کراچی طیارہ حادثہ: بکنگ سسٹم میں خرابی نے موت سے بچا لیا

مصطفیٰ نے جمعرات کو پی کے۔ 8303 میں سیٹ کنفرم کروانے کے لیے تین بار آن لائن رقم ادا کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار سسٹم کی غلطی نے انہیں بُکنگ سے روکے رکھا۔

سید مصطفیٰ احمدآٹھ مئی کو لاہور میں کرونا ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیوں کے  دوران (سید مصطفیٰ احمد)

سید مصطفیٰ احمد نے جمعرات کو پاکستان انٹرنیشل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے طیارے پی کے۔ 8303 پر سیٹ نمبر 13۔ اے کنفرم کروانے کے لیے تین بار آن لائن رقم ادا کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار سسٹم کی غلطی نے انہیں بُکنگ سے روکے رکھا۔ اس طیارے نے لاہور سےکراچی جانا تھا۔

احمد پریشان ہو گئے۔ انہیں جمعے کو شام پانچ بجے سے پہلے کراچی پہنچنا تھا۔ کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ روابط منقطع  تھے اور ان حالات میں پی آئی اے کی یہ پرواز اُن کے لیے سفر کا بہترین ذریعہ تھی۔

احمد نے عرب نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا: 'میں نے سیٹ نمبر 13۔ اے کے لیے بکنگ کروائی لیکن جب رقم کی ادائیگی کا مرحلہ آیا تو سسٹم میں خرابی آ گئی۔ 'میں نے تین بار کوشش لیکن آخری مرحلے میں ویب سائٹ نے مجھے ادائیگی اور بکنگ کنفرم کرنے سے روک دیا۔'

انہوں نے پریشان ہو کر ایک دوست کو ٹیلی فون کیا، جو کسی دوسری فضائی کمپنی میں کام کرتے تھے اور اُن سے مسئلے کے حل کے لیے مدد مانگی۔ 'میرے ایک دوست سیرین ایئرلائنز میں کام کرتے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ میں اس پرواز میں جانا چاہتا ہوں۔ میں نے بکنگ کروانے میں اُن سے مدد کے لیے کہا۔ ہم نے دوبارہ کوشش کی لیکن بکنگ نہ ہو سکی۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احمد نے اُس ایئربس اے 320 میں سیٹ حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جو لینڈنگ سے چند لمحے پہلے کراچی کے ایک گنجان آباد علاقے میں زمین پر گر کر تباہ ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق طیارے میں 98 افراد سوار تھے۔

عرب نیوز کی اس رپورٹ کے مطابق کراچی میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ سوشل انٹرپرائز'ایم مارکینٹ' کے مالک مصطفیٰ احمد گلگت میں 90 دن گزار کر لاہور پہنچے تھے۔ وہ کرونا وائرس کے دنوں میں بچوں اور جانورں کے لیے امدادی سرگرمیوں میں حصے لینے گلگت گئے تھے۔

مصطفیٰ 'سرونٹس آف ہیومینیٹی' نامی مہم چلاتے ہیں جو اُن کے مطابق انہوں نے عبدالستارایدھی کی زندگی سے متاثر ہو کر شروع کی۔

احمد نے کہا: 'میں کراچی میں اپنے گھر واپس جانے کے لیے بےچین تھا تاکہ اُن سو سے زیادہ یتیم بچوں کے لیے عید گفٹ تیار کر کے انہیں تقسیم کرسکوں جن کی ہم شہر میں سرپرستی کرتے ہیں۔

'میں پی آئی اے کی فلائیٹ لینا چاہتا تھا کیونکہ اس کے کراچی پہنچنے کے وقت یقینی تھا کہ میں شام پانچ بجے شروع ہونے والے لاک ڈاؤن سے پہلے کراچی پہنچ جاؤں گا۔ جب میں سیٹ بُک کروانے کے لیے ادائیگی میں ناکام رہا تو سیرین ایئرلائنز میں کام کرنے والے میرے دوست نے مجھ سے کہا میں اُن کی کمپنی کی پرواز پر مفت ٹکٹ پر سفر کروں۔ اس پرواز نے جمعرات کو شام چار بجے روانہ ہونا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا، 'میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا کیونکہ اس کا مطلب تھا کہ میں اپنے مطلوبہ وقت کے بعد کراچی پہنچوں گا، لیکن دوست نے اصرار کیا میں اُن کی پیش کش پر غور کروں اور اُس رقم کے بارے میں سوچوں جو میں نے اُن بچوں کو عید پر دینے کے لیے جمع کی تھی۔ میں نے دوست کے ساتھ اتفاق کرلیا۔'

جمعرات کی شام کو بحفاظت کراچی پہنچنے کے بعد احمد کے فون پر ایک گوگل الرٹ دکھائی دیا جس میں بتایا گیا کہ سسٹم کی غلطی ٹھیک کر لی گئی ہے اور اگر آپ چاہیں تو پی آئی اے کی پرواز کے لیے بکنگ کروا سکتے ہیں۔ اُس وقت تک وہ گھر پہنچ چکے تھے۔

احمد نے کہا: 'جب جمعے کی دوپہر طیارہ گر کر تباہ ہوا تو مجھے دوستوں اور خاندان کے لوگوں کی کالیں موصول ہوئیں۔ میں اُن میں سے کئی لوگوں کو بتانا بھول گیا تھا کہ میں نے پہلے کی پرواز لے لی تھی۔ اُن کا خیال تھا میں پی آئی اے کی پرواز 8303 میں سوار تھا۔

'میرا خیال ہے کہ آپ اسے خوش قسمتی کہہ سکتے ہیں لیکن اس سے مجھے پتہ چلا کہ جب ہم اپنے لیے منصوبے بناتے ہیں تو خدا ہمارے لیے کچھ منصوبہ بناتا ہے۔ خدا نے تب بھی کوئی اور منصوبہ بنا رکھا تھا۔ یہ پرواز میرے لیے نہیں تھی۔'

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی