امریکہ کو کرونا سے بچاؤ کا سامان عطیہ کرنے پر حکومت پر تنقید

سوشل میڈیا پر بحث اس وقت شروع ہوئی جب امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد ملک نے گذشتہ رات اپنی ایک ٹویٹ میں اعلان کیا کہ پاکستانی افواج نے آج امریکی افواج کو جہاز بھر کر ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) بطور تحفہ بھجوایا ہے۔

امریکی سیکریٹری خارجہ  مائیک پومپیو نے کرونا  وائرس سے بچاؤ کا سامان عطیہ کرنے پر پاکستان کے جذبہ خیر سگالی کو سراہا۔ (تصویر: مائیک پومپیو ٹوئٹر اکاؤنٹ)

ہم آئے روز مرکزی میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ پاکستان میں صحت کے شعبے سے وابستہ عملہ کرونا (کورونا) وائرس سے بچاؤ کے لیے استعمال ہونے والے ذاتی حفاظتی سامان (پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ یا پی پی ای) کی کمی اور عدم دستیابی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔ ابتدا میں تو یہ صورت حال کافی خراب تھی، تاہم اب مقامی طور پر فیس ماسک، دستانوں اور پی پی ایز کی تیاری کے باعث اس کمی کا کچھ ازالہ ہوا ہے تاہم اب بھی کہیں نہ کہیں سے کوئی شکایت سامنے آہی جاتی ہے۔

پاکستان کو چین اور دیگر ممالک کی جانب سے بھی طبی سازوسامان اور معاونت فراہم کی گئی تھی، لیکن اب پاکستان کی جانب سے امریکہ کو ذاتی حفاظتی سامان فراہم کیے جانے کی خبر نے لوگوں کو یہ سوال اٹھانے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا پاکستان کی اپنی ضروریات پوری ہوگئی تھیں جو اب یہ سامان امریکہ جیسے ملک کو عطیہ کیا جارہا ہے؟

یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد ملک نے گذشتہ رات اپنی ایک ٹویٹ میں اعلان کیا کہ پاکستانی افواج نے آج امریکی افواج کو جہاز بھر کر ذاتی حفاظتی سامان بطور تحفہ بھجوایا ہے۔

امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے بھی اس حوالے سے ٹویٹ کی اور پاکستان کے اس جذبہ خیر سگالی کو سراہا۔

امریکی اخبار ’دا ہل‘ کے مطابق پاکستان ایئر فورس کی جانب سے ایک لاکھ حفاظتی ماسک اور 25 ہزار حفاظتی لباس بطور عطیہ موصول ہوئے ہیں۔

اس خبر کے آتے ہی لوگوں نے سوشل میڈیا پر تنقید شروع کردی۔

سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر سوال کیا: ’پاکستان ڈاکٹرز اور عوام کے پاس فیس ماسک موجود نہیں ہیں تو پاکستان کیسے فیس ماسک برآمد کر سکتا ہے؟‘

ٹوئٹر صارف عمیر سولنگی نے پاکستانی ہسپتال میں موجود ڈاکٹر کی ایک میبنہ تصویر بھی شیئر کی جس میں ڈاکٹر کے پاس حفاظتی سامان موجود نہیں تھا۔

صحافی بلال فاروقی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’ہم کیسے عطیہ کر سکتے ہیں جب ہمارے اپنے ہاں قلت ہے، ہمارے ڈاکٹر اور طبی عملے کے لوگ بیمار ہو رہے ہیں اور مر رہے ہیں، این ڈی ایم اے کو یہ سامان صوبوں کو بھجوانا تھا۔‘

ایک امریکی شہری ڈیشل فٹری نے بھی اس عطیہ کے حوالے سے امریکی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ ’کیا کسی اور کو بھی اس بات پر دکھ ہے کہ پاکستان جیسا ملک امریکہ کو عطیہ کر رہا ہے؟‘ ڈیشل فٹری نے مزید کہا کہ اس بحران نے یہ دکھایا ہے کہ امریکہ تیسری دنیا کا ایسا ملک ہے جس نے گوچی بیلٹ (مہنگی برینڈڈ بیلٹ) پہنی ہو۔

کیا پاکستان میں حفاظتی سامان کی قلت ہے؟

نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین جنرل محمد افضل نے 13 مئی کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ پاکستان کو کرونا وائرس کے آغاز میں ماسک کی فراہمی کے لیے مشکلات کا سامنا تھا کیوں کہ دنیا بھر میں ماسک کی مانگ بڑھ گئی تھی مگر اب پاکستان سوائے وینٹی لیٹرز کے اپنی باقی ضروریات باآسانی پوری کر رہا ہے۔

چئیرمین این ڈی ایم اے نے یہ بھی کہا کہ N-95 ماسک بھی اب پاکستان میں بن رہے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا: ’مجھے آنے والے دنوں میں یہ فکر ہونے لگی ہے کہ اتنے لوگ جو اس روزگار کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ان سے میں اگر اتنا سامان خریدوں گا تو وہ بنا کر باقی کا کیا کریں گے، اس کے اوپر ابھی سوچ بچار ہو رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی پی ای پر بھی چئیرمین این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ وہ اب تمام کا تمام پاکستان سے ہی خریدا جا رہا ہے اور گوداموں میں اگلے ایک مہینے کا سامان موجود ہے۔

صوبوں میں حفاظتی سامان کی تقسیم کے حوالے سے جنرل محمد افضل کا کہنا تھا: ’جب پہلی کھیپ تمام صوبوں کے ہسپتالوں کو براہ راست اطلاع کے ساتھ بھیجی گئی تھی تو مجھے بہت ساری شکایتیں موصول ہوئیں کہ سامان ڈاکٹروں اور نرسوں کے پاس نہیں پہنچ رہا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’دوسرے مرحلے میں، میں نے آرمی چیف سے درخواست کی اور انہوں نے تمام علاقائی کور کو ہدایات جاری کیں اور اس کے بعد سے آج تک متعلقہ کور ہیڈ کوارٹر سامان ہمارے گودام سے لیتے ہیں، ہمیں رسید دیتے ہیں اور جا کر اپنے علاقے کے جتنے ہسپتال ہیں ان کو فراہم کرتے ہیں اور وہاں کے ایم ایس یا سٹور کیپر سے اپنے لیے رسید لے کر آتے ہیں۔‘

چیئرمین این ڈی ایم اے کے بیان کے برعکس 17 مئی کو حیدرآباد کے ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں حفاظتی لباس کی قلت کا ذکر کیا گیا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اسی حوالے سے تازہ صورت حال جاننے کے لیے این ڈی ایم اے سے رابطہ کیا مگر خبر کے فائل کرنے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل