افغانستان کو پرامن اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں: وزارت خارجہ پاکستان

ترجمان وزارت خارجہ عائشہ فاروقی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں سے متعلق مختلف پالیسی بیان جاری کر رہا ہے۔ ماہرین اس بارے میں متضاد آرا پیش کر رہے ہیں۔

(اے ایف پی)

پاکستان نے افغانستان کے عوام سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے پڑوسی ملک میں امن اور استحکام کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں ہر قسم کی مدد کا یقین دلایا ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے آج ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ 'پاکستان افغانستان کو ایک پرامن، مستحکم،  متحد، جمہوری اور خوشحال ملک دیکھنا چاہتا ہے۔ اور اس سلسلہ میں اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔' 

تاہم دوسری طرف امریکہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کے کردار اور کوششوں سے متعلق ظاہری طور پر گو مگو کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ واشنگٹن میں مختلف امریکی ادارے اس سلسلے میں متضاد خیالات کے حامل نظر آرہے ہیں۔

واشنگٹن افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے سے متعلق پاکستان کی تعریف تو کر رہا ہے۔ تاہم ساتھ ہی افغانستان کے جنگجو گروہوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے کے الزامات بھی لگا رہا ہے۔

بدھ کے روز امریکی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ایلس جی ویلز افغان امن عمل کے لیے پاکستان کی تعریف کرتی ہوئی نظر آئیں۔

انہوں نے ایک آن لائن پریس بریفنگ میں کہا کہ اسلام آباد میں امن کے لیے عزم میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان نے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے طالبان کی حوصلہ افزائی کے لیے تعمیری اقدامات اٹھائے ہیں۔

دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع نے کانگریس کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں پاکستان پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں کو اپنی سرزمین پر پناہ فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع  کی ویب سائٹ پر موجود رپورٹ میں امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کا کہنا ہے: پاکستان نے افغان طالبان کی امن مذاکرات میں شرکت کی حوصلہ افزائی ضرور کی۔ تاہم افغان طالبان پر تشدد ترک کرنے کے لیے زور نہیں ڈالا کیوںکہ اس سے پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ مبینہ تعلقات خطرے میں پڑ سکتے تھے۔

طالبان کا موجودہ موقف:

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا :زلمے خلیل زاد کے ساتھ ملاقاتوں میں طالبان کے ڈپٹی سیاسی امیر ملا برادر نے کہا کہ افغان مسئلہ کا حل امن معاہدے پر عملدرآمد میں مضمر ہے۔

اور اس طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے علاوہ دوسری چیزوں کو ترجیح دینا امن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مترادف ہو گا۔ اب بھی معاہدہ پر عملدرآمد میں تاخیر ہو رہی ہے اور مزید تاخیر اس عمل کو نقصان پہنچائے گا۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

تجزیہ کار امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ کو واشنگٹن کی جانب سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک دن میں ایسا کیا ہو گیا جو دو مختلف محکموں کی طرف سے متضاد رپورٹیں آ رہی ہیں۔

انہوں نے امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ  اسلام آباد کے کابل حکومت سے متعلق جذبات کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ اور یہ رپورٹ شاید اسی چیز کو نیوٹرالائز کرنے کی کوشش ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کابل حکومت میں پاکستان کی طرف تعصب کا عنصر بہت نمایاں ہے اور اسلام آباد کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے۔

امریکہ شاید پاکستان کی کابل حکومت کی اسی ناپسندیدگی کے باعث اس پر دباؤ رکھنا چاہتا ہے۔

طلعت مسعود کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کے کردار سے مطمئن اور خوش ہے۔ تاہم ایسی رپورٹس دوسرے ملکوں پر دباؤ برقرار رکھنے کا طریقہ ہوا کرتی ہیں۔

 بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کا اس سلسلہ میں کہنا تھا: دراصل امریکہ اپنی خفت مٹانے کے لیے پاکستان پر الزامات لگا کر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ  امریکہ پر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اور معاہدے سے متعلق کافی تنقید کی جا رہی ہے۔ اور اس وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ خود بڑے دباؤ کا شکار ہے۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کر کے خود کو نائن الیون سے پہلے والی صورت حال میں دھکیل دیا ہے۔

پروفیسر رفعت حسین کا کہنا تھا کہ محکمہ دفاع کی پاکستان سے متعلق رپورٹ امریکی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اور اسی لیے واشنگٹن پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے تاکہ اپنی خفت مٹا سکے۔

دوسری طرف سینئیر صحافی اور لکھاری زاہد حسین کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی اب کوئی راز  نہیں ہے۔ گذشتہ تین چار سال سے تو یہ بالکل واضح ہو گیا ہے کہ یہ سب پاکستان میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد بھی افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں اور ان کے اہل خانہ کی پاکستان میں موجودگی کی تقریبا تصدیق کرتا رہا ہے۔ اور امریکہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کر چکا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ محض روٹین کی کاروائی لگتی ہے۔ جو محکمہ دفاع اور اس کے ماتحت اداروں کو بہرحال ہر سال بنانا اور امریکی کانگریس کے سامنے پیش کرنا ہوتی ہے۔

زاہد حسین کا خیال تھا کہ اس رپورٹ اور اس میں پاکستان پر لگائے گئے الزامات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ محکمہ دفاع کی رپورٹ کا بالکل بھی مقصد پاکستان پر دباؤ ڈالنا نہیں ہے۔

تجزیہ کار عامر رانا نے بھی زاہد حسین کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ایسی رپورٹس پہلے بھی کئی مرتبہ آچکی ہیں۔ اور ان سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ امریکہ نے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں لیجیٹیمیٹ ایکٹرز کی حیثیت سے تسلیم کر لیا ہے۔ اب امن کے عمل کو آگے بڑھنا چاہئیے۔پاکستان طالبان پر اسی صورت اثر انداز ہو سکتا ہے اگر ان کے ساتھ کوئی انگیجمنٹ ہو۔ جو کہ اس وقت نظر نہیں آ رہی۔

تاہم عامر رانا کا خیال تھا کہ افغانستان میں حالیہ تشدد کے واقعات کے باعث شاید امریکہ نے پاکستان پر یہ الزام لگایا ہے۔

زلمے خلیل زاد کی امن کوششیں

افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بھی افغان طالبان اور افغانستان کی سیاسی قیادت سے ملاقاتوں میں امن معاہدے پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی نمائندوں سے ملاقات کے بعد انہوں ایک ٹوئٹر پیغام میں بتایا: طالبان سے ملاقات میں انتہا پسندی کے خلاف عزم، افغانستان میں مذاکرات، فوج کے انخلا اور پرتشدد واقعات میں کمی جس سے مکمل جنگ بندی ہوسکے گی پر بات ہوئی۔

امریکی سفیر نے افغانستان میں حالیہ پرتشدد واقعات پر تشویش ظاہر کی کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین کو قیدیوں کی رہائی سمیت امن معاہدے پر عمل کرنا ہو گا۔

الگ ٹوئیٹر پیغامات میں انہوں نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقاتوں سے متعلق لکھا: ملک میں پرتشدد واقعات بہت زیادہ ہوگئے ہیں اور جلد تمام فریقین کو ان میں کمی کے لیے کوشش کرنے ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوحہ میں افغان طالبان سے ملاقات کے بعد وہ کابل روانہ ہوئے۔

افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ نے بھی امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں قیام امن سے متعلق معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

عید الفطر سے قبل جاری ہونے والے ایک پالیسی بیان میں انہوں نے کہا کہ اسلامی امارات امریکہ سے دوحہ میں طے پانے والے معاہدہ پر کاربند ہے۔ اور اسی سے ملک میں امن کی واپسی ممکن ہو سکے گی۔

انہوں نے مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان بھی کیا اگر وہ اپنے مخالف گروہوں میں شامل افغان جنگجو بھی دشمنی ترک کرنے کا اعلان کر دیں۔

ملا ہیبت اللہ نے افغانستان کے عام شہریوں کی حفاظت، خواتین کے حقوق اور غیر ملکی این جی اوز کی مدد کے حوالے سے بھی اپنے بیان میں ذکر کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان