پاکستان میں کرونا اتنا سنگین نہیں جتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے: چیف جسٹس

کرونا وائرس از خود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کرونا کے حوالے سے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، یہ کہاں جا رہے ہیں؟

(اے ایف پی)

ملک بھر میں کرونا وائرس اقدامات کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت پیر کے روز چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ عدالت نے حکومت کی جانب سے استعمال ہونے والے وسائل پہ سوال اُٹھا دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں کرونا وائرس اتنا سنگین نہیں جتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تمام وسائل صرف کرونا پر خرچ نہ کیے جائیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں وسائل خرچ کرنے سے متعلق اپنا موقف دیں۔

عدالت نے حکم میں کہا کہ این ڈی ایم اے اربوں روپے کرونا سے متعلق خریداری پر خرچ کر رہا ہے۔ این ڈی ایم اے سے بھی مزید تفصیلات طلب کر لیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کرونا کے حوالے سے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، یہ کہاں جا رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں این ڈی ایم اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ این ڈی ایم کے لیے 25 ارب مختص ہوئے ہیں لیکن یہ تمام رقم ابھی خرچ نہیں ہوئی۔' چیف جسٹس نے کہا کہ 25 ارب تو آپ کو ملے ہیں صوبوں کو الگ ملے ہیں۔ کیا 25 ارب کی رقم سے آپ کثیر منزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں؟ این ڈی ایم اے حکام نے جواب دیا کہ یہ رقم ابھی پوری طرح ملی نہیں اور اس میں دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔'

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ احساس پروگرام کی رقم الگ ہے اگر 500 ارب روپے کرونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہر مریض کروڑ پتی ہوجائے گا۔ یہ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ اتنی رقم لگانے کے بعد بھی اگر 600 لوگ جاں بحق ہو گئے تو ہماری کوششوں کا کیا فائدہ؟

چیف جسٹس کا این ڈی ایم اے حکام سے مکالمہ:

چیف جسٹس: حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟

این ڈی ایم اے حکام: حاجی کیمپ قرنطینہ پر 59 ملین خرچ ہوئے۔

چیف جسٹس: قرنطینہ مراکز پر اتنا پیسہ کیسے لگ گیا؟ کیا قرنطینہ مراکز کے لیے نئی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں؟

این ڈی ایم اے حکام: حکومت کی طرف سے صرف 2.5 ارب روپے ملے ہیں۔

چیف جسٹس کرونا کے ایک مریض پر اوسط کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں؟ کرونا پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کہاں جا رہے ہیں؟

این ڈی ایم اے حکام: میڈیکل آلات، کٹس اور قرنطینہ مراکز پر پیسے خرچ ہوئے ہیں۔'

چیف جسٹس نے کہا کہ کرونا اس لیے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسہ اٹھا کر لے جائے۔ ٹڈی دل کیلیے این ڈی ایم اے نے کیا کیا ہے؟ ٹڈی دل آئندہ سال ملک میں فصلیں نہیں ہونے دے گا۔ صنعتیں فعال ہوجائیں تو زرعی شعبے کی اتنی ضرورت نہیں رہے گی۔ اربوں روپے ٹین کی چارپائیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔'

جسٹس قاضی امین الدین نے ریمارکس دیے کہ 'مجھے نہیں لگتا کرونا پر پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جا رہا ہے۔'

چیف جسٹس نے وفاقی سیکرٹری صحت سے استفسار کیا کہ پولن سے کتنے لوگ مرتے ہیں؟ سیکرٹری صحت نے جواب دیا کہ پولن سے کم و بیش ایک ہزار لوگ مرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ڈینگی آئے گا اور پچاس ہزار مر جائیں گے۔ سرکاری ہسپتال میں کرونا مثبت، نجی میں منفی نکلتا ہے۔ جسے دل کرتا ہے کرونا کا مریض قرار دے دیا جاتا ہے۔ پیسہ وہاں خرچ ہو رہا جہاں لگا نظر بھی نہیں آ رہا۔ چیف جسٹس وفاقی سیکرٹری صحت سے کہا کہ محکمہ صحت میں کالی بھیڑیں موجود ہیں اور محکمہ صحت تمام کالی بھیڑوں کو جانتا ہے انہوں نے کہا کہ سب سے تھرڈ کلاس ادویات سرکاری ہسپتالوں میں ہوتی ہیں۔ او پی ڈی میں سو مریض کھڑے ہوتے اور ڈاکٹر چائے پی رہے ہوتے ہیں۔ کیا کیمرے لگا کر سرکاری ہسپتالوں کی نگرانی نہیں ہو سکتی؟ تمام سرکاری ہسپتالوں کے ہر کمرے میں کیمرے لگائیں۔'

سیکرٹری صحت نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ جہاں جہاں ممکن ہوگا کیمرے نصب کیے جائیں گے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سموار کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے کرونا وائرس کے تناظر میں حکومتی اقدامات کا جائزہ لیا۔ تمام صوبوں کے ایڈوکیٹ جنرلز بذریعہ وڈیو لنک موجود تھے۔ اٹارنی جنرل پاکستان کراچی رجسٹری سے وڈیو لنک کے ذریعے سماعت میں شریک ہوئے۔

کاروباری مراکز بند رکھنے کے حوالے سے سپریم کورٹ نے مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیوں کو ہفتہ، اتوار کو بند کرنے کا فیصلہ کالعدم کردیا اور کہا کہ مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیوں کو ہفتہ اتوار کو  بند کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عید پر رش بڑھ جاتا ہے۔ ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کرائی جائیں۔ آپ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے لیکن دوسرے لینا چاہتے ہیں۔ بہت سے گھرانے صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ کراچی زینب مارکیٹ میں زیادہ غریب لوگ آتے ہیں اسے کھولا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کرونا وائرس ہفتے اور اتوار کو کہیں چلا نہیں جاتا، کیا کرونا نے بتایا ہے کہ وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آتا؟

عدالت نے کہا کہ پنجاب اور اسلام آباد شاپنگ مالز کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سندھ میں شاپنگ مالز بند رکھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ تی۔ سندھ حکومت شاپنگ مالز کھولنے کیلیے وفاقی حکومت سے رجوع کرے اور اجازت کے بعد صوبے شاپنگ مالز کھولنے میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ مارکیٹوں اور دکانوں پر متعلقہ حکومتیں اور انتظامیہ ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان