عدل و انصاف کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے

ایک بااثر خاتون کی جانب سے فلم اداکارہ عظمیٰ خان پر تشدد کے واقعے کے بعد حکومت اور سرکاری اداروں پر خوف ناک خاموشی چھائی رہی۔

عظمیٰ خان (انسٹاگرام)

پاکستان کا نظامِ عدل ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان رہا ہے۔ بدقسمتی سے عدالتوں کے بہت سے فیصلے متنازع رہے،جس کی ایک وجہ، غلط یا درست، یہ تاثر ہے کہ عدالتیں مبینہ طور  کسی نہ کسی قوت کے زیر اثر فیصلے کرتی ہیں۔

پورا پاکستان چند دن سے ایک نیا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پروائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں عثمان ملک نامی شخص کی بیوی آمنہ ملک اپنے گارڈز کے ہمراہ  ایک گھر میں گھس کر فلم اداکارہ عظمیٰ خان پر بہیمانہ تشدد اور توڑ پھوڑ کرتی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں عظمیٰ خان کے ان کے شوہر کے ساتھ کافی عرصے سے تعلقات ہیں۔

آمنہ ملک کے مطابق انہوں نے عظمیٰ کو کئی بار منع کیا لیکن وہ باز نہ آئیں جس پر انہوں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ اگر قانون کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وجوہات جو بھی ہوں، اس طرح گارڈز کے جتھے لے کرایک گھر میں ڈاکوؤں کی مانند گھسنا اور یوں مار پیٹ و توڑ پھوڑ کرنا مجرمانہ فعل ہے جس  کی سزا ہونی چاہیے۔

اصولی طور پر آمنہ ملک کو اپنے شوہرعثمان سے بات کرنی چاہیے تھی، اگر گھر ٹوٹنے سے بچانا تھا تب بھی اور اگر علیحدگی اختیار کرنا تھی تب بھی۔اس طرح کسی خاتون پر حملہ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔

کوئی بھی اپنے گھر والے کو چھوڑ کر دنیا کو سدھارنے کے لیے نہیں نکل سکتا۔ لیکن اس کیس میں ہوا کیا؟ آمنہ ملک نے عظمیٰ خان پر تشدد کیا، گارڈز کو عظمیٰ کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرنے کو کہا اور گالیاں دیں۔

ان کا  انداز ایسا تھا جیسے وہ عوامی تھانےدار ہوں، پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو اس واقعے کی ویڈیو بنا کر دنیا کے سامنے عظمیٰ خان کی عزت کا جنازہ نکال دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں آمنہ ملک پر ایک نہیں بلکہ متعدد کیس بن سکتے ہیں۔ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے کافی مواد ثبوت کے طور پر خود ویڈیو کی صورت میں موجود تھا لیکن گرفتاری تو دور کی بات  کسی نے اتنے بڑے واقعے کو اس قابل بھی نہ سمجھا کہ اس کی تفتیش کی جاتی۔

اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حملہ آور خاتون کا تعلق مبینہ طور پر ملک کی ایک طاقت ور شخصیت ملک ریاض کے خاندان سے ہے۔ چنانچہ کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور سرکاری اداروں کی سطح پر ایک بھیانک قسم کی مکمل خاموشی چھائی رہی۔

حکومتی وزیر خود میڈیا والوں سے وٹس ایپ پر پوچھتے رہے کہ تشدد کرنے والی آمنہ ملک اور ان کے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ لیکن کارروائی کے لیے اداروں کو متحرک کرنا تو دور کی بات ہے، کسی حکومتی عہدے دار میں اتنی ہمت بھی نہ ہوئی کہ اس  واقعے پر ایک ٹویٹ ہی کر دیتا۔

یہ واقعہ تبدیلی کی حامی اور انصاف کے نعرے پر بنی جماعت (پی ٹی آئی )کو آزمانے کے لیے کافی تھا۔ یہ تعین کرنا اب مشکل نہیں کہ حکومتی جماعت کے وعدوں میں کتنا دم ہے۔

بر صغیر کا معاشرہ قدامت پسند ہےاور یہاں چادر اور چار دیواری کی پامالی ایک جرم ہے، نہ صرف قانونی طور پر بلکہ معاشرتی طور پر بھی اس کی سنگینی مسلم ہے۔

پاکستان کا آئین ہر شہری کے لیے چادر اور چار دیواری کا تقدس یقینی بناتا ہے لیکن کیا اس ملک میں آئین پر عمل درآمد یقینی بنایا جاتا ہے؟ یہ ایک اور سوال ہے۔

کسی کو ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ  ایک  گھر کا پردہ پامال کرے، غیر مردوں کے سامنے ایک عورت کے گلے سے اس کا دوپٹہ کھینچے اور غنڈوں کی طرح مسلح گارڈز کو اس کے ساتھ مبینہ طور پرزیادتی کرنے کو کہے۔

اس واقعے کا ایک شرم ناک پہلو یہ ہے کہ عثمان ملک، جنہوں نے بقول عظمیٰ خان ان سے شادی کے وعدے کیے، وہاں بت بنے لڑکی کو مار کھاتے دیکھتے رہے۔

انہوں نے اپنی بیوی کو قابو کرنے کی کوشش تک نہ کی، انہوں نے گارڈز کو یہ نہ کہا کہ وہ اسی وقت گھر سے نکل جائیں، بس بزدلوں کی طرح اس وقت اور بعد میں بھی پورے معاملے سے یکسر غائب رہے۔

'دو نہیں بلکہ ایک پاکستان' کے دعوے دار اگر اب بھی کہیں کہ وہ نظام عدل میں بہتری لائیں گے یا اصلاحات کریں گے تو یہ ایک مضحکہ خیز بات سمجھی جائے گی۔

اگر کچھ کرنا ہوتا تو وزیر اعظم واقعے کے منظر عام پر آتے ہی اس کا نوٹس لیتے اور آئی جی پنجاب اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو حکم جاری کرتے کہ فوری طور پر مجرموں کی گرفتاری یقینی بنائی جائے۔

ہم صرف عمران خان سے ہی اس بات کی توقع کر سکتے تھے کہ وہ کسی بھی طاقت سے ڈرنے یا اس کے آگے جھکنے والے نہیں۔ ہم صرف انہی سے یہ امید کر سکتے تھے کہ وہ بکنے والے نہیں، اس لیے یہ سوال بنتا ہے کہ ابھی تک انہوں نے اس واقعے کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ شاید انہیں بھی یہی لگتا ہے کہ آمنہ ملک کا اپنا گھر بچانے کا یا شوہر پر غصہ نکالنے کا یہی طریقہ ٹھیک تھا۔

سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے کہ عوام میں اس واقعے پر کس قدر شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے، اس کے باوجود ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔

اس کے بعد تو غالب ہی یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔۔

اس کیس کا انجام تو سب کو معلوم ہے کہ فریقین میں صلح صفائی ہو جائے گی لیکن آئندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بےحد ضروری ہے کہ آمنہ ملک اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری ہو،انہیں  جج کے سامنے پیش کیا جائے، پھر اس کے بعد چاہے دونوں فریق صلح کر لیں، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔

لیکن اگر آج آمنہ ملک اپنی طاقت کے نشے میں چور اس کیس سے بغیر کسی سزا یا پوچھ گچھ کے نکل جاتی ہیں تو کل کو یہ روایت مزید پختہ ہو گی اور ہر طاقت ور جب چاہے گا کمزور کے گھر گھس جائے گا اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسے بلا خوف و خطر نقصان پہنچائےگا۔

ایسے واقعات بھول بھی جائیں تو ذہن کے کسی نہ کسی کونے کھدرے میں محفوظ رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ ہر طاقت ور اس اعتماد کے ساتھ ظلم کرے گا کہ مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ معاشرے میں ظلم کا رواج اسی طرح جڑ پکڑتا ہے اور دھیرے دھیرے جنگل کا قانون رائج ہونے لگتا ہے۔ پاکستان میں قانون کی عمل داری پہلے ہی بہت کمزور ہے، اس واقعے نے اسے کمزور تر کر دیا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر