وزیرستان کے لوگوں کو سیاحت نہیں حقوق چاہییں

حکومت کو چاہیے کہ سیاحت کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے جنوبی وزیرستان خصوصاً محسود قبائل کے لوگوں کے گھروں کے معاوضے سمیت انہیں دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔

جنوبی وزیرستان میں واقع وادی شکئی سیاحوں  کے لیے خصوصی دلچسپی کی حامل ہے (تصویر:  بشکریہ پاکستان ٹور اینڈ ٹریول ڈاٹ کام)

اس عید الفطر پر ملک بھر سے سیاحوں نے جنوبی وزیرستان خصوصاً محسود علاقوں کا رخ کیا، ویڈیوز بھی بنائی گئیں اور آنے والے مہمانوں نے وزیرستان کی خوب تعریف بھی کی اور صرف یہی نہیں بلکہ مقامی نوجوانوں نے بھی وزیرستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے مختلف فیس بک گروپس بنائے۔ ان کی کوشش ہے کہ علاقے کی خوبصورتی سمیت دنیا کو بتایا جاسکے کہ وزیرستان کے لوگ دہشت گرد نہیں بلکہ امن پسند ہیں۔ 

عموماً ہم لوگ تصویر کا ایک ہی رخ دیکھنے یا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، دوسرے رخ پر بات ہی نہیں کرتے یا دماغ میں وہ بات بیٹھتی ہی نہیں جس کا ہمیں ذکر کرنا چاہیے۔

ایک واقعہ یاد آگیا۔ کرونا (کورونا) وبا سے قبل ایک دوست کی شادی میں شرکت کی تو ولیمے کے دوران میز پر بیٹھے ایک بیس بائیس سالہ نوجوان نے کہا کہ ان لوگوں کے پاس تو دنیا دولت کی کمی نہیں، انہیں چاہیے تھا کہ شادی میں میوزک پروگرام کا اہتمام بھی کرتے تو پاس بیٹھے ایک سفید ریش بزرگ نے کہا کہ ڈھول باجے انہی گھروں میں بجائے جاتے ہیں جہاں پر دکھ اور پریشانیاں کم ہوں، پچھلے ماہ اس خاندان میں جوان لڑکا فوت ہوا ہے اور آپ ڈھول باجے بجانے کی بات کررہے ہیں۔ یہ سنتے ہی نوجوان نے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس واقعے کا علم نہیں ہے ورنہ میں کبھی بھی یہ بات نہ کرتا۔

بالکل اسی طرح محسود قبیلہ بھی فی الحال صدمے میں ہے۔باقی قبائلی علاقوں کی طرح یہ علاقہ بھی ہمیشہ سے پسماندگی کا شکار رہا ہے، چاہے وہ پولیٹیکل ایجنٹ کا دور ہو یا ڈپٹی کمشنر کا۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کو سیاحت کی بجائے حقوق چاہییں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علاقہ محسود زیادہ تر پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کے باسی  زیادہ تر کراچی میں مزدوری کرتے تھے یا دبئی میں محنت مشقت کرتے تھے مگر 2009 سے قبل یہ علاقہ آباد ضرور تھا۔ آپریشن راہ نجات کے بعد ترقیاتی مد میں کروڑوں روپے آتے گئے، کچھ کام بھی ہوا، سڑکیں بھی تعمیر ہوئیں، جن سکولوں کو  تباہ کیا گیا تھا، ان کی تعمیر کے لیے بھی پیسے آتے گئے مگر جس چیز کی زیادہ ضرورت تھی وہ مقامی لوگوں کے مکانات تھے، کیونکہ مکانات تھے نہیں، جب علاقہ مکین کئی سالوں بعد علاقہ کھلنے کے بعد گئے تو مکانات تباہ و برباد دیکھ کر واپس بندوبستی علاقوں کی طرف آگئے حالانکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ بیرون ممالک سے آنے والے فنڈز سے پہلے مقامی لوگوں کے لیے مکانات تعمیر کراتی اور پھر دوسرے ترقیاتی کام کروائے جاتے مگر ایسا نہیں ہوا اور 11 سال گزرنے کے باوجود بھی محسود قبیلے کو تباہ شدہ مکانات کی مد میں مکمل معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔

حکومت سیاحت کو فروغ دینے پر زور دے رہی ہے مگر علاقے کو آباد کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ زراعت کا شعبہ دیکھ لیں تو تباہ شدہ کھیت و باغات دیکھنے کو ملیں گے، روزگار نہ ہونے کے برابر ہے، اسی طرح مقامی ٹرانسپورٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئی شخص بیمار ہو جائے تو اسے ڈیرہ اسماعیل خان لایا جاتا ہے، ہسپتال تو تعمیر ہوئے ہیں مگر نہ ہی ڈاکٹرز ملیں گے اور نہ ہی کسی کو سرکاری ادویات ملیں گی، تمام پہاڑ معدنیات سے بھرے پڑے ہیں مگر اس کے باوجود بھی محسود نوجوان کراچی یا دبئی میں مزدوری کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔

حکومت کو چاہیے کہ سیاحت کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے محسود علاقوں کے مکانات کا مکمل معاوضہ ادا کرے، علاقہ محسود میں موجود معدنیات پر کام کیا جائے، ہسپتالوں میں وہی سہولیات دی جائیں جس طرح بندوبستی علاقوں کے لوگوں کو کچھ نہ کچھ دی جا رہی ہیں، چیک پوسٹوں پر انٹری کے نام پر رسوائی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ختم کیا جائے،  تعلیم کو عام کیا جائے، فیکٹریاں تعمیر کی جائیں تاکہ مقامی نوجوان سوشل میڈیا کی لت سے نکل کر اپنے اور اپنے خاندان کے لیے کچھ کریں۔ زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ مقامی زمیندار آٹا خریدنے کے لیے کسی اور علاقے میں نہ جائے، تب ہی یہ علاقہ آباد بھی ہوسکتا ہے اور علاقے کے لوگوں کا معاش بھی ٹھیک ہوسکتا ہے۔ جب معاش ٹھیک اور علاقہ آباد ہوگا تو یہی مقامی لوگ سیاحوں کو مدعو بھی کرسکتے ہیں، انہیں دو چار وقت کا کھانا بھی کھلا سکتے ہیں اور سیاحوں کی بغیر کسی معاوضے کی خدمت بھی کرسکتے ہیں جس سے ہمارا مہمان نوازی والا امیج بھی برقرار رہ سکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ