی جانی چاہیے۔

میں آپ کو اپنا فیصلہ پہلے ہی سنا چکا ہوں۔ موجودہ جمہوریہ اور اس کی ساخت کچھ اس طرح کی ہے کہ کرپشن کو فروغ ملتا ہے۔ ہمیں جلد از جلد قومی سیاسی مذاکرات شروع کرنے ہوں گے تاکہ نئی جمہوریہ قائم ہو۔ فوج ہمیشہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس قوم کو متحد اور مستحکم رکھنے میں اس کا کلیدی کردار ہے جو کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔

میں اس سال کے اواخر میں جب سیاسی پارٹیوں سے ملنا شروع کروں گا تو اس وقت فوج کے سربراہ سے بھی ملنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں ان سے دو باتیں ضرور پوچھوں گا۔ کیا فوج کے ماضی کے اقدامات سے ملک میں استحکام پیدا ہوا اور اچھی جمہوریت پروان چڑھی؟ کیا ان کی سپورٹ سے جو سیاست دان اس ملک پر حاکم ہوئے وہ ایمان دار اور قابل تھے؟

قوم کو ان سوالات کے جوابات معلوم ہیں اور یہ فوج کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر