’نرسنگ واحد شعبہ جہاں مردوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے‘

جناح ہسپتال میں 17 سال سے بحیثیت نرس کام کرنے والے ظفر اقبال کے مطابق پاکستان میں اس وقت کل ایک لاکھ نرس ہیں جن میں بمشکل پانچ سے چھ ہزار مرد نرس ہوں گے۔

عالمی ادارۂ صحت نے 2020 کو نرس اور مڈوائف کا سال قرار دیا ہے۔ اسی مناسبت سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایک خصوصی سیریز تیار کی ہے اور مندرجہ ذیل رپورٹ اسی کا حصہ ہے۔ اس سیریز کے دوسرے حصے یہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔


پاکستان کے اکثر شعبوں میں خواتین کے کام کرنے کے لیے حالات سازگار نہیں ہوتے، یا تو وہاں خواتین کے لیے مخصوص کوٹا رکھا جاتا ہے یا پھر ان سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، مگر نرسنگ واحد شعبہ ہے جہاں مردوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔

کراچی کے جناح ہسپتال میں گذشتہ 17 سال سے بحیثیت نرس ڈیوٹی سرانجام دینے والے ظفر اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا: 'پاکستان میں نرسنگ کے شعبے میں مردوں کے لیے صرف دس فیصد کوٹا مختص ہے جو بہت ہی کم ہے، اس لیے اس شعبے میں مردوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ 'پاکستان میں اس وقت کل ایک لاکھ نرس ہیں جن میں بمشکل پانچ سے چھ ہزار مرد نرس ہوں گے۔'

ظفر اقبال کے مطابق: 'پاکستان کے چاروں صوبوں میں خواتین کے لیے سرکاری نرسنگ کالج موجود ہیں جہاں خواتین نرسوں کو داخلے کے بعد وظیفہ دینے کے ساتھ ساتھ انہیں مفت رہائش دی جاتی ہے اور اس کے علاوہ بھی خواتین کو کئی مراعات دے کر اس شعبے میں آنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔'

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ 'مردوں کے لیے چاروں صوبوں میں سے صرف صوبہ سندھ میں سرکاری نرسنگ کالج موجود ہے مگر وہاں بھی مردوں کے لیے صرف دس فیصد کوٹا ہے، جہاں وظیفہ دیے جانے کی بجائے ان سے بھاری فیس وصول کی جاتی ہے اور انہیں رہائش کے لیے ہاسٹل بھی فراہم نہیں کیے جاتے، جس کے باعث انہیں سفری اخراجات بھی خود ادا کرنے پڑتے ہیں۔ '

ظفر نے بتایا کہ 'باقی تینوں صوبوں میں اگر کوئی مرد نرسنگ کے شعبے میں آنا چاہے تو انہیں سرکاری نرسنگ سکول نہ ہونے کے باعث نجی اداروں میں داخلہ لینا پڑتا ہے جس کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے۔'

نرسنگ کے شعبوں میں مردوں کے آنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ظفر اقبال کا کہنا تھا: 'اب دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ وہ سارے کام جیسا کہ ڈرائیونگ جو صرف مردوں کا کام سمجھا جاتا تھا، اب خواتین بھی کررہی ہیں اور کچھ کام جیسے کہ کھانا پکانا، جو خواتین کا کام سمجھا جاتا تھا اب مرد بھی کرہے ہیں۔'

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ 'آج کل کے دور میں سرکاری نوکری ملنا مشکل ہے مگر نرسنگ کے شعبے میں ایک ڈپلوما کرکے سرکاری نوکری آسانی سے مل جاتی ہے، اس لیے بھی مرد نرسنگ میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ دوسرا یہ ہے کہ بیرون ملک بھی نرسنگ کی بہت مانگ ہے تو اکثر مرد اس لیے بھی نرسنگ میں آتے ہیں کہ وہ آسانی سے باہر جاسکیں۔'

پاکستان میں نرسوں کی تعداد کے حوالے سے ظفر اقبال کا کہنا تھا کہ عالمی معیار کے مطابق دو ہزار مریضوں کے لیے آٹھ نرس ہونے چاہییں مگر پاکستان میں اس وقت دو ہزار مریضوں کے لیے صرف ایک نرس موجود ہے۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے معیار کے مطابق جنرل وارڈ میں ایک نرس دس مریضوں کی دیکھ بھال کرے مگر اس وقت ملک میں جنرل وارڈ میں 30 سے 40 مریضوں کے لیے ایک نرس موجود ہے۔

نرسنگ کے شعبے کے مسائل کے حوالے سے ظفر اقبال نے بتایا کہ پاکستان میں نرسوں کا سروس سٹرکچر نہ ہونے کے باعث ان کی پروموشن نہیں ہوتی۔ 'ایک ڈپلوما کرنے والے اور نرسنگ میں بیچلر کی ڈگری رکھنے والے، دونوں کو 16 گریڈ دے دیا جاتا ہے اور پھر کوئی پروموشن بھی نہیں ہوتی اور اکثر نرس اسی گریڈ پر 20،30  سال کام کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں۔'

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان