پنجاب پولیس کے 'سمارٹ' افسران

اگرچہ پاکستان میں پولیس اہلکاروں کے بارے میں مخصوص سوچ پائی جاتی ہے، لیکن پنجاب پولیس کے یہ افسران اپنے محکمے کا امیج تبدیل کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔

اے ایس پی آمنہ بیگ (دائیں)  ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور ڈاکٹر انعام وحید   (درمیان)  اے ایس پی بینش عزیر (بائیں) -( تصاویر: سوشل میڈیا)

چند روز قبل ٹوئٹر پر ایک تصویر دیکھ کرکافی دیر تک چہرے پر مسکراہٹ رہی۔ اس تصویر میں ایک چست فوجی، نرس، ڈاکٹر اور ایک موٹے پیٹ والا پولیس افسر کھڑے تھے اور ان سب کو قوم کا ہیرو دکھایا گیا تھا۔

اس تصویر کے ساتھ جوعبارت تحریر تھی، اصل ہنسی اس پر آئی، جس میں لکھا تھا: 'یہ بات تو طے ہے کہ ان پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے محسن ہیں۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ اگلی دفعہ جب اس طرح کی تصویر آئے تو پولیس والے کا پیٹ ذرا چھوٹا کرلیا جائے تو مہربانی ہوگی۔ پولیس میں بھی سمارٹ لوگ ہیں۔ یقین کیجیے۔'

یہ ٹویٹ لاہور کے ایس پی عاطف نذیر کی تھی۔ ان کی مزید ٹویٹس دیکھیں تو انہوں نے کئی جگہوں پر سنجیدہ پیغام کو ہلکے پھلکے انداز میں لوگوں تک پہنچایا تھا۔

کچھ ٹویٹس ایسی بھی تھیں جن میں پولیس کے کارنامے یا جرائم وغیرہ سے متعلق معلومات تھیں۔

ایس پی عاطف نذیر ٹوئٹر پر متحرک واحد پولیس افسر نہیں بلکہ پنجاب پولیس کے آفیشل ٹوئٹر پیجز کے علاوہ بہت سے افسران، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ کو بے حد موثر انداز سے استعمال کر رہے ہیں اور ان کے فالوورز بھی ہزاروں میں ہیں۔ 

ہم نے سوچا کیوں نہ ان پولیس افسران سے پوچھا جائے کہ وہ روایتی پولیس اہلکاروں سے مختلف کیوں ہیں اور اس طرح ٹوئٹر پر عوام سے رابطے میں رہنے سے ان کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟

ایس پی عاطف نذیر 

عاطف نذیر نے بتایا کہ یوں تو ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بہت پرانا ہے مگرانہوں نے اسے باقاعدہ طور پر رواں برس استعمال کرنا شروع کیا، جس کی مختلف وجوہات ہیں۔

ان کا کہنا تھا: 'تمام سماجی رابطوں کی ویب سائٹس میں سے معلومات حاصل کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ٹوئٹر ہے۔ میرے اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ یہ میرا ذاتی اکاؤنٹ ہے۔ اگر کوئی ایسا جرم ہوا ہے کہ جس کے بارے میں لوگوں کو بتانا ضروری ہے تو وہ میں ضرور ٹویٹ کرتا ہوں تاکہ لوگوں تک صحیح معلومات پہنچیں۔

'اس کے علاوہ میں ایسی چیزیں بھی ٹویٹ کرتا ہوں جنہیں میں خود دیکھ یا پڑھ کرلطف اندوز ہوتا ہوں۔'

انہوں نے مزید کہا 'میری کوشش ہوتی ہے کہ لوگ سمجھیں کہ پولیس والے بھی عام انسان کی طرح ہیں۔ ان کا بھی کھیلنے کودنے، لطیفے کہنے کا دل چاہتا ہے یا وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔'

اے ایس پی آمنہ بیگ

آمنہ کہتی ہیں کہ 'پولیس کے بارے میں لوگوں کا ایک ہی خیال ہے کہ وہ ایک موٹا سا آدمی ہوگا۔ ہم اس سوچ کو تبدیل کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سرگرم خواتین پولیس آفیسرز دراصل لوگوں کو بتا رہی ہیں کہ مردوں کے علاوہ خواتین بھی پولیس میں ہیں۔'

 آمنہ کہتی ہیں، 'خواتین پاکستان کی کل آبادی کا 49 فیصد ہیں جبکہ پوری پولیس فورس میں خواتین افسران کی شرح صرف 1.6 فیصد ہے۔ عورتیں تھانوں میں آنے کے خیال سے گھبراتی ہیں۔ ہمارے ٹوئٹر پر آنے سے بہت سارے لوگوں کو معلوم ہوا کہ اگر کسی خاتون کو کوئی قانونی مسئلہ ہو تو تھانے میں ایک خاتون افسر بیٹھی ہے جس سے وہ بات کر سکتی ہیں۔'

انہوں نے مزید بتایا: 'مجھے بہت سے میسجز آتے ہیں جن میں لڑکیاں بتاتی ہیں کہ انہیں بلیک میل کیا جا رہا ہے یا ان کی تصاویر کا کوئی غلط استعمال کر رہا ہے۔ اسی طرح پڑھے لکھے خاندانوں کی خواتین بھی مجھے ان باکس کرتی ہیں کہ وہ گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔'

آمنہ کے مطابق خواتین کو اپنے حقوق اور قوانین کا معلوم نہیں۔ ایسی صورت میں ہمارا خواتین سے تھانے کے علاوہ رابطہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور ڈاکٹر انعام وحید

انعام وحید ایک پولیس افسر کے علاوہ ڈاکٹر، نفسیات دان اور موٹیویشنل سپیکر بھی ہیں، جن کے ٹوئٹر پر ہزاروں فالوورز ہیں۔

انعام وحید بتاتے ہیں کہ وہ ٹوئٹر پر اس لیے آئے کہ معاشرے میں پولیس کے خلاف بہت زیادہ منفی سوچ ہے۔ 'لوگ سمجھتے ہیں کہ پولیس والے مغرور ہوتے ہیں یا انہیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہوتی۔ میں منفی سوچ پر یقین نہیں رکھتا اور مثبت سوچ کو پھیلانا چاہتا تھا۔ دوسرا میں یہ تاثر ختم کرنا چاہتا تھا کہ پولیس افسر پہنچ سے باہر ہیں۔'

انعام وحید کی ٹویٹس دیکھیں تو وہ انجان لوگوں سے براہ راست بات بھی کرتے ہیں اور ان کی ٹویٹس کا جواب بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: 'میں منفی کمنٹس کا جواب نہیں دیتا البتہ جب مجھے لگتا ہے کہ یہاں کوئی مثبت بات کی جا سکتی ہے یا ان کو مثبت انداز میں سمجھایا جا سکتا ہے تو وہاں میں ضرور بات کرتا ہوں۔'

انعام وحید کہتے ہیں کہ دراصل سوشل میڈیا پر لوگ اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق بات کرتے ہیں، ایسے میں لوگوں کو مختلف طریقوں سے ٹریٹ کرنا ہوتا ہے اور انہیں سمجھنا ہوتا ہے۔ 'عوام کے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ ان سے بات کرنے کا گُر جانتے ہوں اور اس کا بہترین طریقہ سوشل میڈیا ہے کیونکہ اس پرلوگ کھل کر بات کر سکتے ہیں۔'

اے ایس پی بینش عزیر

بینش کہتی ہیں کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے پولیس والوں کے دفاتر اور لوگوں کے گھروں کے درمیان فاصلہ ختم کر دیا ہے۔ 'مجھے بہت سے لوگ میرے علاقے سے جڑی شکایات ان باکس کر دیتے ہیں۔ کئی ایسی شکایت جس پر انہیں تھانے سے کوئی جواب نہیں ملتا تو فوراً ہم اس پر ایکشن لیتے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ پولیس افسر اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹس کے ذریعے اپنی کارکردگی دکھانے کے علاوہ مختلف موضوعات پر اپنی ذاتی رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

بینش کے مطابق: 'اکثر ذاتی ٹویٹس پر لوگ کمنٹ کرتے ہیں کہ آپ ہر وقت ٹوئٹر پر ہوتے ہیں تو کام کب کرتے ہیں؟ اس پر میں کہتی ہوں کہ گھر آ کر ہماری ذاتی زندگی ہے، اردگرد کے واقعات ہم پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور اس حوالے سے ہم اپنی ذاتی رائے ٹوئٹڑ پر شئیر کرتے ہیں۔'

انہوں نے بتایا کہ 'اگر 90 فیصد کمنٹس مثبت ہیں تو 10 فیصد منفی بھی ہیں مگر وہ ان کی زیادہ پرواہ نہیں کرتیں۔'

آر پی او راولپنڈی ڈاکٹر سہیل حبیب تاجک

سہیل تاجک نے بتایا کہ ٹوئٹر کے ذریعے آپ اپنی ذاتی رائے کا اظہار کر پاتے ہیں۔ کافی معلومات یک طرفہ چل رہی ہوتی ہیں، ہم سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا دوسرا پہلو بھی سامنے لے آتے ہیں یا پھر ہم غیر مصدقہ یا غلط معلومات کی تصیح کر دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: 'لوگوں کو ویسے بھی تجسس ہوتا ہے۔ وہ کسی کیس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ معلومات شیئر کر لیتے ہیں۔ لوگ مدد کے لیے بھی ہم سے رابطہ کرتے ہیں،

خاص طور پر کرونا وبا کے دنوں میں کسی کو راشن یا پیسوں کا مسئلہ ہے تو وہ ہم تک سماجی رابطوں کے ذریعے پہنچتے ہیں اور ہم ان تک حل کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں۔'

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان