پیغام رسانی کے لیے کبوتروں کا استعمال کتنا پرانا؟

عالمی جنگوں میں سینکڑوں فوجیوں کی زندگیاں بچانے سے لے کر اہم موقعوں پر حساس پیغامات کی ترسیل تک، کبوتروں نے انسانی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ایک برطانوی فوجی پیغام رساں کبوتر کو پکڑے ہوئے ہے( ایمپریل وار میوزیم )

یہ تین اکتوبر، 1918 کا دن تھا اور تقریباً تین بجے کا وقت، جب پہلی عالمی جنگ میں جرمن اور امریکی فوجیں آمنے سامنے تھیں۔ اس دوران اچانک امریکی فوج کے ایک دستے نے غلط فہمی میں اپنے ہی ساتھیوں پر فائرنگ شروع کر دی۔

اس غلط فہمی کی وجہ یہ تھی کہ فائرنگ کرنے والے دستے کو اپنے ساتھیوں کی طرف سے جو پیغام بھیجا گیا تھا وہ پہنچا ہی نہیں۔

امریکہ کے نیشنل آرکائیوزمیں موجود اس واقعے کی تفصیل میں بتایا گیا کہ ایک امریکی دستے نے اپنے ساتھیوں کو جو پیغام بذریعہ کبوتر بھیجا تھا وہ کبوتر راستے میں جرمن فوج کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔

امریکی دستے، جس پر فائرنگ ہو رہی تھی، کے پاس صرف ایک ہی کبوتر 'پیارا دوست' (فرانسیسی لفظ کا اردو ترجمہ) تھا۔ 

تقریباً تین بجے اس پرندے کو چھوڑا گیا اور اس کے پنجوں کے ساتھ دستے کے لیے پیغام باندھا گیا۔ اس پیغام میں لکھا تھا کہ'ہم 276/4 روڈ پر موجود ہیں اور ہمارا توپ خانہ ہم پر فائرنگ کر رہا ہے خدا کے لیے اسے روکا جائے۔'

یہ کبوتر اس امریکی انفنٹری کے لیے آخری امید تھی۔ جب کبوتر کو چھوڑا گیا تو راستے میں جرمن فوج نے اس پرندے کو سینے اور پاؤں پر گولیاں ماریں، ایک گولی اس کی آنکھ پر بھی لگی جس سے اس کی آنکھ ضائع ہوگئی۔

کبوتر نے زخمی حالت میں پیغام انفنٹری کے دوسرے دستے تک پہنچایا اورتقریباً ایک گھنٹے کے بعد چار بجے یہ کبوتر واپس اپنی جگہ پہنچ گیا۔

انفنٹری کے دوسرے دستے کو پیغام ملتے ہی انہوں نے اپنے ساتھیوں پو گولہ باری روک دی اور یوں کبوتر نےتقریباً 200 امریکی فوجیوں کی جان بچائی۔

اس بہادری کی وجہ سے کبوتر کو فرانسیسی حکومت کی طرف ایک معتبر ایوارڈ 'ڈیکن میڈل'  سے نوازا گیا۔ یہ کبوتر 13 جون، 1919  کو مر گیا۔ اُس کی لاش کومحفوظ کرکے امریکہ کے سمتھ سونیم عجائب گھر میں رکھ دیا گیا۔

'ویلیئم آف اورنج' نام کا ایک مادہ کبوتربرطانوی ملٹری انٹیلیجنس ایم آئی کی یونٹ میں شامل تھا۔

دوسری عالمی جنگ کی سب سے زیادہ خوں ریز لڑائی  Battle of Arnhemمیں ہوئی، اس کبوتر نے ایک پیغام پہنچا کر دو ہزار برطانوی فوجیوں کی جان بچائی۔

'ایکسپلوڈنگ اینیلمز'نامی کتاب کے مصنف اس واقعے کا ذکرکچھ یوں کرتے ہیں کہ جب جرمن فوج نے ارنہم کے محاذ پر برطانوی فوج کو گھیرے میں لیا تو اس کے باقی مانندہ ریڈیو سیٹس کام کرنا چھوڑ گئے تھے اور ان کے پاس اپنے ساتھیوں کو پیغام بھیجنے کا صرف ایک ہی ذریعہ کبوتر تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانوی فوج نے 19 ستمبر، 1944 کو صبح 10 بج کر30 منٹ پر کبوتر چھوڑا جس نے 400 کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد پیغام منزل پرپہنچایا اور تقریباً تین بجے واپس اپنے گھونسلے میں آگیا۔

یوں جرمن فوج کا محاصرہ ختم ہوا اور اس کبوتر کی بدولت تقریباً دو ہزار برطانوی فوجیوں کی جان بچ گئی۔ اس کبوتر کو بھی فرانسیسی حکومت نے 'ڈیکن میڈل' سے نوازا۔

یہ اُن لاکھوں کبوتروں میں سے دو تھے جنہیں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں مختلف ملکوں کی فوج نے پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا۔

نیوزی لینڈ کی جنگوں کے حوالے سے معلومات پر مبنی ویب سائٹ میں درج ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پہلی عالمی جنگ میں ایک لاکھ کبوتر پیغام رسانی کا کام کرتے رہے۔ ان کبوتروں نے 95 فیصد تک پیغامات درست مقام پرپہنچائے۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں مجموعی طور پر تقریباً تین لاکھ کے لگ بھگ کبوتر پیغام رسانی کے لیے استعمال ہوئے تھے۔

کبوتر کا پیغام رسانی کے لیے استعمال کتنا پرانا ہے؟

آج کل پاکستان میں ترک ڈرامہ 'ارطغرل' کو بہت شوق سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس ڈرامے میں قدیم تہذیبوں سمیت پیغام رسانی کے لیے استعمال کیے جانے والے کبوتروں کو بھی دکھایا گیا ہے۔

ڈرامے میں مسلمانوں، عیسائیوں اور منگولوں کو دکھایا گیا کہ وہ اپنے بادشاہوں اور پادریوں کو بذریعہ کبوتر پیغام پہنچاتے تھے۔

اسی طرح 'گیم آف تھرونز' سیریز میں بھی کبوتروں کو پیغام رسانی کرتے دکھایا گیا ہے۔ پرانے زمانے میں جب انٹرنیٹ، پوسٹل سروس، ٹیلی گرام اور پیغام رسانی کے دیگر ذرائع نہیں تھے تو کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

کبوتروں کو پالنے اور اُن کو بطور پیغام رساں استعمال کرنے کا رواج تقریباً تین ہزار سال پرانا ہے۔ سوسائٹی آف امریکن ملٹری انجینیئرز کے تحقیقی مقالے کے مطابق کبوتروں کو پالنے کے رواج کے تانے بانے فراعین مصر کے پانچویں خاندان اور اُس دور کے یونان کے ساتھ جا کر ملتے ہیں۔

اس مقالے کے مطابق کبوتر کا بطور پیغام رساں استعمال سلیمان بادشاہ نے 1010  قبل مسیح میں کیا تھا۔ اس دور میں پرندوں کو تربیت دینے کا رواج اہل فارس سے یہاں منتقل ہوا۔

اس کے بعد کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کرنے کا باقاعدہ نظام بغداد میں اُس وقت کے سلطان نے 1150 میں قائم کیا، جو تقریباً 1258 تک منگولوں کے بغداد پر قبضے تک قائم رہا۔

ایک اور تحقیقی مقالے کے مطابق 12 ویں صدی میں چنگیز خان نے کبوتروں کو پیغام رسانی کے   لیے استعمال کا رواج ایشیا اور یورپ میں عام کیا۔

فرانسیسی انقلاب کے دوران بھی کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ کبوتروں کے پہنچائے ہوئے پیغامات فرانس اور بیلجیئم کے اخبارات میں چھپ جاتے تھے۔

کبوتروں کو جنگ کے دوران پیغام رسانی کے لیے استعمال کرنے کا رواج اتنا ہی پرانا ہے جتنا انہیں پالنے کا۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق 1249 میں جب فرانس کے بادشاہ لوئی نہم نے مصر پر حملہ کیا تو اس حملے کی قاہرہ میں موجود بادشاہ کو ایک کبوتر کے ذریعے اطلاع دی گئی تھی۔

کبوتروں کے جنگ کے دوران سب سے پرانا استعمال 43  قبل مسیح میں ملتا ہے جب موتینہ شہر کا، موجودہ اطالوی شہر مودینہ، محاصرہ کیا گیا تو اس وقت کے بادشاہ ڈیسیمس جونئس بروٹس نے پیغام پہنچانے کے لیے کبوتر کواستعمال کیا تھا۔

یہ کبوتر محاصرہ کرنے والے کے سروں کے اوپر سے گزرتا تھا۔ کبوتر کو دور دراز کے علاقوں تک پیغام پہنچانے کے لیے استعمال  کا رواج تقریباً 1844 تک بہت زیادہ عام تھا لیکن اسی سال ٹیلی گرام ایجاد ہونے کے بعد اس کا استعمال کم ہوتا چلا گیا۔ البتہ فوجوں میں اس کا استعمال ضرور جاری رہا۔

کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کا رواج  بھارت میں بھی پایا جاتا تھا۔ 2002  میں ایک کبوتر کوریئر سروس کو بند کردیا گیا۔ دی انڈپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 50 سال سے جاری اس سروس میں تقریباً 800 کبوتر کام کر رہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق بھارت کو یہ کبوتر دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی حکومت نے دیے تھے۔

 آج بھی بھارتی فوج کے دماغ میں کبوتروں کو جاسوسی کے لیے استعمال کیے جانے کا تصور موجود ہے۔ بھارتی فوج نے کئی بار پاکستان پر کبوتروں کے ذریعے جاسوسی کرنے کا الزام لگایا ہے۔

گذشتہ ہفتے بھارتی فوج نے ایک کبوتر پکڑا اور حسب عادت دعویٰ کیا کہ اُسے پاکستان نے جاسوسی کے لیے بھیجا تھا۔

جرمن خبر رساں ایجنسی کے مطابق یہ کبوتر پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے ایک رہائشی کا ہے جو کبوتر پالنے کا شوقین ہے۔ یہ کبوتر اڑتے ہوئے سرحد پار کراس کر کے بھارت کی حدود میں داخل ہو گیا اور وہاں اسے پکڑ لیا گیا۔

کبوتر کو ڈیلیوری ایڈریس کا پتہ کیسے چلتا ہے؟

امریکی تحقیقی ادارے سمتھ سونین سائنس ایجوکیشن سینٹر کے ایک مقالے میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ پرندے، جس میں کبوتر سر فہرست ہیں، کس طرح اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں؟

اس مقالے کے مطابق سائنس دانوں نے یہ پتہ لگایا کہ کبوتر سمیت چند دیگر پرندوں کی چونچ پر مقناطیسی طاقت رکھنے والا ایک چھوٹا سا نکتہ ہوتا ہے جو کبوتر کو راستہ معلوم کرنے اور واپس اپنے گھونسلے میں آنے میں مدد کرتا ہے۔

چند دیگر تحقیقی مقالوں میں یہ بھی لکھا گیا کہ کچھ پرندوں کی آنکھوں میں مخصوص خلیے پائے جاتے ہیں جن کی مدد سے وہ راستہ تلاش کرتے ہیں۔

اینگلو افغان جنگ میں پیغام رساں کبوتر

تاریخ پر نظر رکھنے والے ڈاکٹر نفیس الرحمٰن کہتے ہیں کہ کبوتروں کو برطانوی راج اور افغانستان کے درمیان 1878 کی جنگ میں استعمال کیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اُس وقت طورخم اور موجودہ ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کے درمیان پیغام رسانی کے لیے کبوتروں سے کام لیا جاتا تھا۔

ڈاکٹر نفیس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'برطانوی راج کے کرتا دھرتا پشتون علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کے کیے مواصلاتی رابطے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ٹیلی گراف کی کسی لائن کو کاٹنے پر باقاعدہ سزا مقرر کی گئی تھی۔

'اسی طرح وہ کبوتر کو بھی پیغام رسانی کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کسی مہمان کے آنے کی اطلاع بھی کبوتر کے ذریعے دی جاتی تھی۔'

انہوں نے بتایا کہ جب کبوتر طورخم سے لنڈی کوتل پہنچ جاتا تھا تو وہاں سے دوسرا کبوتر پیغام کو لنڈی کوتل سے علی مسجد اور شگئی پوسٹ  پار کر کے جمرود پہنچاتا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ