کرونا وائرس کے دور کی عید 

اگر ہم کرونا کے دور کی اس عید کو یادگار بنانے کے لیے اپنی انائیں قربان کر دیں تو یہ عید پرانی عیدوں کی مانند بن جائے گی جب ہم بچے تھے۔

جون 2019 کی اس تصویر میں عید کی نماز کے بعد دو بچےعید ملتے ہوئے (اے ایف پی)

پتہ نہیں اس سال کرونا (کورونا) وائرس کے ڈر سے مسجدوں میں باجماعت نمازوں اور تراویح کو ترک کر کے اور گھر کے قرنطینہ میں رکھے گئے روزوں کے بعد آنے والی عید کیسے ہو گی۔ 

عید تو ویسے بھی گذشتہ ایک عشرے سے ایک عجیب سی ہوگئی ہے جس کی بنیادی وجہ ہمارے سارے خاندان کے سارے بزرگوں کا ایک ایک کر کے اللہ میاں کے پاس جانا ہے۔ تو دوسری جانب بچپن کا خاتمہ ہے جو کہ اب بڑھاپے کی جانب گامزن ہے۔ ہمارا بچپن کب کا ختم ہوا اور کب ہم بزرگوں کی جگہ لینے کے نزدیک پہنچ گئے ہیں، اس کا پتہ ہی نہیں چلا۔ 

اب توعید کے دن گاؤں کے بڑے بزرگوں کی جگہ نئے نئے جوان چہرے سامنے ہوتے ہیں۔ جن کو مشابہت سے پہچانا جاتا ہے کہ یہ بچہ فلاں خاندان کا ہے۔ جس طرح ہمیں گاؤں کے بڑے اپنے خاندان والوں سے پہچانا کرتے تھے تو سوچنے لگتے تھے کہ کس طرح میرے خاندان والوں سے مجھے پہچانا گیا ہے۔ یہ گتھی بہت عرصہ تک سلجھی نہیں مگر اب ہمیں بھی تجربہ ہو گیا ہے، اب ہم بھی بچوں کو اُن کے والدین سے پہچان لیتے ہیں یعنی کہ سب کھیل تجربے کا ہوتا ہے اور ہم بھی اب اس عمر میں پہنچ گئے ہیں کہ تھوڑا بہت تجربہ کار سمجھے جاتے ہیں۔ اور وہ گتھی سلجھ گئی ہے۔ 

کہتے ہیں کہ عید بچوں کی ہوتی ہے کیونکہ ہمیں اب عید ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ نماز پڑھ لی گھر آ کر تھوڑا میٹھا چکھا اور سوگئےاور یوں عید گزررگئی۔ مگر جب بچے تھے سال پہلے عید کا انتظار کرتے تھے۔ جب عید ختم ہوتی تو اگلی عید کا انتظار شروع ہوجایا کرتا۔ جس طرح میرا بیٹا ضیاف مہینے اور دن گنا کرتا ہے۔ جب خوبصورت کپڑے اور جوتے دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ عید پر لوں گا۔ حالانکہ اُن کپڑوں سے اچھے کپڑے پہنے ہوتے ہیں مگر عید کے لیے منفرد چیز پہننا ہر بندے کا شوق ہوتا ہے ہمارا بھی تھا آج کے بچوں کا بھی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چھوٹوں کی عیدیں اب بھی مزے سے بھرپور ہیں، بڑوں کی پہلی عیدیں بہترین تھیں مگر اب ہم بڑوں کی عیدیں پھیکی ہو گئی ہیں جس کی بنیادی وجہ ذاتی عناد‍‍، انائیں اور دشمنیاں ہیں۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہونے والی لڑائیوں کو پانی پت کی لڑائیوں میں تبدیل کر چکے ہیں۔ کوئی ایک بات کرتا ہے ہم تین کر کے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ایک بندہ برداشت کر لے تو مسئلہ ہی نہ ہو۔

ذرا دس بیس سال پیچھے کی عیدوں کو یاد کر لیں۔ لوگ اس وقت کتنے گھرانوں میں عید ملنے جاتے تھے اور اب کتنے گھروں میں جایا جاتا ہے۔ فرق صاف سامنے آجائے گا۔ اگر آج کل کسی کے گھر جایا بھی جائے تو صرف سلام کیا جاتا ہے اور یوں جان چھڑائی جاتی ہے کہ اور گھروں میں بھی جانا ہے اس لیے پھر کبھی فرصت میں بیٹھیں گے۔ مگر وہ پھر کبھی کا آنا اگلی عید تک ملتوی ہو جاتا ہے۔ 

اس دفعہ کرونا وائرس کی وجہ سے سارے لوگ ایک انجانے ڈر اور خوف کا شکار ہیں۔ وائرس کا بہانہ کر کے اس دفعہ بہت سے لوگ ہو سکتا ہے عید کی نماز بھی نہ پڑھیں، دوسروں کے گھر جانا تو دور کی بات ہے۔ ابھی سے خاندانوں میں بات ہو رہی ہے کہ اس دفعہ کسی بھی گھر نہیں جائیں گے کیا پتہ کہیں سے کرونا وار کر دے۔ 

جبکہ دوسری جانب بچے کرونا کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں کہ فلاں کپڑے پہنیں گے فلاں جوتے اور فلاں دوستوں سے ملیں گے اور فلاں جگہ سیر کے لیے جائیں گے۔ وہ اس لیے بھی زیادہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ اس کے بعد پھر سکول کھلنے ہیں۔ بچوں کی جانب سے اُسی طرح عید منانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جس طرح کبھی ہم کرتے تھے۔ 

کاش ہم بڑے بھی ان بچوں سے کچھ سیکھیں۔ دلوں کی کدورتیں نکال دیں، کم ازکم عید کے دن تو ایک دوسروں کو عید مبارک کہنے جائیں۔ دوستوں سے تو ہر کوئی ملتا ہے دشمنوں سے عید ملنے کی روایت ڈالیں۔ کیا پتہ اگلے برس ہمیں عید مبارک کہنے یا کسی سے عید ملنے کی مہلت ہی نہ ہو۔ جس طرح ہمارے بزرگوں کو اب مہلت نہیں جن کے لیے ہم صرف عید کے دن قبرستان جا کر ان پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ کیا پتہ اگلی عید کوہم پر فاتحہ پڑھی جائے۔ 

اگر ہم کرونا کے دور کی اس عید کو یادگار بنانے کے لیے اپنی انائیں قربان کر دیں تو یہ عید پرانی عیدوں کی مانند بن جائے گی جب ہم بچے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ