فرانزک رپورٹ:'جہانگیر ترین، مونس الٰہی، اومنی گروپ ذمے دار'

ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک کرنے کے لیے بننے والے چھ رکنی تحقیقاتی کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ میں جہانگیر ترین، مونس الٰہی، اومنی گروپ اور عمرشہریار کو چینی بحران کا ذمہ دار قرار دے دیا ۔

(اے ایف پی)

ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک کرنے کے لیے بننے والے چھ رکنی تحقیقاتی کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ میں جہانگیر ترین، مونس الٰہی، اومنی گروپ اور عمرشہریار چینی بحران کو ذمہ دار قرار دے دیا اور فرانزک آڈٹ رپورٹ میں چینی اسیکنڈل میں ملوث افراد کےخلاف فوجداری مقدمات درج کرنے اور ریکوری کرنےکی سفارش کی گئی ہے ۔

واضح رہے کہ ملک میں پیدا ہونے چینی بحران کے باعث شوگر انکوائری کمیشن 10 مارچ کو تشکیل دیا گیا۔ شوگر کمیشن انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت قائم کیا گیا۔ شوگر کمیشن ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں 6 رکنی ممبران پر مشتمل تھا۔ کمیشن میں ڈی جی اینٹی کرپشن گوہر نفیس، ڈپٹی ڈی جی آئی بی احمد کمال، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایس ای سی پی بلال رسول، جوائنٹ ڈائرکٹر سٹیٹ بینک ماجد حسین چوہدری اور ڈی جی ایف بی آر انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ ڈاکٹر بشیر اللہ خان بھی شامل تھے۔

انکوائری کمیشن نے 63 دنوں میں رپورٹ تیار کی۔ اس دوران 220 مختلف افراد سے پوچھ گچھ کی۔

رپورٹ میں جے ڈی ڈبلیو شوگر مل۔ خسرو بختیار۔ سلمان شہباز کی شوگر ملز سمیت 10 شوگر ملز کا آڈٹ کیا گیا۔ رپورٹ میں 600 ارب روپے سے زائد مالیت کے بے نامی کاروبار کا آڈٹ کیا گیا۔ فرانزک آڈٹ کے دوران کمیشن نے اسد عمر، خرن دستگیر اور شاہد خاقان عباسی کے بیانات ریکارڈ کیے۔ اس کے علاوہ عثمان بزدار اور رزاق داود بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے جبکہ وزیراعلی سندھ  طلبی کے باوجود پیش نہ ہوئے۔

رپورٹ کے مندرجات:

رپورٹ میں لکھا گیا ہےکہ شوگرملز کسانوں کو امدادی قیمت سے کم قیمت دیتی ہیں اور کسانوں کو گنے کےوزن میں 15 فیصد سے زیادہ کٹوتی کی جاتی ہے۔ کچی پرچی اور کمیشن ایجنٹ کے ذریعے کم قیمت پر کسانوں سےگنا خریدا جاتا ہے اور  اس کی لاگت زیادہ دکھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں بتایا کہ 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا اور شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک مقدار کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں جب کہ چینی کی قیمتوں میں 33 فیصد اضافہ ہوا۔

 2018-2017 میں شوگر ملز نے چینی کی فی کلو لاگت 51 روپے رکھی جب کہ اس عرصے میں فی کلو لاگت38 روپے تھی۔

 2019-2018 میں اصل لاگت میں ساڑھے 12 روپے فی کلو کا فرق پایا گیاجب کہ 20-2019  میں چینی کی فی کلو لاگت میں 16 روپے کا فرق پایا گیا۔

کسانوں کے ساتھ مل مالکان اَن آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شہباز شریف فیملی کی کمپنی میں ڈبل رپورٹنگ ثابت ہوئی، 2018۔2017 میں انہوں نے ایک اعشاریہ تین ارب روپے اضافی کمائے جب کہ19۔2018 میں انہوں نے 78 کروڑ روپے اضافی کمائے۔

فرانزک آڈٹ میں شارٹ لسٹ کی گئِی ملز میں پہلی مل الائنس ہے جو  'آر وائی کے'گروپ کی ملکیت ہے، آر وائی کےگروپ میں مونس الٰہی کے 34 فیصد شیئرز ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے اومنی گروپ کے فائدے کے لیے سبسڈی دی. سندھ حکومت نے 9.3 ارب روپے کی سبسڈی دی، کمیشن نے لکھ دیا ہے کہ اومنی گروپ کو فائدہ دینے کے لیے سبسڈی دی گئی، 20-2019 میں وفاق نے کوئی سبسڈی نہیں دی، 2018میں شاہد خاقان عباسی کے دور میں سبسڈی دی گئی۔

رپورٹ میں دی گئی تجاویز:

رپورٹ میں تجاویز دی گئیں کہ ریکوری کی رقم گنےکےمتاثرہ کسانوں میں تقسیم کردی جائے۔

کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا ہے، جن کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی، کمیشن نے کیسز نیب، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے۔

جہانگیر ترین کا رپورٹ پر ردعمل:

وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین نے رپورٹ منظر عام پر آنے اور خود فراڈ کا پر الزام لگنے کے حوالے سے بیان دیا کہ 'مجھ پر جو الزامات لگائے گئے اس پر شاکڈ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ اپنا کاروبار شفاف طریقے سے کیا ہے اور ہمیشہ اپنے کاشتکاروں کو مکمل قیمت ادا کی ہے۔ ہمیشہ مکمل ٹیکسز ادا کیے ہیں اور خود پر لگے الزامات غلط ثابت کروں گا۔'

تاہم جہانگیر ترین سے رابطہ کرنے پرانہوں نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ کیا وہ یہ رپورٹ عدالت میں چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔'

مونس الہیٰ کا رد عمل

مونس الہی کا موقف یہ تھا کہ وہ کسی شوگر مل کے انتظامی معاملات نہیں دیکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں کمیشن کے تمام اقدامات کی پرزور حمایت کرتے ہیں۔

شہزاد اکبر  کی میڈیا سے گفتگو:

اس سارے معاملے پر وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم ہمیشہ کہتے ہیں کاروبار کرنے والا سیاست میں بھی کاروبار کرے گا، وزیراعظم کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے۔ انہوں نے  بتایا کہ خسرو بختیار کے بھائی کی شوگر مل ہے ان کی اپنی نہیں ہے۔ خسرو بختیار کے بھائی کے پاس کوئی سیاسی عہدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھائی کی کرپشن پر خسرو بختیار کو عہدہ چھوڑنے کا نہیں کہ سکتے۔ جو براہ راست ملوث ہوگا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ نے ریکوری کرکے پیسے عوام کو دینے کی سفارش کی ہے اور وزیراعظم نے مجھے اس کی ذمہ داری سونپی ہے۔

مشیر برائے احتساب کا کہنا تھا کہ عید کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر سفارشات تیار ہوں گی، ابھی کسی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر نہیں ڈالا گیا، کوئی تحقیقاتی ادارہ کہے گا تو کابینہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پر غور کرے گی جبکہ آٹے اور چینی کی مدد میں چوری پر کیسز بھی بن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دواؤں والے معاملے میں انکوائری مجھے سونپی گئی تھی، انکوائری کررہا ہوں کہ کیا جن دواؤں کی اجازت دی گئی وہی درآمد کی گئی ہیں۔

خیال رہے کہ ملک میں گذشہ عرصے کے دوران چینی بحران کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر  کی گئی تحقیقات میں  وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے انکشاف کیا  تھا کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔

اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک کرنے کا حکم دیا تھا۔ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ 25 اپریل تک مکمل ہونا تھا تاہم بعد ازاں کمیشن کو رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید 3 ہفتوں کی مہلت دی گئی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان