وفاقی حکومت کا ارسا کی تشکیل نو کا فیصلہ

دریائے سندھ پر پانی کے بہاؤ کی نگرانی کے کمپیوٹرائزڈ نظام (ٹیلی میٹری سسٹم) کی تنصیب سے متعلق انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے ساتھ اختلافات کے باعث ارسا کی دوبارہ تشکیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم اور نگرانی کے ذمہ دار ادارہ ارسا میں ہر صوبے اور وفاق کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوتا ہے (اے ایف پی)

وفاقی حکومت نے صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کی نگرانی کرنے والے ادارے ارسا کی تشکیل نو کا فیصلہ کر لیا ہے۔

دریائے سندھ پر پانی کے بہاؤ کی نگرانی کے کمپیوٹرائزڈ نظام (ٹیلی میٹری سسٹم) کی تنصیب سے متعلق انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے ساتھ اختلافات کے باعث ارسا کی دوبارہ تشکیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم اور نگرانی کے ذمہ دار ادارہ ارسا میں ہر صوبے اور وفاق کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوتا ہے اور انہی پانچ اراکین میں سے ایک رکن روٹیشن کے تحت اتھارٹی کے چئیرمین کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتا ہے۔

وفاقی کابینہ نے منگل کو ارسا میں پنجاب اور سندھ کے نمائندوں کو ہٹانے کی منظوری دی جبکہ وفاق کے نمائندے کو فوری طور پر ہٹا دیا گیا۔

صوبہ پنجاب کے وزیر آبپاشی محمد محسن لغاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اراکین کو ہٹائے جانے کی وجہ صرف اور صرف ناقص کارکردگی ہے۔

آبی وسائل کے پارلیمانی سیکریٹری صالح محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان، اراکین اور اداروں کی کارکردگی پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔

’جو رکن یا ادارہ کارکردگی نہیں دکھاتا اسے فارغ کر دیا جاتا ہے اور ارسا میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ارسا اراکین کی ٹیلی میٹری سسٹم سے متعلق کارکردگی بہت خراب تھی۔‘

محسن لغاری کے مطابق ٹیلی میٹری نظام کی تنصیب اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کام جون 2017 میں مکمل ہونا تھا جو کہ ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا جس کی وجہ ناقص کارکردگی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ارسا کے سندھ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے اسی لیے انہیں ہٹایا جا رہا ہے۔

پنجاب کے محکمہ آبپاشی نے کچھ عرصہ قبل دریائے سندھ پر ٹیلی میٹری سسٹم سے متعلق ارسا کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ جس کے بعد وفاقی حکومت نے اس انتہائی اقدام کا فیصلہ کیا۔

دوسری طرف قومی اسمبلی کی آبی وسائل سے متعلق قائمہ کمیٹی کے چئیرمین نواب یوسف تالپور کا کہنا ہے کہ ارسا اور وفاقی حکومت کے درمیان ٹیلی میٹرک سسٹم کے ٹھیکے سے متعلق اختلافات ہیں۔ جس کے باعث سندھ اور پنجاب کے اراکین کو ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وفاقی وازرت آبی وسائل کے ایک سینئیر اہلکار نے بتایا کہ ارسا ٹیلی میٹری سسٹم کا ٹھیکہ پہلے سے کام کرنے والی کمپنی میسرز ایم ایم پاکستان کو دینے کے حق میں نہیں ہے اور یہی امر وزارت اور ارسا کے درمیان اختلافات کا باعث بنا۔

ارسا کے پانچوں اراکین نے پنجاب کے محکمہ آبپاشی کی میسرز ایم ایم پاکستان سے متعلق رپورٹ کے بعد اس کمپنی کو 80 کروڑ روپے سے زیادہ کا ٹیلی میٹرک نظام کا ٹھیکہ نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے کہ میسرز ایم ایم پاکستان صوبہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف حکومت کے سب سے بڑے پراجیکٹ بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) میں بھی خدمات مہیا کر رہی ہے۔

محسن لغاری کا کہنا تھا کہ ارسا کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے باعث پاکستان ورلڈ بنک کی جانب سے ٹیلی میٹری سسٹم کے لیے ملنے والی امداد سے بھی محروم ہو گیا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وفاقی وزارت آبی وسائل کے سینئیر اہلکار نے بتایا کہ منسٹری میں کچھ حلقے ٹیلی میٹری نظام کا ٹھیکہ نیسپاک (نیشنل انجنئیرنگ سروسز پاکستان) کو دینے کے حق میں تھے۔

نواب یوسف تالپور کا کہنا ہے کہ میرا اندازہ ہے کہ یہی ٹھیکہ دینے پر اختلافات ہیں جن کی وجہ سے وفاقی حکومت ارسا کے اراکین کو فارغ کرنے کا سوچ رہی ہے۔

صوبوں کا ردعمل

وفاقی کابینہ کے ارسا اراکین کو ہٹانے سے متعلق فیصلے کی سب سے پہلی مخالفت صوبہ سندھ کی طرف سے دیکھنے کو ملی۔

سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کو مطلع کیے بغیر ان کے نمائندوں کو ارسا سے نہیں نکال سکتی۔

سندھ حکومت میں ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ارسا میں صوبہ کے نمائندے کے ہٹائے جانے سے متعلق کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔

نواب یوسف تالپور نے کہا کہ ارسا کے اراکین کو مشترکہ مفادات کی کونسل لگاتی اور ہٹاتی ہے۔ وفاقی حکومت کو کوئی ایسا اختیار حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں آئین کے آرٹیکل 155 کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ارسا اراکین کے خلاف اعتراضات اور شکایات پر بحث مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں ہی ہو سکتی ہے۔

یوسف تالپور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ عید کے بعد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس بلا رہے ہیں۔ جس میں اس ارسا کے مسئلہ پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔

صالح محمد کا کہنا ہے کہ خود مختار ادارے بھی حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور وزیر اعظم ان کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں۔

اس سلسلہ میں انہوں نے اعلی تعلیمی اداروں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیاں بھی خود مختار ادارے ہیں لیکن ضرورت کے تحت وفاقی حکومت ان میں تبدیلیاں کرتی ہے۔

دوسری پنجاب حکومت کی جانب سے ارسا میں اس کے نمائندے کو ہٹائے جانے سے متعلق وفاقی حکومت کے فیصلہ پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔

محسن لغاری کا کہنا ہے کہ ارسا میں پنجاب کی نمائندگی ایک قابل افسر کر رہے ہیں لیکن وفاقی وزیر کا خیال ہے کہ ان کی کارکردگی بہتر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے پنجاب کی طرف سے وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ٹیلی میٹری سسٹم

پاکستان میں پانی کا بڑا حصہ دریائے سندھ سے حاصل ہوتا ہے۔ تاہم وفاقی اکائیوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر ہمیشہ سے اختلافات رہے ہیں۔

قدیم نظام کے تحت پانی کی تقسیم کے لیے بہاؤ کو صوبوں کے نمائندے مختلف بیراجوں پر جا کر چیک کرتے تھے۔ پنجاب کے نمائندے سندھ میں اور سندھ کے پنجاب میں دریائے سندھ کے بہاؤ کو چیک کرتے۔

سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے دور میں دریائے سندھ پر تقریبا سات مقامات ہر ٹیلی میٹری سسٹم نصب کیا گیا۔ تاہم یہ سسٹم کارآمد ثابت نہیں ہوا۔

گذشتہ عشرے کے دوران ورلڈ بنک نے نیا ٹیلی میٹری سسٹم لگانے کے لیے امداد کا وعدہ کیا۔ جس کے تحت دریائے سندھ پر سترہ مقامات پر مشینیں نصب ہونا ہیں۔

ٹیلی میٹری سسٹم کے تحت سینسرز کے زریعے پانی کے بہاؤ کو ناپا اور ایک مشترکہ کمپیوٹر سسٹم کو فیڈ کیا جاتا ہے۔

صالح محمد نے کہا کہ یہ وہی سسٹم ہے جو ابھی تک نصب نہیں ہو پایا اور اس تاخیر کے باعث صوبوں میں پانی کے مسئلہ پر اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت