مصر: جیل میں بند سیاسی کارکن کی والدہ کا انٹرویو کرنے پر صحافی گرفتار

آن لائن اخبار 'مدا مصر ' کی ایڈیٹر ان چیف لینا عطالا کی حراست مصر کے طالع آزما عبدالفتح السیسی کی حکومت کے دوران سماجی آزادیوں کی مخدوش صورت حال کو واضح کرتی ہے۔

لینا عطالا  کو 105 ڈالرز کی ضمانت کے عوض رہا کر دیا گیا تاہم  انہیں سوموار کو تفتیش کے لیے بلایا گیا ہے (اے پی)

مصری حکام نے ملک میں آزادانہ طور پر کام کرنے والے ایک آن لائن اخبار کی ایڈیٹر کو بدنام زمانہ جیل کے قریب سے گرفتار کر لیا، جو چند گھنٹوں بعد ضمانت پر رہا ہو گئیں۔

آن لائن اخبار 'مدا مصر' کی ایڈیٹر ان چیف لینا عطالا معروف سیاسی کارکن اعلی عبدالفتح کی والدہ سے قاہرہ کی سخت سکیورٹی والی طورہ جیل کے باہر اتوار کو انٹرویو کر رہی تھیں، جب انہیں سرکاری حکام نےحراست میں لے لیا۔

مدا مصر کے مطابق 37 سالہ لینا کو 105 ڈالرز کی ضمانت کے عوض رہا کر دیا گیا تاہم انہیں سوموار کو تفتیش کے لیے بلایا گیا ہے۔

ان کی حراست مصر کے طالع آزما عبدالفتح السیسی کی حکومت کے دوران سماجی آزادیوں کی مخدوش صورت حال کو واضح کرتی ہے۔ سیسی مصر میں سات سال سے پہلی منتخب سیاسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے حکمران ہیں۔

مدا مصر کو گذشتہ نومبر میں بند کرتے ہوئے لینا کو اخبار کے عملے سمیت گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد عالمی دباؤ کے تحت انہیں رہا کر دیا گیا۔

مارچ میں دی گارڈین اخبار کے قاہرہ میں موجود نمائندے کو حکام  کی جانب سے صحافتی اجازت نامہ منسوخ ہونے کے بعد زبردستی ملک چھوڑنا پڑا تھا، اس کی وجہ ان کی وہ خبر تھی جس میں انہوں نے ایک رپورٹ کی بنیاد پر کہا تھا کہ مصری حکومت کرونا کیسز چھپا رہی ہے۔

یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کیا لینا کو ہدف بنایا گیا ہے یا مصری پولیس ان ہدایات پر عمل کر رہی تھی جس کے تحت انہیں کسی بھی صحافی کو گرفتار، زود و کوب یا ڈرانا تھا۔

صحافیوں کے تحفظ کا ادارہ انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کی گذشہ سال شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسٹیٹیوٹ کے مطابق: 'حکومت نے صحافتی اداروں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے چھاپے مارنے کی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے اور 60 سے زائد صحافی مصر کی جیلوں میں غیر انسانی حالات میں رہ رہے ہیں۔'

رواں مہینے کے آغاز میں ایک نوجوان فلم ساز طورہ جیل میں بیماری کے باعث ہلاک ہوا تھا۔ طورہ جیل میں سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو رکھا جا رہا ہے، جہاں یہ قیدی بھوک ہڑتال کا اعلان کر چکے ہیں۔

حکام کے مطابق نوجوان فلم ساز میڈیکل الکوحل پینے کے باعث ہلاک ہوا، جسے غلط طور پر کرونا وائرس کا علاج بتایا گیا تھا۔

لینا کو دوپہر کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ عبدالفتح کی ماں لیلیٰ سویف کا انٹرویو کر رہی تھیں۔ حکام نے 35 دن سے بھوک ہڑتال کرنے والے عبدالفتح کی اہل خانہ سے تمام ملاقاتوں کو منسوخ کر دیا ہے۔

لیلیٰ سویف کے مطابق یہ ان کی اپنے بیٹے کے لیے ادویات اور ضروری اشیا پہنچانے کی 22ویں کوشش تھی۔

عبدالفتح کو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات پر پانچ سال کی سزا سنائی گئی ہے اور انہیں گذشتہ ستمبر میں السیسی حکومت کے خلاف نئے مظاہروں کے بعد دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔

عبدالفتح کی بہن مونا سیف نے موقعے پر موجود پولیس اہلکاروں سے بات کی تو انہیں بتایا گیا کہ وہ انہیں رہا کرچکے ہیں کیونکہ وہ فکر مند تھے کہ 'انہوں نے جو دیکھا ہے اس بارے میں کچھ لکھ دیں گے۔'

مونا نے ٹوئٹر پر لکھا کہ 'میں نے ان سے بحث کی کہ ہمارے کئی دوست باقاعدگی سے یہاں آتے ہیں، وہ لکھتے ہیں اور تصویریں پوسٹ کرتے ہیں اور وہ سب خبروں میں شائع کیا جاتا ہے۔ وہ ہمیں اعلی کو دیکھنے نہیں دے رہے اور انہوں نے لینا کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ جیسے کے طورہ جیل آنا قانون کے خلاف تھا۔'

السیسی نے اپنی تمام حزب اختلاف کو دبا رکھا ہے اور وہ ہر آزاد میڈیا کے ادارے کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، جبری گمشدگیوں، تشدد، ماورائے عدالت قتل اورسینائی کے علاقے میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔

امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی حکومتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود السیسی کی حمایت کر رہی ہیں جبکہ وہ دوسرے ممالک میں ایسی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں۔

مصر اور اس کے حامی عرب ممالک، جن میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب شامل ہیں، طاقت ور مغربی فرمز سے ہتھیار خریدتے ہیں جن کے واشنگٹن، پیرس اور لندن میں گہرے سیاسی مراسم ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال نیویارک میں ملاقات کے پہلے السیسی کو 'پسندیدہ ڈکٹیٹر' قرار دیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا