دنیا میں جنگلی حیات کا کاروبار: پاگل پن، افسوس ناک اور انتہائی خطرناک

جین ڈالٹن لکھتی ہیں کہ قدرت کو غیر پائیدار شرح سے لوٹا جا رہا ہے تاکہ ایشیا کی طلب کو پورا کیا جا سکے ۔۔ لیکن یورپ اور امریکہ بھی قصور وار ہیں

نائروبی نیشنل پارک میں ہاتھی دانت قبضے میں لیے جانے کے بعد جلائے جا رہے ہیں (اے ایف پی)

اداکار پیٹر ایگن نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’یہ عالمی وبا فطرت میں ہماری مسلسل اور زیادہ مداخلت (خاص طور پر جنوبی ایشیا اور جنوبی افریقی کی بش میٹ منڈیوں میں) بڑے پیمانے پر جنگلی حیات کے غیرقانونی کاروبار کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف وقت کا تقاضا تھا کہ اس طرح کچھ ہونے والا تھا۔‘

کرونا (کورونا) وائرس کی وبا عالمی جنگلی حیات کے کاروبار کو غیرمعمولی طور پر دنیا کی نظروں کے سامنے ہے۔ ان تصاویر نے جن میں پنجروں میں بند راکون، بلی، رینگنے والے جانور، چمگادڑوں، پینگولین، ایلیگیٹرز اور پرندوں کی لاشوں کو کھلم کھلا انڈیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی منڈیوں میں فروخت کیا جا رہا تھا اکثر مغربی دنیا کو بدحواس کر دیا تھا۔

لیکن جنگلی جانوروں اور ان کے اعضا کا عالمی کاروبار ان خوفناک اوپن ائیر مارکیٹوں سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ جانوروں کے ساتھ انسانی میل ملاپ سے سامنے آنے والے تین چوتھائی وائرس بھی ہیں۔

دنیا میں جنگلی حیات کی تجارت کافی وسیع ہے اور بڑھ رہی ہے۔ معاشی ماہرین کے خیال میں جنگلی حیات سے جڑے جرائم منشیات، جعل سازی اور انسانی سمگلنگ کے بعد چوتھا بڑا عالمی جرم ہے۔

تقریبا ہر مخلوق کی خرید و فروخت ہوسکتی ہے اور اس میں تقریبا دنیا کے تمام ممالک بطور خریدار یا راہداری مہیا کرنے کی صورت میں شامل ہیں۔ جنگلی حیات کی زندہ یا مردہ اور حصوں میں یا مکمل حالت میں تجارت کی جاتی ہے۔ یہ کاروبار قانونی بھی ہوسکتا ہے اور غیرقانونی بھی اور یہ کسی ملک کے اندر یا سرحد پار کسی منڈی میں یا آن لائن بھی ہوسکتا ہے۔

جانوروں کے مردہ جسم اور حصے کسی علاج کی غرض سے، گوشت یا پھر پالتو جانو کے طور پر خریدے یا بیچے جاتے ہیں۔

بعض اقسام کو تو اتنا لوٹا گیا ہے یا پھر ماحولیاتی ایمرجنسی کی وجہ سے ان کے مسکن زیادہ دباؤ میں ہیں اور وہ معدوم ہونے جا رہے ہیں۔

اس وسیع کاروبار کی مکمل تصویر کے لیے تازہ اعداد شمار حاصل کرنا تقریبا ناممکن ہے کیوں کہ ذیادہ تر تجارت کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہوتا اور نہ اسے پکڑا جاتا ہے پھر جو فروخت کیا جاتا ہے اس کی تعداد بھی ہر وقت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

چین میں قبضے میں لیے جانے والا ایک جانور (اے ایف پی)

لیکن سائٹس تنظیم کی (کنونشن آن انٹر نیشنل ٹریڈ ان انڈینجرڈ سپیشیز، جو صرف قانونی سودے ریگولیٹ کرتی ہے) معلومات یہ بتاتی ہیں کہ اس کاروبار میں 1975 اور 2016 کے درمیان مسلسل اضافہ ہوا ہے اور 2012 میں ان سودوں کا حجم دس لاکھ ڈالرز سے تجاوز کر گیا۔

2013 میں بائیو سائنس رپورٹ سے معلوم ہوا کہ جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت رپورٹ شدہ کاروبار سے کہیں زیادہ ہے یعنی 59 فیصد جبکہ قانونی تجارت 41 فیصد رہی۔

دنیا کے تقریبا ہر ملک کا اس میں کوئی نہ کوئی کردار ہے۔ تقریبا 80 ممالک کے مشتبہ سمگلروں کی پہچان ہوچکی ہے اور یہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ جنگلی حیات کی تجارت ایک عالمی مسئلہ ہے۔

ایسا ہی تناسب بین الاقوامی خرید و فروخت کا ہے۔ راہداری والے ممالک عام طور پر ایشیائی ممالک ہیں اور ذیادہ چیزیں خریدنے والے ممالک بھی ایشیا کے ہی ہیں۔

لیکن یورپ میں ہم بھی قصوروار ہیں: یورپ اور شمالی امریکہ بتدریج دوسرے اور تیسرے بڑے خریدار ہیں۔ افریقی، مرکزی اور جنوبی امریکہ کے ممالک سے صارفین زیادہ ہیں جب کہ یورپ اور شمالی امریکہ کے لوگ صارف سے زیادہ سپلائیرز ہیں۔

 قانونی تجارت

بہت سارے لوگوں کا بجا طور پر خیال یہ ہے کہ دنیا کی قیمتی جنگلی اقسام کو قانونی طور پر تحفظ دیا گیا ہے اور اس کی خرید و فروخت نہیں ہو سکتی۔ لیکن سائٹس کے قوانین کے مطابق بسا اوقات ایسا نہیں ہوتا۔ جانوروں کے تحفظ کارکنوں کا اس پر اختلاف ہے کہ آیا قانونی تجارت غیرقانونی کاروبار کو بڑھاتی ہے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ قانونی تجارت طلب بڑھا دیتی ہے یا پھر جانوروں کو بدترین لوٹ کھسوٹ سے دوچار کرتی ہے۔

جو بھی ہو اس میں فلاح کی کوئی ضمانت نہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس کی تحقیق کے مطابق زندہ جانوروں کی قانونی تجارت یا تو دوران اسیری پیدا کئے جانے والے جانوروں سے ہوتی ہے یا مصنوعی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں یا افزائش نسل کے طریقوں سے۔

اس دفعہ تحقیق میں پتہ چلتا ہے کہ امریکہ بین الاقوامی قانونی جنگلی حیات کی تجارت کا سب سے بڑا صارف ہے۔ اس سے قبل وہ تیسرے نمبر پر تھا۔

جہاں تک تعداد کا تعلق ہے تو ورلڈ اینیمل پروٹیکشن آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2011 سے 2015 تک کم از کم 2.7 ملین افریقی جانوروں کا بین الاقوامی کاروبار ہوا تھا۔ اس اعداد و شمار میں ٹاپ پانچ ’بڑے‘ اور ٹاپ پانچ ’چھوٹی‘ اقسام شامل ہیں جو یا تو جنگل سے لیے گئے تھے یا پھر کمرشل فارمز پر ان کی ان کے جلد اور دلکش پالتو جانور ہونے کی وجہ سے پرورش کی گئی تھی۔

وہ ’پانچ بڑے‘ جس کی طلب زیادہ تھی اور قانونی طور پر فروخت ہوئے تھے ان میں افریقی ہاتھی (چار ممالک نے ہاتھی دانت فروخت کیے)، دریائی گھوڑے، نیل مگرمچھ، کیپ فر سیلز اور ہارٹ مین زیبرا شامل تھے۔

نیل مگر مچھ زیادہ تر چمڑے کے لیے پالے جاتے ہیں۔ خیراتی اداروں کے مطابق سالانہ کم از کم 189000 جلدیں فروخت ہوئی ہیں۔ یہ بیگز اور جوتوں کی شکل میں ڈیزائنر دکانوں تک پہنچتی ہیں۔ ڈبلیو اے پی کی رپورٹ کے مطابق فر حاصل کرنے کے لیے نمیبیا میں ہر سال چھوٹے کیپ فر سیلز ہزاروں کی تعداد میں پکڑے جاتے ہیں اور ڈنڈوں اور دم گھوٹنے سے مار دیئے جاتے ہیں۔ جب کہ بڑے فر سیلز کو یا تو گولی مار دی جاتی ہے یا پھر ڈنڈے مارنے سے ہلاک کیے جاتے ہیں۔ اور جب ہاتھی دانت اور جلد حاصل کرنے کے لیے یہ جانور مارے جاتے ہیں تو گولی اکثر نشانے پر نہیں لگتی جس کی وجہ سے موت ’طویل اور تکلیف دہ‘ ہوسکتی ہے۔

پانج چھوٹی مشہور اقسام میں جو قانونی  طور پر پالتو جانور کے طور پر فروخت ہوئے ان میں بال پائیتھون (سانپ کی ایک قسم)، افریقی طوطے، ایمپرر بچھو، تیندو نشان والے کیچھوے اور سوانا مانیٹر چھپکلی شامل ہیں۔

2011 سے 2015  کے درمیان پانچ لاکھ سے زائد بال پائیتھون (سانپ) فروخت کیے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر امریکہ بھیجے گئے تھے جن کو شیشوں کی ٹینکیوں میں رہنا تھا۔ مجموعی طور پر 289006 افریقی سرمئی طوطے چار زیر مطالعہ سالوں میں افریقہ میں فروخت کئے گئے جن کو ٹرانسپورٹ کرتے وقت تنگ ڈبوں میں رکھا گیا تھا۔ اس مطالعہ سے لے کر اب تک خیال ہے کہ یہ طلب کم نہیں ہوئی ہے۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تنظیموں نے مل کر ممالک کے رہنماؤں کو درخواست دی کہ جنگلی حیات کے قانونی و غیرقانونی کاروبار دونوں کو بند کر دیں۔

غیرقانونی تجارت

حقیقت میں قانونی اور غیرقانونی تجارت کے درمیان کوئی تقسیم نہیں کیونکہ بغیر کسی نقص کے کوئی رکاوٹ موجود نہیں جو شکاریوں اور سمگلروں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ غیرقانونی مصنوعات کو قانونی طور پر بیچ دیں۔ مثال کے طور پر رینگنے والے جانوروں کے چمڑے جنگلوں سے غیرقانونی ذرائع سے حاصل کیے جاتے ہیں جو یہ بین الاقوامی قانونی جائز منڈیوں اور فیشن کی دکانوں تک پہنچ سکتے ہیں۔

سماترا ٹائیگر کی کھال جسے ایک شخص فروخت کرنے جا رہا تھا کہ پولیس نے دھر لیا (اے ایف پی)

سائٹس کے حساب سے تقریبا تین فیصد جنگلی حیات کی اقسام کی بین الاقوامی کمرشل ٹریڈ پر پابندی ہے اور تقریبا 96 فیصد کے دنیا میں خریدو فروخت سے متعلق قوانین موجود ہیں۔

امیر خریداروں کی جانب سے بڑھتی ہوئی طلب نے، خاص کر ایشیائی ممالک سے، چمڑے، ہاتھی دانت اور جانوروں کے دوسرے حصوں سے بننے والی اشیا اور کسی بھی مجوزہ طبی علاج کے لیے طلب بڑھا دی ہے۔  شکار کے خلاف کئی سالوں کی کوشش کے باوجود، جنگلی حیات اب بھی تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں، خاص کر افریقہ میں، جہاں گینڈوں، ہاتھیوں اور بڑی بلی کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔

حکام نے بہت عرصہ پہلے ہی تسلیم کر لیا تھا کہ غیرقانونی کاروبار کا تعلق منظم جرائم سے ہے جن میں منی لانڈرنگ، منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مطابق وسطی ایشیا میں جنگلی حیات کی سمگلنگ تنازعات کو بھی بڑھا رہی ہے اور علاقائی و قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے کیونکہ اس سے مسلح گروہوں کو رقوم ملتی ہیں۔

شکاریوں کے نقطہ نظر سے ان کے لیے قانون کا نفاذ دیگر جرائم کی نسبت نرم ہے جیسا کہ کئی ممالک میں ان کے لیے سزا کا خطرہ کافی کم ہے۔

جنگلی حیات کی تجارت کو مانیٹر کرنے والا تنظیم، ٹریفک کے مطابق تعداد کے لحاظ سے پینگولین کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ سمگل ہونے والے جانور اور جانوروں کے اعضا ہاتھی، ہیلمیٹیڈ ہارن بلز، چیتے، برفانی چیتi اورگینڈے ہیں۔

زیادہ تر غیرقانونی اشیا مغربی اور مرکزی افریقہ سے آتی ہیں جبکہ سائٹس کے مطابق منظم اور موقع کے حساب سے دونوں قسم کے شکار ہوتے ہیں۔

شکاری عام طور پر مقامی لوگ ہوتے ہیں جن کو جرائم پیشہ تنظیمیں بھرتی کرتی ہیں۔ اور ذیادہ تر ایکسپورٹر وہ ایشیائی لوگ ہوتے ہیں جو افریقہ میں رہتے ہیں اور اپنے ملکوں کو سامان بھیجتے ہیں۔ ویتنام خاص کر ہاتھی دانت اور گینڈے کے سینگ کے صارفین کی بڑی منڈی ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کے مطابق پینگولین کو جسم پر موجود سکیلز کی وجہ سے مارا جاتا ہے جو دوا میں استعمال ہوتے ہیں جبکہ افریقہ میں اس کے پکڑنے والے جن کی منزل مقصود ایشیا ہوتی ہے 2014 کے بعد دس گنا بڑھ گئے ہیں۔

اس وقت تک جو نہیں پکڑے گئے گنے جائیں تو خیال کیا جاتا ہے کہ فروخت کئے گئے پینگولین کی تعداد دسیوں لاکھوں میں ہوگی۔

چونکہ قید میں پینگولین کی بڑے پیمانے پر بریڈنگ ابھی ممکن نہیں اس لیے غیرقانونی شکار اسے مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے۔

مغرب اور مرکزی افریقہ میں تاجروں کا کہنا ہے کہ پینگولین کے سمگلر وہی راستہ استعمال کرتے ہیں جو ہاتھی دانت کی سمگلنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تخمینے کے مطابق 20000 سے زائد افریقی ہاتھی سالانہ موزمبیق جیسے ممالک میں ہاتھی دانت کی خاطر مارے جاتے ہیں۔ لیکن بڑھتے ہوئے تحٖظ کی بدولت پچھلے سال بین الاقوامی محقیقین کے مطابق یہ تعداد کم ہو کر 10000-15000 تک آگئی۔

ملاوی اور زمبیا جیسے مراکز میں رینجرز کو بھی کامیابی ملی ہے۔ پچھلے سال ایک ٹن سے زیادہ ہاتھی دانت قبضے میں لیے گئے اور 75 سے زائد مشتبہ شکاری و ہاتھی دانت کے سمگلر 16 مہینوں میں گرفتار کیے گیے۔ غیرقانونی طور پر پکڑے گئے جوان ہاتھی سیاحوں کی تفریح کے لیے تھائی لینڈ، انڈونیشیا، جاپان اور یہاں تک کے کینیڈا میں استعمال کیے گئے۔ کچھ لاوس سے چین سیاحتی صعنت کے لیے سمگل کیے گئے اور باقی جہاز کے ذریعے مشرق وسطی بھیج دیے گئے۔

ایشیا کے جنگلی ٹائیگر ختم ہونے کے قریب ہیں۔ یہ دنیا میں 4000 سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ تاہم 8000 سے زائد چین، لاوس، تھائی لینڈ، ویتنام اور جنوبی افریقہ میں پنجروں میں رکھے جا رہے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے فارمز میں غیرقانونی کاروبار کے لیے ٹائیگر بریڈ بھی ہوتے ہیں اور ذبح بھی۔ چین اور جنوبی افریقہ کے فارموں میں شیر بھی پالے جاتے ہیں۔ لیکن بیچنے والے کے لیے ایسی کوئی مارکیٹ نہیں ہوسکتی جس میں نہ دلال ہو اور نہ خریدنے والا، جو ہر جگہ ہیں اور قانونی جنگی حیات کی تجارت کی طرح یورپ کو غیرقانونی تجارت سے استشنٰی حاصل نہیں۔

یو این او ڈی سی کی رپورٹ کہتی ہے کہ ’عملی طور پر دنیا میں ہر ملک کا ایک کردار ہے۔‘ 80 قوموں کے مشتبہ سمگلرز کی پہچان ہوئی ہے جو ہمیں یہ حقیقت بتاتا ہے کہ جنگی حیات کا جرم حقیقت میں دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔

’دنیا کے تمام خطے راہداری یا منزل مقصود کا کردار ادا کرتے ہیں، اگرچہ کچھ خاص قسم کی جنگلی حیات کا ایک خاص خطے سے تعلق ہوتا ہے۔ پرندوں کا تعلق زیادہ تر مرکزی اور جنوبی امریکہ سے ہے؛ میملز کا افریقہ اور ایشیا سے جبکہ رینگنے والے جانوروں کا یورپ اور شمالی امریکہ سے ہے۔‘

نیپال میں ایک پارک میں ضبط کی جانے والی اشیا نذر آتش کی جا رہی ہیں (اے ایف پی)

یقینا باہر سے لائے گئے رینگنے والے جانور کو بطور پالتو جانور رکھنے نے 2000 سے یورپ اور امریکہ میں برآمدات بڑھا دی ہیں جہاں دسیوں لاکھوں کی اب قانونی تجارت ہوتی ہے۔

یورپین یونین کمیشن کے مطابق تقریبا 2000 زندہ رینگنے والے جانوروں کو اس کی سرحد پر قبضے میں لیا گیا؛ ہر سال دسیوں لاکھ بام مچھلیاں یورپین یونین سے ایشیا غیرقانونی طور پر درآمد کی جاتی ہیں۔

انٹرپول کا کہنا ہے کہ پچھلے سال صرف پانچ ہفتوں میں حکام کی طرف سے جنگلی حیات کے جرائم کے خلاف منظم چھاپوں میں 4400 زندہ جانوروں کو قبضے میں لیا گیا جن میں 20 مگرمچھ اور ایلیگیٹر، 2700 کیچھوے، 1500 سانپ، چھپکلیاں اور گھریلو چھپکلیاں شامل تھیں۔

سائٹس کے مطابق شکاریوں اور قانون لاگو کرنے والے حکام سے انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ ’بسا اوقات دلال کامیاب کاروباری حضرات، فوجی حکام یا دیگر اہم عہدے والے ہوتے ہیں جن سے ان کے عہدے کی بدولت قانون لاگو کرنے والے اداروں کی طرف سے پوچھ گچھ کا کم امکان ہوتا ہے۔‘

غیرقانونی جنگلی حیات کی تجارت سے نمٹنے کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ترجیحات میں ٹائیگر فارمز بند کرنا، ہاتھی دانت مارکیٹ بند کرنا، اور ہاتھی دانت کے خلاف قومی ایکشن منصوبے بہتر کرنا اور ویتنام پر دباؤ ڈالنا کہ ہاتھی دانت اور گینڈے کے سینگ سے متعلق قانون سازی کو مضبوط کرنا شامل ہے۔

رن اوے ٹو ایکسٹینکشن نامی رپورٹ سے غیرقانونی تجارت کے لیے استعمال ہونے والے راستوں سے متعلق اشارے ملتے ہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ وہ اکثر ہوائی سفر کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ 

رپوٹ کہتی ہے کہ ’یہ شمالی امریکہ، یورپ اور کچھ ایشیائی ممالک میں موجود متوسط کلاس کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ یہ زندہ جانوروں اور وائلڈ لائف مصنوعات، جو جنوبی امریکہ، افریقہ اور بحرالکاہل و آس پاس موجود جزیروں میں موجود حیاتیاتی نظام کی تنوع سے آتا ہے کے لیے واضح طلب پیدا کرتا ہے۔

گواتمالا میں ایک مکاؤ طوطا جسے شکاریوں سے بچا لیا گیا (اے ایف پی)

وہ ممالک جہاں 2016-18 کے دوران فضائی راستے سے سمگلنگ کے زیادہ واقعات تھے ان میں سرفہرست چین تھا جہاں ہمیں دوسرے نمبر پر آنے والے ویتنام سے تین گنا زیادہ مثالیں ملتی ہیں۔ تھائی لینڈ، انڈونیشیا، جنوبی افریقہ اور میکسیکو کا نمبر چین کے بعد آتا ہے۔ متحدہ عرب امارات ساتویں نمبر پر پھر ملائیشیا، کینیا اور ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کا نمبر آتا ہے۔

دودھ دینے وال جانوروں (میملز) و رینگنے والے جانوروں کے ساتھ ساتھ تحفظ پسندوں کے لیے ہجرت کرنے والے سونگ برڈز (ایک قسم کا پرندہ) کا غیرقانونی طریقے سے پکڑنا اور مارنا بہت پریشانی کا باعث ہے۔ ہر سال خزاں میں ہزاروں مردے پرندے بلیک مارکیٹ کے ذریعے قبرص کے ریسٹورانوں میں فروخت کئے جاتے ہیں جس سے امبلوپولیا نامی ڈش بنائی جاتی ہے۔

بلیک کیپ، رابن اور گارڈن واربلر کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو یورپ اور افریقہ کے درمیان نقل مکانی کرتے ہیں۔ ان کو جال میں پھنسانے کے لیے الیکٹرانک کالز استعمال کی جاتی ہیں۔

جزیرے پر موجود برطانوی فوجی اڈے کے حکام اور تحفظ پسندوں نے پرندوں کو غیرقانونی پکڑنے کی تعداد کو تقریبا 880000 (2016 میں) کم کیا ہے۔ لیکن پھر بھی پچھلے سال 117000 مارے گئے تھے۔ کئی جگہوں پر جنگلی حیات کے شکاریوں کو انٹرنیٹ کے استعمال کا پتہ چل چکا ہے اور وہ کامرس آن لائن لے آئے ہیں۔

فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ میں انٹرنیشنل فنڈ فار اینیملز کی چھ ہفتوں پر محیط تحقیق نے نشاندہی کی ہے کہ 106 آن لائن مارکیٹنگ سائٹ پر 5381 اشتہارات اور پوسٹس کے ذریعے 11772 پروٹیکڈڈ جنگلی حیات کے فروخت کی پیشکش ہوئی۔ چیتے، شیر اور ٹائیگر کے اعضا اور بھسے سے بھرے چمڑے اور زندہ بڑی بلیاں آن لائن فروخت ہو رہی ہیں۔

انٹرنیشنل فنڈ فار اینیملز کے رپورٹ کے مطابق، ’افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے 150 زندہ لنگور برائے فروخت اور گینڈے کے سینگ، ہاتھی کے دانت، ہاتھی کے پاؤں، چمڑے اور بال کی مصنوعات بھی دیکھی ہے اور یہ تمام انٹرنیٹ پر برائے فروخت ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانیہ میں محقیقین نے پرندوں اور الووں کی بڑی تعداد برائے فروخت پائی جن میں افریقی سرمئی طوطے شامل ہیں۔ ایک اور تحقیق نے پچھلے سال یہ بتایا تھا کہ کس طرح طوطوں کو جنگل میں پکڑا جاتا ہے اور پھر کریٹس میں بند کئے جاتے ہیں تاکہ ہوائی جہاز سے ان کو باہر منتقل کیا جائے؛ ان میں سے ہر چار میں تین دم گھٹنے، یا بھوک یا بیماری سے مر جاتے ہیں۔

دی کولیشن ٹو اینڈ وائلڈ لائف ٹریفکینگ آن لائن نے ٹیکنالوجی کی بڑی تنظیموں کے ساتھ کام کیا کہ خطرے میں پڑی اقسام کی فہرست تیار کریں اور ان کے مصنوعات کو انٹرنیٹ سے ہٹایا گیا۔

دی انڈپینڈنٹ جنگلی حیات کی تجارت پر سخت پابندی کے لیے سرگرم ہے اور اس نے دیکھا ہے کہ کیسے ناقابل یقین رقوم سمگلرز اور دلال کماتے ہیں۔ لیکن ان کو شائع نہیں کیا جا رہا کیونکہ تحٖظ کا تقاضہ یہ ہے کہ جنگلی حیات کو پیسوں کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔

جین گڈال نے کہا ہے، ’جب ہم جنگلی حیات کی سمگلنگ کی بات کرتے ہیں، تو ہم بس سوچتے ہیں کہ 'اوہ وہ جنگلی حیات ہے۔ لیکن یہ دسیوں لاکھ افراد ہیں جو متاثر ہوسکتے ہیں، درد اور مایوسی محسوس کرسکتے ہیں۔‘

’ہمیں قدرت کی قدر کرنے کی ضرورت ہے، ہم محدود قدرتی وسائل والے زمین سے معاشی ترقی کے لیے اس طرح نہیں کرسکتے کہ ہم بس وسائل لیتے رہیں اور اس طرح بڑھتے جائیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین