پاکستان میں کمرشل ائیر ٹرانسپورٹ سیفٹی کا کوئی مستقل ادارہ  فعال نہیں

سول ایوی ایشن رولز 1994 کے تحت  یہ تفتیشی بورڈ  ڈی جی سول ایوی ایشن کو رپورٹ کرتا ہے۔ تاہم فی الحال یہ عہدہ ایک کل وقتی افسر کا منتظر ہے۔

ہوا بازی ڈویژن نے وفاقی حکومت کی جانب سے پی کے  8303 کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی بورڈ کے قیام کی منظوری دی ہے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے ماتحت ادارے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے مطابق دنیا میں ہر دو سیکنڈ بعد ایک مسافر طیارہ اترتا ہے۔

ایوی ایشن حادثات پر انٹرنیشنل سول ایوی ایشن کی تحقیق کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر دس لاکھ  پروازوں سے اوسطاً ایک حادثہ رپورٹ ہوتا ہے۔

 تحقیق سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اب تک دنیا بھر میں رپورٹ  ہونے والے واقعات میں طیارے زیادہ تر نیچے اترتے ہوئے، ائیرپورٹ کے قریب پہنچنے کے دوران یا پھر رن وے پر لینڈنگ کے دوران حادثات کا شکار ہوئے۔

پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے طیارے پی کے 8303 کو بھی جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کراچی رن وے پر لینڈنگ سے قبل حادثے کا سامنا  ہوا۔

ہوا بازی ڈویژن نے وفاقی حکومت کی جانب سے پی کے  8303 کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی بورڈ کے قیام کی منظوری دی ہے۔

جاری ہونے والے نوٹس کے مطابق ائیر کموڈور عثمان غنی کو  بورڈ کا سربراہ  بنایا گیا ہے جو کہ پاک فضائیہ میں  طیاروں کے حادثات کی تحقیقاتی شعبے کے صدر ہیں۔

بورڈ کے ممبران میں  پاک فضائیہ میں ٹیکنکل انوسٹی گیشن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر، ونگ کمانڈر ملک عمران  اور  پاک فضائیہ سیفٹی بورڈ  کامرہ کے گروپ کیپٹن توقیر شامل ہے۔

اس بورڈ میں  سول ایوی ایشن کا صرف ایک افسر شامل ہے جو کہ جوائنٹ ڈائریکٹر ائیر ٹریفک کنٹرول  ناصر مجید ہیں۔

سول ایوی ایشن رولز 1994 کے تحت  یہ تفتیشی بورڈ  ڈی جی سول ایوی ایشن کو رپورٹ کرتا ہے۔ تاہم فی الحال یہ عہدہ ایک کل وقتی افسر کا منتظر ہے۔

ادھر سول ایوی ایشن کی زبوں حالی یہ ہے کہ اب تک سول ایوی ایشن میں ایک کل وقتی ڈائریکٹر جنرل تعینات نہیں کیا جاسکا جبکہ سیکرٹری ایوی ایشن حسن ناصر جامی اس وقت قائم مقام  ڈی جی سول ایوی ایشن کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔

یہ بھی دل چسپ امر ہے کہ سول ایوی ایشن کی ویب سائٹ پر حسن ناصر جامی کا عہدہ  ڈی جی سول ایوی ایشن لکھا ہے جبکہ  ہوا بازی ڈویژن کی ویب سائٹ انہیں ڈپٹی سیکرٹری سول ایوی ایشن لکھتی ہے۔

سول ایوی ایشن کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق  سیکرٹری ایوی ایشن  وزارت ہوا بازی حسن ناصر جامی اسلام آباد کے دفتر میں ہوتے ہیں جبکہ کئی کئی ماہ یہ سول ایوی ایشن ہیڈ کوارٹر کراچی  نہیں آتے، جس کے باعث اتھارٹی کے معاملات بڑی حد تک نظر انداز ہوتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق  ڈائریکٹر ائیرپورٹ سروسز اور  ڈائریکٹر آپریشنز کے عہدے بھی خالی ہیں۔

 وفاقی حکومت نے جس تفتیشی بورڈ کا اعلان کیا ہے اس کی ساکھ پر سب سے بڑا سوال اس بورڈ میں  پاک فضائیہ کے تین حاضر سروس افسران کی تعیناتی ہے کیونکہ حادثے کا شکار طیارے کا ادارہ  پی آئی  اے ہے جس کے سربراہ بھی پاک فضائیہ کے ایک حاضر سروس ائیر مارشل  ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے مجوزہ ضابطے  تفتیشی بورڈ کی غیر جانبداری پر زور دیتے ہیں۔

پاکستان ائیر لائنز پائلٹس کی تنظیم پالپا کے جنرل سیکرٹری عمران ناریجو تو اس  تفتیشی بورڈ کو مکمل ہی نہیں مانتے۔

جب ان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ عالمی پریکٹس ہے کہ کمرشل ائیر لائنز کے فضائی حادثے عالمی ماہرین اور  تربیت یافتہ کمرشل پائلٹس کرتے ہیں۔

’پاک فضائیہ کے افسران کی مہارت پر کوئی سوال نہیں مگر ایک کمرشل ائیر لائن کے حادثے کے عوامل مختلف ہوتے ہیں جس کے ماہرین بھی اسی فیلڈ کے ہونا ضروری ہیں۔‘

پالپا تفتیشی بورڈ میں انٹرنیشنل سول ایوی ایشن، پالپا اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف ائیر لائن پائلٹس کے نمائندوں کو شامل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

پالپا  کو کرونا وائرس کی وجہ سے احتجاج کرنے پر پی آئی اے انتظامیہ  ڈی نوٹیفائی کرچکی ہے۔ اس لیے پی آئی اے انتظامیہ اور پائلٹس کے درمیان کھچاؤ پہلے ہی موجود ہے۔

عمران ناریجو کہتے ہیں کہ ان تفتیشی بورڈز کے لیے الزام لگانا آسان ہے مگر اگلا حادثہ کیسے روکا جائے اس کی تیاری کوئی نہیں کرتا۔

دو ہزار گیارہ میں امریکہ فرانس اور جرمنی کے ایوی ایشن ماہرین کی نگرانی میں مرتب کی گئی ائیر بلیو حادثے کی رپورٹ میں واضح  تجاویز موجود ہیں کہ سول ایوی ایشن اپنے سپیشل انویسٹی گیشن بورڈ کو مزید بہتر اور خود مختار  بنائے، تفتیش کاروں کی تربیت کرائی جائے۔

تاہم ہر حادثے کے بعد اس بورڈ کو پاک فضائیہ کی ضرورت  پڑ جانا ایک سوالیہ نشان ہے۔

ائیر بلیو حادثے کی رپورٹ میں پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی کو بھی فضائی حادثات کے لیے مزید فعال بنانے کی ہدایات دی گئیں تھیں۔

تاہم کراچی  طیارہ حادثے کے بعد سب نے دیکھا کہ کیسے مقامی امدادی تنظیموں اور اہل علاقہ نے ریسکیو آپریشن کیا جبکہ  این ڈی ایم اے کی  قابل ذکر کارکردگی سامنے نہ آسکی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان